Baseerat Online News Portal

لاؤڈاسپیکر اور ہندو قوم!!!

 

مکرمی!
ہندوستان کے کئی ایک صوبے ہیں،جہاں بار بار متعصب اور سخت دل ہندؤں کی جانب سے اذان کے لیے استعمال کیے جانے والے ’لاؤڈ اسپیکر‘کی انتہائی شدت کے ساتھ مزاحمت کی جاتی ہے۔
ان کا کہناہے کہ’لاؤڈ اسپیکر‘ سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور صبح سویرے اس سے نیند میں خلل پڑتاہے۔ اس لیے ہم ’لاؤڈ اسپیکر‘ سے اذان نہیں دینے دیں گے۔
جس کی بناءپر پہلے بہت سی مسجدوں سے ’لاؤڈ اسپیکر ‘اتارے بھی جاچکے ہیں اور بہت سی مسجدوں کے ذمے داران کو اتارنے کا حکم بھی دیا جاتا رہتاہے۔
مگر سنجیدہ اور نرم دل ہندؤں کا کہنا ہےکہ ’جب ہمارے بڑوں کو لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والی اذان سے کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا،تو ہمیں پھر آخر کیوں اعتراض ہوگا؟‘اذان سے تو ہمارا ہی فایدہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہمیں صبح ہونے کا پختہ علم ہوتاہے اور گاؤں سماج سے شیاطین بھی نکل بھاگتے ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والی اذان سے جب ہمارا ہی فایدہ ہے ،تو پھر ہم کیوں اس کی مخالفت اور مزاحمت کریں؟اگر کوئی ایسا کرتاہے ہے،تو یہ اس کی پاگل پنتی ہے۔‘
اسی تناظر میں جب ایک پنڈت سے ایک میڈیا والے نے سوال کیا کہ ’پنڈت جی آپ کے گاؤں اور قرب وجوار میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے،جس کی بناء پریہاں کی ہر مسجد میں’لاؤڈ اسپیکر‘ سے اذانیں بھی دی جاتی ہیں،تو اذان کی آوازیں لازماً آپ کی کانوں سے ٹکراتی ہوں گی،تو کیا آپ کو بھی اذان کی آوازوں سے کوئی دقت ہوتی ہے؟‘
پنڈت جی نے جوابا عرض کیا کہ’یقینا ہمارے یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور یہاں مدرسے اور مسجدیں بھی ہیں اور ہر مسجد سے اذان’ لاؤڈ اسپیکر‘ہی سے دی جاتی ہے؛مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمیں’’ اذان کی آوازوں‘‘ سے کبھی کوئی دقت نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ہوگی ؛کیوں کہ اذان کے ذریعہ مسلمانوں کو پرماتما(خالق ومالک) کی عبادت (نماز)کے لیے بلایا جاتاہے اور پرماتما کی عبادت،تو ایک انتہائی مستحسن عمل ہے۔
یوں تو ہم بھی اور سارے ہندو بھی اپنے اپنے طور پر’ پرماتما ہی کی پوجا ‘کرتے ہیں۔تو جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ’ اذان کی آوازوں‘ سے کسی کو کوئی دقت نہیں ہونی نہیں چاہیے۔
مگر اس کے باوجود بھی اگر کسی کوکوئی دقت اور پریشانی ہوتی ہے،تو سمجھیے کہ اسے ’پرماتما ہی ‘سے دقت ہے،اور ایسے لوگ انسان کبھی نہیں ہوسکتےہیں،جنھیں اپنے ’پرماتما کی پوجا‘ سے کسی طرح کی کوئی دقت ہو۔
پنڈت جی کا بیان،انتہائی خوش کن اور قابل تعریف ہے،اس بیان کی خوب پزیرائی ہونی چاہیے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی طرح کے مزید ’بیانات ‘کشادہ نظر،وسیع الظرف اور سنجیدہ ہندؤں سے لیے جائیں اور پھر انھیں ’سوشل میڈیا‘ پر اپلوڈ کیے جائیں ،تاکہ جو ’نفرتیں‘ سنگ دل ہندؤں کے دل ودماغ میں پنپ رہی ہیں، ان کاخاتمہ ہوسکے اور معاشرے میں ہندو مسلم اطمینان کی زندگی بسر کر سکیں۔
انوارالحق قاسمی دیوبندی

Comments are closed.