"دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا۔۔۔۔۔!”

شہلا کلیم

 

ریختہ ریختہ ریختہ۔۔۔۔۔ ہو گئی دانشوری؟ آئیے اب اردو ادب کے قارئین و سامعین و ناظرین و مصنفین اغیرہ وغیرہ کی حیثیت سے اپنی کارکردگی پر نظر کرتے ہیں۔۔۔

کہانی شروع کرنے سے پہلے اس معصوم طبقے کیلیے دو پل کا مون وِرَت جو ریختہ کو کسی بھی حوالے سے اردو ادب کا خادم بنانے پر بضد ہے۔ یا جو جشن ریختہ میں جاکر اردو رسم الخط تلاشنے کی کوشش کرتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں۔

جبکہ حقیقت یوں ہے کہ ریختہ ایک بزنس ہے اور سنجیو صراف ایک بزنس مین کا نام ہے۔ نہ وہ آپ کے رسم الخط کا محافظ ہے اور نہ اردو زبان و ادب کا ٹھیکیدار۔ ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اردو کے نام پر پیسہ کمانا اور عوام کا بے وقوف بنانا کہاں تک جائز ہے۔ (تو بھئی فی زمانہ تجارت کا دوسرا نام عوام کو بے وقوف بنانا ہی ہے۔ اور عربی کے اس مشہور مقولے سے تو آپ خوب واقف ہوں گے۔۔ در مع الدھر کیف ما دار) تجارت کے بے شمار شعبے ہیں ۔ لیکن تجارت کے سلسلے میں شاید یہ واحد شعبہ تھا جس پر آج تک کسی کی نظر نہ پڑی یا کسی نے ہمارے ان پروفیسران کی طرح جو کھاتے ہیں اردو کا اور گاتے ہیں اوروں کا؛ اس شعبے کو لائق اعتنا ہی نہیں سمجھا۔ اور سنجیو صراف جیسے "ماہر تاجر” کی عقابی نگاہوں نے اسے اچک لیا۔ اب خدارا یہ نہ کہیےگا کہ آپ کے ہاتھوں سے اچک لیا۔ کیونکہ یقین جانیے آپ نے تو اسے کب کا طاق نسیاں پہ رکھ چھوڑا ہے۔ سو اب یہ ہنگامہ ہائے ہوش و خرد، چہ معنی دارد!؟

جشن ریختہ صرف اور صرف ایک جشن ہے۔ اسے زبان و ادب سے جوڑ کر پرکھنے کی حماقت نہ کیجیے۔ البتہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی پیشکش کے آئینے میں اسکو بہرحال دیکھا جا سکتا ہے۔ اور اس اعتبار سے اردو اسی تہذیب کا ایک حصہ ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ ریختہ کا مقصد اور سنجیو صراف کی نیت نہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی پرورش و پرداخت ہے اور نہ ہی اردو زبان و ادب کی خدمت و تحفظ۔ یہ خالص تجارتی شعبہ ہے ہاں البتہ اسی ضمن میں کوئی بہتر کام سرزد ہو جائے تو الگ بات! (ایسے بہت سے کام ہوئے بھی ہیں ۔۔۔ یہ کہانی پھر سہی!)

ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اردو کے شعراء و ادباء کو ریختہ کے اسٹیج پر پرفارم کرنے کے "جرم” میں گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ اول تو اتنے بڑے جشن میں اردو کے جتنے معتبر نام نظر آتے ہیں ان کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ سو یہ مردم شماری کرکے شرمندہ نہ ہوں!

ایسا نہیں ہے کہ جو محروم ہیں وہ شرکت نہیں کرنا چاہتے۔ بات یہ ہے کہ سنجیو صراف جیسا ماہر تاجر خوب واقف ہے کہ کیا بیچنا ہے ، کس کو بیچنا ہے، کتنا بیچنا ہے اور واقعتا کیا بکےگا۔ کیونکہ اگر آپ کو مارکیٹ ڈیمانڈ کا ہی علم نہیں تو آپ خاک تاجر ہوئے۔

اب واپس اسی جرم کی طرف آتے ہیں جو بزعم ایک خاص طبقے کے ہمارے شعراء و ادبا جشن ریختہ میں شرکت کرکے کرتے ہیں۔

آج کل ایک موضوع کو سمجھنے کی تگ و دو جاری ہے۔ اسی کے ضمن میں جب محرکات فنون کو سمجھنے کی کوشش کی تو کئی وجوہات سامنے آئیں مثلا علم، شہرت، ضرورت، آسائش، حسن اور محبت وغیرہ

آخر ایک فن کار فن پارہ کیوں تراشتا ہے؟ ایک ادیب کیوں لکھتا ہے؟ کسی بھی تخلیق کی تدوین و تکوین کے محرکات و موجبات کیا ہیں؟

یقینا اذہان و شخصیات کی انفرادیت کے اعتبار سے وجوہات بھی منفرد ہو سکتی ہیں۔ کسی کیلیے تخلیق کا عمل اپنے اندر کی خلش مٹانے یا اپنی ذات کی الجھن اور فرسٹریشن کو دور کرنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، کسی کو ضرورت درپیش ہے تو کسی کو شہرت درکار ہے۔ کوئی آسائش کو فوقیت دیتا ہے تو کسی کیلیے حسن و محبت؛ فن کا اظہاریہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ ضرورت اور شہرت فن کی تدوین کی دو بڑی اور بنیادی وجوہات ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم ہے جو ان تمام محرکات فنون ( بلکہ تمام کیوں صرف بنیادی کی ہی بات کر لیجیے) کی سیرابی کا باعث ہو؟

