چھوٹا قدم ،بڑاکام

از:مدثراحمد
شیموگہ،کرناٹک۔9986437327
مسلمانوں کی بڑی تعداد اس وقت تعلیم سے آراستہ تو ہورہی ہے،لیکن صحیح اور ضرورت کے مطابق ہماری نسلوں کو تعلیم نہیں دی جارہی ہے،جس کی وجہ سے اکثر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں کے بچے بے روزگار وبیکارہوجاتے ہیں۔مسلم معاشرے میں یوں تو باصلاحیت کی بھی کوئی کمی نہیں ہےاور نہ ہی مسلمانوں کے پاس تنظیموں واداروں کی کمی ہے،لیکن افسوس اس بات کاہے کہ تنظیموں و اداروں اپنے حقیقی مقاصد کو چھوڑکرصرف نام کیلئے چند ایک کام کرتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کا ہونابھی نہ ہونے کے برابر ہوتاجارہاہے۔عام طورپر بچوں کے ذہن میں اس بات کو بٹھادیاجاتاہے کہ اگر تم بنوگے تو تم ڈاکٹر بنوگے یاپھر انجینئرہی تمہارامقدرہوگا۔لیکن یہ تمام بچوں کیلئے ناممکن ہے،تمام بچوں کی ذہنیت،صلاحیت اور مالی طاقت یکساں نہیں ہوتی۔جن بچوں کے پاس غیر معمولی دماغی صلاحیتیں ہوتی ہیں،وہی بچے اعلیٰ تعلیم تک پہنچتے ہیں اور جو بچے معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ،اُن کیلئے یہ کورسس بہت ہی مشکل بن جاتے ہیں۔ایسے میں جو تنظیمیں وادارے مسلمانوں کے درمیان فلاحی کاموں کیلئے کام کررہےہیں،اُن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے بچوں کی صحیح رہنمائی کریں تاکہ وہ اپنے مستقبل کو روشن بناسکیں اور روزگار حاصل کرسکیں۔ہماری سوچ محدود ہوتی ہے،جبکہ اس سوچ کوبہتر اور موثربنانے کیلئے ماہرین کا تعائون حاصل کیاجاسکتاہے،نوجوان نسلوں کو بیداری پروگرام(Awareness)،کیرئیر گائڈنس،کائونسلنگ،موٹی ویشن اور ریفریشمنٹ کورسس کے ذریعے سے رہنمائی کی جاسکتی ہے۔بڑے بڑے جلسوں،کانفرنسوں کا انعقادکرنے کے بجائےنوجوانوں کی تربیت کیلئے علاقائی سطح پر اس طرح کے پروگرام منعقدکئے جاتے ہیں تو اس سےطلباء کی بہتر رہنمائی ممکن ہے۔نوجوان نسل کی تربیت کی ذمہ داری صرف والدین یا اسکولوں وکالجوں کے اساتذہ کی نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر اُس شخص کی ہے جو سماج کو بہتر بناناچاہتاہے۔جب تک مسلم نوجوانوں کو تعلیم وروزگار سے جوڑانہیں جاتا،اُس وقت تک مسلمانوں کی فلاح وبہبودی ممکن نہیں ہوگی،نہ ہی مسلمان پسماندگی سے باہر نکل آئینگے۔اپنے اطراف واکناف کا جائزہ لیں،غور کریں کہ کس طرح سے ہمارے نوجوان بے روزگاری کاشکارہورہے ہیں اور تعلیم یافتہ ہوکر بھی وہ روزگار حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔کسی ڈگری کاحاصل کرنا کوئی بڑاکام نہیں ہے،ڈگری کے ساتھ صلاحیتوں کو ترتیب دینا اہم کام ہے،اس کام کو انجام دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔چھوٹے چھوٹے کورسس جیسے آئی ٹی آئی،ووکیشنل کورس،سرٹیفکیٹ کورسس کے ذریعے سے ڈگری کئے ہوئے طلباء کو نئی راہ مل جاتی ہےاور اُن کیلئے روزگارکے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔مثلاً بی کام کرنےوالے نوجوان کو اکائونٹنٹ کی نوکری آسانی سے نہیں ملتی،نہ ہی بی کام کیاہوانوجوان اکائونٹس میں ماہرہوتاہے۔بلکہ اسے بی کام کے بعدجی ایس ٹی،ٹیکس پرایکٹس،کمپنی سکریٹری،کامرس پرایکٹس،ٹیالی میں سرٹیفکیٹ کورس کرنا پڑیگا۔اسی طرح سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنےوالے نوجوان کو کوئی کمپنی صرف انجینئرنگ کی ڈگری کی بنیادپر نوکری نہیں دیتی،بلکہ اسے مخصوص شعبے میں سرٹیفکیٹ کورس کرناپڑتاہے۔اسی طرح سے بی ایس سی کیاہوانوجوان اگر مخصوص کورسس کرلیتاہے تو اس کیلئے روزگارکے بہتر مواقع مل سکتے ہیں۔ان تمام باتوں کو نوجوان نسل کے دماغ میں ڈالنے کی ذمہ داری فلاحی تنظیموں کی ہے،اگر وہ ایسے کاموں کو انجام دیتے ہیں تو یقیناً یہ نوجوان ملت کا سرمایہ بن سکتے ہیں۔سماج میں یہ بھی دیکھاگیاہے کہ ایس ایس ایل سی کے بعد اکثرمسلم نوجوان تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور وہ الیکٹریشن،پلمبر،ویلڈراورمیکانک جیسے شعبوں میں روزگارکیلئے نکل جاتے ہیں،لیکن ان نوجوانوں کو ایس ایس ایل سی کے بعد تھوڑی محنت کرواکر آئی ٹی آئی پاس کروادیتے ہیں تو ان کے پاس سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں،یاپھر وہ اسکلڈ لیبر کے شعبے میں جاکر اچھی تنخواہیں حاصل کرسکتے ہیں۔آنےوالے کچھ سالوں میں عرب سمیت مختلف ممالک میں اسکلڈلیبرکی بڑی مانگ ہونے والی ہے،جس کیلئے آئی ٹی آئی کا ہوناضروری ہے۔اگر مسلمان اپنے بچوں کو سیدھے میکانک یا الیکٹریشن بنانے کے بجائے آئی ٹی آئی الیکٹریشن یا میکانک بناتے ہیں تو اس کا زیادہ فائدہ ہوگااورسماج میں یہ نوجوان تعلیم یافتہ کہلانے کے ساتھ ساتھ قابل لوگوں میں شماربھی ہونے لگیں گے۔

 

Comments are closed.