فیک نیوز: ایک خاموش ہتھیاراور عالمی امن کے لیے خطرہ

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)

09422724040

انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا اور اسے عقل، بیان اور تمیز کی نعمت عطاء کی گئی۔ قرآنِ مجید میں ربّ العزّت فرماتے ہیں: انسان کوئی بات زبان سے نکالتا نہیں مگر ایک نگران (فرشتہ) اس پر مقرر ہے جو ہر بات کو محفوظ کر رہا ہے۔ (سورۃ ق: 18)۔ اسلام، جس کی بنیاد حق، عدل اور امانت پر رکھی گئی، جھوٹ، بہتان اور افواہ کو معاشرتی فساد کی جڑ قرار دیتا ہے۔ سچائی صرف ایک اخلاقی قدر نہیں، بلکہ ایمانی فریضہ ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرے۔ (صحیح مسلم)۔

 

آج جب کہ سوشل میڈیا نے ہر فرد کو "ناشر”، "تبصرہ نگار” اور "صحافی” بنا دیا ہے، یہ حدیث ہمیں شدید متنبہ کرتی ہے کہ بغیر تحقیق و تصدیق بات کو آگے بڑھانا کتنا خطرناک اور گناہ آلود عمل ہو سکتا ہے۔ اسلام میں فتنہ کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے: "اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین ہے”۔ (سورۃ البقرۃ: 191)۔ اور فیک نیوز، اس دور کا بدترین فتنہ ہے، جو سوچوں کو زہرآلود کرتا ہے، دلوں میں نفرت بھرتا ہے، قوموں کو آپس میں لڑاتا ہے، اور سچائی کی روشنی پر جھوٹ کے اندھیرے طاری کرتا ہے۔ پس، یہ تحریر اسی تناظر میں لکھی گئی ہے کہ ہم اس فکری فتنۂ کبریٰ کو پہچانیں، اس کا علمی و اخلاقی محاسبہ کریں، اور بحیثیتِ اُمّتِ مسلمہ، سچائی کے عَلَم بردار بن کر جھوٹ کے ہر طوفان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔

 

عصرِ حاضر میں جب سوشل میڈیا کا غلبہ ہر شعبۂ زندگی پر چھا چکا ہے، تو خبر کی رفتار برق رفتاری سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اس برق رفتاری کے ساتھ ساتھ جھوٹی، گمراہ کن اور مقصدی خبریں بھی پھیل رہی ہیں جنہیں اب ہم "فیک نیوز” کے نام سے جانتے ہیں۔ خاص طور پر ایران اور اسرائیل جیسے حساس تنازعات کے دوران فیک نیوز کی یلغار، نہ صرف عوامی شعور کو متاثر کرتی ہے بلکہ بین الاقوامی امن کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

 

❶ فیک نیوز کا سیلاب: سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ دعوے

 

جب جنگ کی آگ بھڑکتی ہے، تو صرف توپ و تفنگ ہی دہاڑ نہیں مارتی، الفاظ بھی خنجر بن کر زخم لگاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی تیز رفتار دنیا جہاں انگلی کی ایک جنبش پورے بیانیے کو بدل سکتی ہے، آج جھوٹ کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ ٹوئٹر (جو اب X کہلاتا ہے)، فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز پر فیک نیوز کا ایک طوفانی ریلا ہر سچائی کو بہا لے جاتا ہے۔

 

جنگ کے ابتدائی لمحات سے ہی گمراہ کن دعووں کا سیلاب امڈ آیا۔ کہیں کہا گیا کہ "تل ابیب ایرانی میزائلوں کی زد میں ہے”، تو کہیں افواہ اڑی کہ "ایران کا نیوکلیئر پلانٹ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے”۔ بعض حلقوں نے یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ "اسرائیلی وزیرِ اعظم شدید زخمی ہو چکے ہیں”۔ یہ سب باتیں کسی معتبر خبر رساں ادارے کے حوالے کے بغیر، چشم دید گواہی کے بغیر، یا کسی قابلِ بھروسہ شہادت کے بغیر محض سوشل میڈیا کے دھارے میں تیرتی رہیں اور لمحوں میں لاکھوں ذہنوں میں سرایت کر گئیں۔

 

یہ المیہ صرف کسی ایک خطے یا قوم کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو درپیش ایک فکری بحران کی علامت ہے۔ معلومات کی اس عہدِ برق رفتار میں، خبر سے زیادہ "وائرلٹی” کو اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ صداقت پیچھے رہ گئی ہے اور سنسنی نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ لہٰذا، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کو پہچاننے کے لیے نہ صرف شعور کی آنکھ کھولیں بلکہ فکری احتساب کا چراغ بھی جلائیں۔ بصیرت کے بغیر صرف اطلاع، اندھے ہجوم کی رہنمائی نہیں کر سکتی۔

