Baseerat Online News Portal

’’قومی اسکول‘‘

نوحہ خوانی ہماری پرانی عادت ہے۔ حقائق سے غفلت اس پر مستزاد ہے۔ پرانی دہلی کے قومی اسکول کے بارے میں وقتا فوقتا نوحہ نظر آتا ہے جس میں ملی رہنماؤں اور سیاستدانوں کو کوسا جاتا ہے اور ذمےدار مانا جاتا ہے۔ ابھی چند روز کے اندر اس طرح کا ایک مضمون نظر آیا۔
دہلی اقلیتی کمیشن میں اپنے دور میں، میں نے قومی اسکول کا مسئلہ حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ محکمۂ تعلیم کو نوٹس جاری کیا اور قوم کے رہنماؤں سے مدد چاہی۔ محکمہ تعلیم نے جواب دیا کہ قومی اسکول کے دوبارہ نہ بننے میں دو مسائل درپیش ہیں:
۱- قومی اسکول کی متعدد سوسائٹیاں ہیں، جو خود کو اس کا ذمےدار ہونے کا دعوی کرتی ہیں۔ محکمۂ تعلیم کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کے دعوے کو تسلیم کرے اور کس سے بات کرے۔
۲- قومی اسکول کے اصل کاغذات ناپید ہیں، جس کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی ہے۔
یہ مقامی لوگوں اور سماجی کارکنان کا کام ہے کہ متعدد کمیٹیوں کو مجبور کریں کہ ایک کمیٹی بنائیں، نیز پوری طاقت سے جٹ جائیں کہ قومی اسکول کے اصل کاغذات یا کم از کم اس کی نقول حاصل کریں۔ میرے خیال میں دہلی کے کچھ محکموں کے پاس ضرور اس کے کاغذات ہوں گے مگر اس کے لئے وقت اور پیسہ خرچ کرنا ہو گا۔ اگر قوم میں دم ہے تو یہ کرے ورنہ وقتا فوقتا نوحہ خوانی بند کرے۔
نیازمند
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
سابق صدر دہلی اقلیتی کمیشن
[email protected]

Comments are closed.