آپ کو کیوں لگتا ہے کہ آپ کا تخلیق کار ان محرکات و موجبات سے مبرا ہے؟ یا اسکو یہ مسائل درپیش نہیں۔

ضرورت کا یہ حال ہے کہ آپ کا ادیب بھوکا گھوم رہا ہے لیکن اسکا ہر حرف معمولی کاغذ اور کپڑے پہ چھاپ کر ہزاروں روپیوں میں بیچ کر ریختہ کا کاروبار چلایا جا رہا ہے۔

شہرت کا یہ عالم ہے کہ دو چار استعاروں اور تراکیب میں لپٹے شعر کو داد کے طور پر موت کا سا سکوت جھیلنا پڑتا ہے۔ اور اردو کے نام پر غلاظت انڈیلنے والے شاعر کی پذیرائی میں ایسی افرا تفری گویا مجمع حشر کا میدان بن گیا ہو۔ اور اردو کی بے گور و کفن تعفن زدہ لاش پہ کھڑے ہو کر جشن ریختہ منایا جاتا ہے۔

اب خدارا یہ بھی نہ کہیے گا کہ آپ کے پاس باذوق اور معتبر "آڈینس” (قارئین و سامعین و ناظرین و حاضرین وغیرہ وغیرہ) کی کمی ہے۔ یقین جانیے ریختہ کے پردے پر چلتے پھرتے کردار دونوں ہاتھوں سے شہرت اور دولت سمیٹ رہے ہیں لیکن پس پردہ کام کرنے والے آپ کے گمنام اور افلاس زدہ ذہین دماغوں کی اجرت محض خواری ہے۔ حالانکہ حقیقتا یہی ریختہ کا اصل ڈھانچہ ہیں۔ یہ تمام اگر آج ہی علیحدگی اختیار کرکے کسی ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہو جائیں تو تباہی مچا دیں۔ کیونکہ تجارت میں کامیابی کا ایک ہی اصول ہے کہ بازار میں بلمقابل سے زیادہ بہتر، سستا اور ٹکاؤ پیش کیا جائے۔

اب یہاں لفظ تجارت پہ بھی بہتوں کو مسئلہ ہوگا۔ کہ آخر زبان و ادب کو بزنس بنا کے کیوں پیش کیا جائے۔ تو بھئی اس سے ہٹ کر تو نہ آپ پہلے کچھ کر پائیں ہیں اور جیسے آثار ہیں نہ آئیندہ کر سکیں گے۔ سوائے اس کے کہ زندگی بھر لکھ لکھ کر دماغ گِھستے رہیں اور بدن گَلاتے رہیں۔ پھر کوئی سنجیو صراف آپ ہی کا ایک ایک حرف آپ کو ہزاروں میں بیچے۔

غور طلب یہ ہے کہ ایسا کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنا اور اسے شہرت و معرفت اور کامیابی کے اس مقام تک پہنچانا تو کجا آپ کے پاس کسی ایسی شاخ کو نام دینے کیلیے لفظ ریختہ سے بہتر متبادل تک موجود نہیں۔

باعث حیرت کہ آپ اور آپ کے اسلاف صرف لکھ لکھ کر انبار لگاتے رہے اور پڑھ پڑھ کر دماغ گَلاتے رہے۔ زبان و ادب کی لغات کے ذخائر جمع کر دئیے۔ پندرہ سولہ سو قبل مسیح تک اردو کے نشانات کھوج ڈالے۔ لیکن ریختہ جیسا کوئی کارنامہ نہ انجام دے سکے۔ اور ایسے سر سبز و شاداب علماء و ادبا کے بیچ سے ایک انتہائی غیر ادبی شخص آ کر ایسا اچھوتا اور منفرد لفظ لے اڑا۔

وجہ جگ ظاہر ہے کہ آپ کا تعلق بڑی قناعت پسند قوم سے ہے۔ خواہ وہ مذہبی رو سے ہو یا تعلیمی اعتبار سے لفظ تجارت آپ کو کبھی ہضم ہوا ہی نہیں۔ اور سہولت پسندی ایسی کہ زندگی کا مقصد ہی محض اس قدر ہے کہ عالم شباب میں تعلیم کے نام پر پروفیسرز کی پشت کے پیچھے جوتیاں گھستے رہیے۔ خدا خدا کرکے کفر ٹوٹے تو خود پروفیسر ہو جائیے اور آنے والی نسلوں اور نوجوانوں کو اپنے پیچھے جوتیاں گھسوائیے۔ لیجیے اردو ادب کا حق ادا ہوا اور زندگی کا مقصد پورا ہوا۔

حالانکہ اردو کا ہر طالب علم اور پروفیسر بخوبی واقف ہے کہ اس سہولت پسندی میں کس قدر مشکل اور خواری آپ کا مقدر بنتی ہے!

سہ روزہ جشن ریختہ اختتام کو پہنچا۔ کچھ دانشوارن علم و ادب اور حامیان اردو ادب کی احتجاجی آوازیں بلند ہوئیں اور جشن ریختہ کے شور میں کہیں گم ہو گئیں۔اور اب یہ آوازیں سال بھر سکوت میں ڈوبی رہیں گی پھر اگلے برس جشن ریختہ کے ساتھ اٹھیں گی اور اس ہنگام کے تھمتے ہی پھر کہیں کھو جائیں گی کیونکہ ہماری مثال بلکل ان برساتی مینڈکوں کی طرح ہے جو سال بھر کسی نرم گوشے میں محو خواب ہوتے ہیں اور صرف سیزن میں آکر ٹرٹر کرتے ہیں!

 

~شہلا کلیم

Comments are closed.