انتخابی نتائج مایوس کن لیکن حوصلہ افزا بھی !

نقطہ نظر : ڈاکٹر منظور عالم
پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج نے عوام کو مایوس کیاہے لیکن اس میں امید کی کرن ہے، کانگریس اور دوسری پارٹیوں کو اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع ہے اور آئندہ کیلئے سبق بھی ہے ، زیادہ تر ریاستوں میں بی جے پی کی جیت ہوئی ہے ، ایک ریاست میں کانگریس کو سرکار بنانے کا عوام نے موقع دیاہے اور ایک ریاست میں علاقائی پارٹی پر عوام نے بھروسہ جتایاہے ، جمہوریت میں انتخاب کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے کیوں کہ اس کے ذریعہ عوام کو اپنی مرضی کا حکمراں منتخب کرنے کا موقع ملتاہے ، اگر غلطیوں کا ارتکاب ہوجاتاہے تو پھر آئندہ سالوںمیں اسے سدھارنے کا آپشن رہتاہے ، حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، راجستھان ، تلنگانہ اور میزورم میں انتخابات ہوئے ، تین ریاستوںیعنی مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں لڑائی صرف دو پارٹیوں کے درمیان تھی ، ایک طرف بی جے پی تھی ، دوسری طرف کانگریس تھی ان دونوں پارٹیوں میں سرکار بنانے کا موقع بی جے پی نے حاصل کیاہے لیکن کانگریس کا ووٹ فیصد بھی قابل ذکر ہے جس سے اندازہ ہورہاہے کہ نظریاتی لڑائی میں کانگریس مضبوط ہورہی ہے ، عوام کا اعتماد بڑھ رہاہے اور اسی طرح جدوجہد جاری رہی تو سیکولرزم کا نظریہ ہی حاوی رہے گا اور عوام کیلئے بنیادی ترجیح سیکولر اقدار کی حامل پارٹیاں ہی ہوں گی ۔
ملک میں اس وقت دو نظریہ کے درمیان لڑائی ہے ، ایک طرف فاششزم اور فرقہ پرستی کا نظریہ ہے دوسری طرف سیکولرزم کا نظریہ ہے ، ایک پارٹی ملک میں نفرت پھیلانا چاہتی ہے ، اقتدار اور طاقت کے حصول کیلئے عوام کو بانٹ رہی ہے ، ملک کا ماحول زہر آلود کررہی ہے ، سماجی تانا بانا خراب کررہی ہے ، ہندو مسلم یکجہتی اور بھائی چارہ کو پراگندہ کررہی ہے دوسری طرف سیکولرزم کا نظریہ ہے جس کے پیش نظر ملک سے نفرت کا خاتمہ ، سبھی کو ساتھ لیکر چلنا ، مختلف مذاہب اور قوموں کے درمیان یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دیناہے ۔
گذشتہ کئی سالوں سے ملک کا ماحول خراب کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ، میڈیا کا اس مقصد کیلئے سب سے زیادہ استعمال کیاجارہاہے ، دسیوں تنظیموں کو اس کام پر لگایاگیاہے ، ملک کے بڑے بڑے بزنس مین ، کمپنیاں ، ایجنسیاں اور ادارے فرقہ پرستی کا ساتھ دے رہے ہیں ،اس کے باوجود عوام کا شعور بیدار ہے ، انہیں اپنے ارد گرد پیش آمدہ واقعات کا اندازہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیکولرزم کے نظریہ کی حامل پارٹی چالیس فیصدسے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تاہم کچھ غلطیوں اور خر ا ب پالیسی کی وجہ سے عوام کا مکمل اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔عوام میں پائی جانے والی یہ بیداری بھی کم نہیں ہے اور اس کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے ، اس نہج پر مزید سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ضرور ت ہے ، اس زاویہ کو آگے بڑھانا ہے تاکہ ملک میں سیکولرزم کا نظریہ حاوی ہوجائے ، یکجہتی اور بھائی چارہ کو فروغ ملے ، نفرت ، شدت پسندی اور فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو اور سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں اپنے اصول ، طریقہ کار اور حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لے ۔
پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں نے بہت شعور کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر ووٹ کیاہے ، اپنے ووٹ کا کہیں بھی غلط استعمال نہیں کیاہے ، ایک ذمہ دارشہری ہونے کا کردار نبھایاہے اور یہی سوچ ملک اور ریاست کے حق میں بہتر ہے ۔
حالیہ نتائج سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جو لوگ ملک میں سیکولر زم کا فروغ چاہتے ہیں ان کیلئے یہ نتائج امید کی کرن ہے اور سال 2024 کے عام انتخابات میں اس سے بڑی مدد حاصل کی جاسکتی ہے ، عام انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے مزید محنت ، جدوجہد اور صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے کیوں اس دیش کی مٹی میں نرمی ،اخوت ، بھائی چارہ ، محبت ، یکجہتی اور سیکولرزم ہے ،بس لوگوں کو سمجھانے اور حقیقت سے واقف کرانے کی ضرورت ہے ، دھیرے دھیرے یقینی طور پر حالات بدلیں گے ، رخ تبدیل ہوگا اور فرقہ پرستی کے خلاف سیکولرزم کے نظریہ کی جیت ہوگی۔اس کے علاوہ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کوبھی اپنا جائزہ لینا ہوگا ، اپنا محاسبہ کرنا ہوگا جنہیں سیکولر کہاجاتاہے جن کے بارے میں یہ رائے عامہ ہے کہ یہ پارٹی فرقہ اور نفرت کے خلاف بھائی چارہ اور یکجہتی کے فروغ پر یقین رکھتی ہے ۔
سچائی یہ ہے کہ سیکولرزم کا حامی بھرنے والی پارٹیوں نے قربانی دینا بند کردیاہے جبکہ سیکولرزم کی فطر ت میں قربانی ہے ۔ کمیونل کا راستہ چھوڑنا ، سب کو ساتھ لیکر چلنا اور بھائی چارہ کا فروغ ہے ، کانگریس عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی ، عوام کے درمیان اپنی پہلی جیسی شبیہ قائم نہیں کرسکی ، کانگریس قیادت میں انا اور تکبر بھی شکست کی بڑی وجہ ہے ، کانگریس کے لیڈران کی ایک خوبی مختلف لیڈروں اور ہنما سے صلاح ومشورہ اور بات چیت رہی ہے لیکن کانگریس کی حالیہ قیادت نے اپنی پرانی روش کو نظر انداز کردیاہے ، مشورہ کا سلسلہ بند کردیاہے ، ملک کے دانشور ان سے ملاقات کو چھوڑ دیاہے جس کا نتیجہ ہے کانگریس عوام کا ذہن میں پڑھنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے ، حقیقی مسائل کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہے ، عوام کے درمیان اس کی مقبولیت کم ہورہی ہے ، فاششزم کا نظریہ حاوی ہورہاہے ۔ کانگریس قیادت کو چاہیے کہ اپنے نظریہ کو مکمل طور پر فاششزم سے علاحدہ رکھے ، سیکولرزم کے تمام اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنائے ، سینئر رہنما اور دانشوران کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ دوبارہ بحال کرے ، مشوروں پر عمل کرکے اپنی سیاسی حکمت عملی بنائے۔عوام سے اپنا رابطہ مضبوط رکھے ، زمین پر اپنی زیادہ سے زیادہ موجودگی درج کرائے ، سوشل میڈیا کے ساتھ جب تک زمین پر موثر موجودگی نظر نہیں آئے گی ، مختلف اداروں ، تنظیموں اور این جی اوز کو ساتھ ملاکر کانگریس کام نہیں کرے گی اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ کامیابی اور جیت کیلئے قربانی ضروری ہے ، سب کا ساتھ ، سب کا ہاتھ ،باہمی اتحاد اور مشورہ لازمی ہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
Comments are closed.