کرناٹک: متعدد مطالبات کو لے کر ایس ڈی پی آئی کا ”چلو بیلگام امبیڈکر جتھا“

کانتا راج کمیشن کی رپورٹ کو منظوری دے کر منظر عام پر لانے، مرکزی حکومت سے سداشیو کمیشن رپورٹ کی سفارش کرنے اور مسلمانوں کو دیے گئے 2B ریزرویشن بحال کر اس کو 8 فیصد تک بڑھانے کا ریاستی حکومت سے کیا مطالبہ
بنگلور: 09؍ دسمبر (پریس ریلیز) سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کرناٹک کے ریاستی صدر عبدالمجید نے کوپل میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایس ڈی پی آئی کی جانب سے گزشتہ اکتوبر ماہ سے کانتار ا ج کمیشن رپورٹ کو قبول کرکے اسے منظر عام پر لایا جائے۔سدا شیو کمیشن رپورٹ کو مرکز کو سفارش کیا جائے۔مسلمانوں کو حاصل 2Bریزرویشن بحال کیا جائے اوراس کو بڑھا کر 8%فیصدکیا جائے کے مطالبات کو لیکر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔اسی سلسلے کے ایک کڑ ی کے طور پر بیلگام سرمائی اجلاس میں مذکورہ مطالبات کو پورا کرکے سماجی انصاف قائم کرنے کے مطالبے کو لیکر ایس ڈی پی آئی کی جانب سے گزشتہ 6دسمبر کو بنگلور ودھان سودا کے قریب سے ایک "چلو بیلگام۔ امبیڈکر جتھا”کا آغاز ہوا۔ یہ جتھا دس اضلاع کا سفر کرکے 11دسمبر 2023کو سرمائی اجلاس سیشن چل رہے بیلگام سورنا سودھا پہنچے گا اور مذکورہ مطالبات کو پرزور آواز میں حکومت کے سامنے رکھا جائے گا۔ چلو بیلگام جتھا کے کیپٹن ریاستی جنرل سکریٹری بی آر بھاسکر پرساد ہیں۔ عبدالمجید نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی کہتے ہیں کہ ذات کی مردم شماری ملک کا ایکسرے ہے، ان کی ہی حکومت کرناٹک میں ہے، کرناٹک میں کانتا راج کمیشن رپورٹ تیار ہے لیکن خود کانگریس کے کچھ مخصوص اراکین ہی اسے روک رہے ہیں۔ سدارامیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت، جو 2013 میں برسراقتدار آئی، نے پسماندہ افراد کی ترقی کے لیے منصوبے بنانے اور ریاست میں تمام ذات برادریوں کے سماجی اور معاشی حالات کے بارے میں معلومات اور اعدادوشمار کی اطلاع دینے کے لیے کانتاراج کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ کمیشن نے ریاست بھر میں برسوں سے ایک سروے کیا ہے اور اس نے ان ذات برادریوں کے حقیقی حالات کے بارے میں اعدادوشمار کے ساتھ رپورٹ دی ہے جو ذات پات اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم ہیں اور کئی طریقوں سے استحصال کا شکار ہیں حکومت کانتاراج کمیشن کی سروے رپورٹ کو قبول کرنے کے لیے ایک گھٹیا بہانہ استعمال کر رہی ہے، جس نے اس رپورٹ کو تیار کرنے پر 167 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتےہیں۔ ایس ڈی پی آئی پارٹی کا مطالبہ ہے کہ کانتاراج کی رپورٹ کو فوراً قبول کیا جائے اور اسے عام کیا جائے۔
اسی طرح درج فہرست ذاتوں کو ریزرویشن کی الاٹمنٹ میں، چند برادریوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا کیونکہ وہ اچھوت تھے۔ لہٰذا درج فہرست ذات کی اچھوت برادریوں کی جدوجہد جنہیں سماجی انصاف کے لیے اندرونی ریزرویشن کی ضرورت ہے، یہ تقریباً ان کی 30 سال کی لڑائی ہے۔ اس سلسلے میں بنائے گئے سداشیوا کمیشن کی رپورٹ کو ایک دہائی ہو چکی ہے، جس میں حکومت کو اندرونی تحفظات کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم، برسراقتدار حکومتیں اچھوت برادریوں کے منصفانہ مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اور مسلسل ناانصافی کرتے ہوئے، اندرونی ریزرویشن کے نفاذ کے لیے مرکزی حکومت کو رپورٹ کی سفارش نہیں کر رہی ہیں۔ اس لیے ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ سداشیوا کمیشن کی رپورٹ کو فوری طور پر مرکزی حکومت کو پیش کرنے کی سفارش کی جائے۔بسواراج بومائی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے زمرہ 2B کے تحت 4% ریزرویشن کو ختم کر دیا تھا، جو اب تک مسلمانوں کے لیے موجود تھا، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً 17% فیصد ہیں۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے حکومت کے اس غیر آئینی فیصلے پر روک لگا دی ہے، لیکن حکومت کے اعلیٰ سطحی عہدیدار ریزرویشن کے جاری رہنے کو لے کر تذبذب کا شکار ہیں۔ الجھن میں اضافہ کرتے ہوئے، موجودہ سدارامیا کی قیادت والی کانگریس حکومت مناسب فیصلے لینے میں تاخیر کر رہی ہے، جو کانگریس حکومت کی مسلم مخالف ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم حکومت کے اس رویے کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ختم کیے گئے 2B ریزرویشن کو بحال کیا جائے بلکہ سماجی انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی شرح کو 4% فیصد سے بڑھا کر 8% فیصدکیا جائے۔
بنگلور تا بیلگاوی جتھا حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ ہمارے ان منصفانہ اور آئینی مطالبات پر فوری غور کرے اور 4 دسمبر سے سوورنا ودھانسودا، بیلگاوی میں جاری بیلگاوی اجلاس میں مناسب فیصلے کرے۔ ہم ملک کے تمام شہریوں، دانشوروں، مختلف تنظیموں، کسانوں، مزدوروں، ملازمین اور طلباء سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایس ڈی پی آئی کے سوورن سودھا بیلگاوی چلو مارچ کی حمایت میں ہمارا ساتھ دیں۔ جتھا کے تیسرے دن کوپل اور گنگاوتی میں ایس ڈی پی آئی ریاستی جنرل سکریٹری افسر کوڈلی پیٹ اور ریاستی سکریٹری امجد خان سمیت ہزاروں کارکنان شریک رہے۔
Comments are closed.