ماما، ڈاکٹر اور مہارانی کی کہانی

ڈاکٹر سلیم خان
بھارتیہ جنتا پارٹی نے بالآخر شیوراج سنگھ ماما کو نانا بنا ہی دیا۔اپنے لاڈلے بھیا کی رخصتی پر لاڈلی بہنی پھوٹ پھوٹ کر روئیں ۔ 2018؍ میں مودی جی کی قیادت کے اندر مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا ۔ اس شکست کا ٹھیکرا وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے سر پھوڑا گیا۔ اس کے بعد جیوتردیتیہ سندھیا کو ان کے حامیوں سمیت توڑ کر کمل ناتھ کی کانگریس سرکار گرا دی گئی ۔ اس کا کریڈٹ امیت شاہ کو دیا گیا۔ اس لیے کہ پارٹی میں کریڈٹ لینے اور ٹھیکرا پھوڑنے کے لیے کردار مقرر ہیں۔ جب بھی کوئی ہار ہوگی تو جے پی نڈا اور صوبائی وزیر اعلیٰ یا صدر کو بلی کا بکرا بنایا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اس کا قلادہ پہن کر مسکرائے گا لیکن جب کامیابی ملے گی تو مودی اور شاہ کے سر پر سہرا باندھ دیا جائے گا۔ بی جے پی نے پچھلی ہی مرتبہ شیوراج سنگھ کوہٹانے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر باہر سے آنے والےغیروں کو سنبھالنا اور اپنوں کو منائے رکھنے کے چیلنجس تھے اس لیے انہیں برداشت کرلیا گیا۔ اس بار ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ کانگریس بی جے پی کے نصف سے بھی کم ہے اس لیے شیوراج کی جگہ منوج یادو کو وزیر اعلیٰ بنانے کا خطرہ مول لے لیا گیا۔ اس طرح کمل ناتھ توکمل کھلا کر شکست کھا گئے مگر شیوراج ہاتھ توڑ کر بھی ہار گئے۔
چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کو بی جے پی ہائی کمان نے ڈاکٹرسے کمپاونڈر یعنی وزیر اعلیٰ کے بجائے اسپیکر بنا دیا۔ رمن سنگھ 1990 میں جس وقت رکن اسمبلی بنے تو اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹکٹ دینے کا خیال بھی کسی کو نہیں آیا تھا ۔ 1999؍ میں اٹل جی کی کابینہ میں جب وہ وزیر بنے تو اس وقت گجرات میں بی جے پی برسرِ اقتدار تھی اس کے باوجود تک مودی جی کووزیر اعلیٰ تو دور اسمبلی کے رکن بھی نہیں بنایا گیا تھا ۔ رمن سنگھ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے اس بار پھر انہیں کی توقع تھی لیکن مودی جی اپنے سے زیادہ تجربہ کا ر اور اہل فرد کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے انہیں مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر کی مانند اسپیکر کا بے ضرر عہدہ دیا جارہا ہے ۔ اس عہدے پر حزب اختلاف کی زبان بندی کے سوا اور کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوتا۔ ویسے آج کل اوم برلا نے اڈانی کے خلاف بولنے والوں کو برخواست کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی اپنے سر اوڑھ رکھی ہے۔ ایوان بالا میں جگدیپ دھنکر بھی وزیر اعظم کی چاپلوسی کے ساتھ یہی کررہے ہیں۔آگے رمن سنگھ اور نریندر تومر بھی اوم برلا کی پیروی کریں گے۔ ان دو صوبوں کے بعد راجستھان کی مہارانی وسندھرا راجے کو بھی نوکرانی بناکر بھجن لال شرما کو وزیر اعلیٰ نامز دکردیا گیا۔ اس طرح ماما اور ڈاکٹر کے بعد مہارانی کی کہانی بھی اختتام پذیر ہوگئی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان اقدامات کے پیچھے ان رائے دہندگان کی فلاح و بہبود پیش نظر جنھوں نے اپنا قیمتی ووٹ دے کر بی جے پی کو اقتدار سے نوازہ ؟ شورائیت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جن لوگوں کے حق میں عوام نے اپنی رائے دی ہے انہیں بلا مداخلت اور دباو باہمی رائے مشورے سے اپنا رہنما منتخب کرنے کی چھوٹ دی جاتی۔اس طرح عوام کے ذریعہ حکومت کا جمہوری تقاضہ پورا ہوجاتا لیکن جمہوریت میں ہاتھی کے دکھانے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ یہاں عوام کو یہ آزادی تو ہوتی ہے کہ وہ اپنا نمائندہ منتخب کریں مگر منتخب نمائندے ہائی کمان کے بندۂ بے دام ہوتے ہیں۔ اس طرح چوردروازے سے پارٹی ہائی کمان عوام کی آزادی سلب کرکے بلا واسطہ انہیں اپنا غلام بنالیتا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر ارکان اسمبلی اپنے رائے دہندگان کے بجائے پارٹی رہنماوں کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک رائے دہندگا ن کا مفاد ثانوی اور رہنما کی خوشنودی اول درجہ پر پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے انتخابات کی نوٹنکی کے باوجود عوامی فلاح و بہبود کا کوئی ٹھوس کام شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔
موجودہ نظام ِ سیاست میں جماعتوں کی حیثیت پولیٹیکل مافیا کی سی ہوگئی ہے۔ پارٹی کے ارکان سربراہ بن کر اقتدارقابض ہوکر اسے محفوظ و برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ حکمرانوں کے تخت و تاج پہلا خطرہ حزب اختلاف سے لاحق ہوتا ہے جو اسے بے دخل کرکے اقتدار پر فائز ہونا چاہتا ہے دوسرے پارٹی کے اندرونی حریفوں بھی ا س کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ انتخابی نتائج سے قبل بیرونی چیلنج کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور بعد میں داخلی خطرات سے نمٹا جاتا ہے۔ تین صوبوں میں زبردست کامیابی درج کرنے کے بعد بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کا تقرر اسی لیے نہیں ہوپارہا تھا۔ ملوکیت میں بھی بادشاہوں کی سلطنت پھیلتی اور سمٹتی تھی۔ اس وقت ان کےہاتھ میں جب کوئی نیا علاقہ آجاتا تو وہاں کے انتظامی امور کی خاطر وہ اپنے کسی قابلِ اعتبار وفادار کو صوبیدارمقرر کردیتے تھے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری رعایا کی فلاح بہبود کے بجائے بادشاہ سلامت کے مفادات کا تحفظ و توسیع ہوتا تھا ۔ جمہوری نظام میں بھی یہی ہورہا ہے اس لیے علامہ قبال کے ابلیس کا وہ دعویٰ یاد آجاتا ہے؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
تو نے کیا دیکھا نہیں مودی کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
فی الحال وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر فائز ہونے والوں کا انتخاب ان کی صلاحیت نہیں بلکہ ذات برادری کی بناد پر کیا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کو قبائلی وزیراعلیٰ نہیں بنانے کی سزا ملی ۔ اس سے سبق سیکھ کر وشنو دیو سائے کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ انہوں نے عہدے پر فائز ہونے کے بعد کسی افسر سے فون پر جوگفتگو کی وہ و ذرائع ابلاغ میں دھوم مچا رہی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہایت بددماغ اور بدزبان شخصیت کے حامل ہیں مگر چونکہ انہیں کے ذریعہ قبائلیوں کوبیوقوف بناکر 2024 میں پھر سے انتخاب جیتنا ہے اس لیے وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔ ان کے نائیبن میں بھی ایک قبائلی اور دوسرا برہمن ہوگا جو پہلی بار منتخب ہوا ہے۔ یہ منہ بھرائی نہیں تو کیا ہے؟ مدھیہ پردیش میں تیسری قطارکے اندر براجمان موہن یادو کو محض اس لیے وزیر اعلیٰ بنایا گیا تاکہ یادو سماج کو اپنی جانب راغب کیا جاسکے ۔ ان کو ایک برہمن اور ایک دلت نائب دیا جائے گا تاکہ دلتوں ، برہمنوں ، او بی سی اور قبائلیوں کو جھانسا دیا جاسکے۔ حزب اختلاف جب ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرواکرپسماندہ سماج ان کے حقوق دینے کی بات کرتی ہے تو اس پرسماج کو تقسیم کرنے کا الزام لگادیا جاتا ہے مگر بی جے پی خود جب یہی تماشا کرتی ہے تو اسے سوشیل انجنیرنگ کی خوبصورت اصطلاح سےمنسوب کر دیا جاتاہے ۔
سچائی تو یہ ہے کہ بی جے پی ان چہروں کو دکھا کرہندووں کے مختلف طبقات کو ریوڈیاں بانٹ رہی ہے ۔ بدزبان وشنو دیو سائے، اور بدعنوان منوج یادو اور جرائم پیشہ بھجن لال شرما کی ڈاکٹر رمن سنگھ ، شیوراج سنگھ اور وسندھرا راجے سندھیا پر ترجیح کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ وطن عزیز میں برہمنوں کی با بت یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ نہایت پڑھے لکھے اور ذہین ترین لوگوں پر مشتمل ہے۔ آر ایس ایس کے برہمن نواز تحریک ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ایک زمانے میں زیادہ تربرہمن کانگریس کے ساتھ تھے پھر ان کو جوتے مارنے کی ترغیب دینے والی بی ایس پی کے ہمنوا بن گئے اور آج کل ہول سیل میں بی جے پی کی حمایت کررہے ہیں کیونکہ ابن الوقتی کی فطرت کا یہی تقاضہ ہے۔ر اجستھان سے قبل انہیں کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا بلکہ نائب کا نمائشی درجہ دے کر ٹرخا دیا گیا جس میں عزت یا اختیارِ عمل نہیں تھا۔ مسلمان تو خیر بی جے پی کے مخالف ہیں اس لیے ان کا بی جے پی کے حاشیے پررہنا قرین قیاس ہے لیکن جان نچھاور کرنے والے برہمنوں کا فوٹ نوٹ پر ہونا باعث ِ تشویش تھا اس لیے شرما جی کی قسمت کھل گئی۔
2014 میں انتخابی کامیابی کے بعد وزیر اعظم کی خود اعتمادی کے ساتھ ذات پات کے بت کو توڑنے کی کوشش کی ۔ جھارکھنڈ میں اڑیسہ کے ایک غیر قبائلی رگھوبر داس کو وزیر اعلیٰ بنادیا ۔ تریپورہ میں ایک بنگلادیشی کے بیٹے بپلب کمار دیب کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے نوازہ ۔ ہریانہ میں غیر جاٹ منوہر لال کھٹر اورگجرات میں غیر پٹیل وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اسی چکر میں مہاراشٹر کو غیر مراٹھا برہمن وزیر اعلیٰ مل گیا لیکن اب ہریانہ کے علاوہ سارے وزرائے اعلیٰ بدل گئے ہیں۔ مہاراشٹر میں سب سے زیادہ نشستوں کی حامل بی جے پی اپنے سابق برہمن وزیر اعلیٰ کو ایک باغی مراٹھا کا نائب بناکر رسوا کررہی ہے۔ ایسے میں برہمنوں کےاندر جو اضطراب اس کا جواب بھجن لال شرما ہیں۔ شیوراج سنگھ نے بہت لمبی اننگ کھیلی اور اچھی شبیہ بنائی مگر جاتےجاتے کھرگون میں بلڈوزر چلا کر یہ ثابت کردیا کہ مسلمانوں کے لیے یہ ماما کنس سے کم نہیں ہے۔شیوراج کی قضا کو بلڈوزر بھی روک نہیں سکا۔ ان کے انجام میں یوگی کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ ذات پات کو پیش نظر رکھ کر وزیر اعلیٰ بنانا ہندوتوا کے اس دعویٰ کی عملی تردید ہے کہ سارا ہندو سماج مسلمانوں کی مانند متحد ہے اور اس میں کوئی بھید بھاو نہیں ہے۔
Comments are closed.