 

❷ پرانے یا جعلی ویڈیوز کا استعمال: حقیقت کا چہرہ مسخ

 

عصرِ حاضر کی میڈیا دنیا میں جھوٹ نے صرف الفاظ کا لبادہ ہی نہیں اوڑھا، بلکہ تصویر اور ویڈیو کی صورت میں بھی اپنا جال پھیلایا ہے۔ فیک نیوز کی سب سے مہلک اور پرفریب صورت وہ ہے جہاں پرانی، غیر متعلقہ یا سرے سے جعلی ویڈیوز کو نئی سانحہ خیزی کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ناظرین کے شعور کو دھوکہ اور جذبات کو زلزلہ آ جاتا ہے۔ شام کے کھنڈرات، غزہ کے ملبے، یوکرین کی تباہی، یا عراق کی آہوں سے بھرے مناظر کو وقت کے حالیہ تناظر میں اس انداز سے جوڑا جاتا ہے کہ حقیقت کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے۔ وہ جو کل کے دکھ تھے، آج کی جنگ کا پروپیگنڈا بن جاتے ہیں۔ ایک ویڈیو جو برسوں قبل کسی اور المیے کی صدا تھی، آج کسی تازہ واقعے کی "ثبوت” بن کر پیش کر دی جاتی ہے۔

 

المیہ اس وقت اور گہرا ہو جاتا ہے جب ویڈیو گیمز یا فلمی مناظر کو حقیقی جنگی تصویروں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ بندوقوں کی آواز، فضا میں اٹھتا دھواں، ٹینکوں کی گرج اور ملبے میں سسکتے چہرے، یہ سب اگر ایک گرافک تخلیق ہو، مگر اسے سچ مان لیا جائے، تو سوچئے شعور کی سطح پر کیسا دھچکا لگتا ہے! عوامی جذبات کو بھڑکانے اور سنسنی خیزی کو بڑھانے کے لیے ایسی چالاکی سے کام لیا جاتا ہے کہ حقیقت اور افسانہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں آنکھوں کو نظر آنے والا ہر منظر سچ نہیں، اور کانوں کو سنائی دینے والی ہر صدا حقیقت کا پتہ نہیں دیتی۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم صرف دیکھنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ "سمجھنے” کی روش اپنائیں۔ تحقیق، تصدیق اور تنقید، آج کے دور کے ایمان کی علامات بن چکی ہیں۔ وگرنہ! ہم ایک ایسے فریب میں زندہ رہیں گے جس میں دھواں تو دکھائی دے گا، مگر آگ کہیں نہ ہوگی۔ چیخیں سنائی دیں گی، مگر سچائی کی کوئی صدا نہ ہوگی۔

 

❸ مصنوعی ذہانت کا فریب: حقیقت اور افسانے کے درمیان معدوم ہوتی لکیر

 

جب سچ اور جھوٹ کے درمیان حدِ فاصل مٹنے لگے، تو صرف ضمیر ہی نہیں، سماج بھی دھوکے کی دھند میں کھو جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، جو کبھی انسانی فلاح کا خواب تھی، اب فریبِ نظر اور دھوکۂ شعور کی ہتھیار بن چکی ہے۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور ڈیپ فیک (Deepfake) جیسی ایجادات نے جھوٹ کو اتنی مہارت سے سنوارا ہے کہ حقیقت بھی اپنے وجود پر شک کرنے لگے۔

 

آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں کسی رہنما کی آواز، چہرہ، اندازِ تکلم—سب کچھ ڈیجیٹل طور پر جعل سازی کے فن میں اس مہارت سے تخلیق کیا جاتا ہے کہ خبر اور فریب، اطلاع اور افواہ میں تمیز ناممکن ہو جاتی ہے۔ ایک جعلی تقریر، ایک فرضی اعلان، یا ایک خودساختہ ویڈیو، جسے AI نے تخلیق کیا ہو لمحوں میں لاکھوں لوگوں کے شعور کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ تصویری جھوٹ اب صرف پینٹنگ یا فلموں تک محدود نہیں رہا؛ بلکہ اب تو AI-generated ویڈیوز میں جھوٹے جنگی مناظر، بمباری، چیختے بچے، اور روہانسی مائیں تک "ایجاد” کی جا سکتی ہیں۔ گویا سچ کا جنازہ ٹیکنالوجی کے کندھوں پر اٹھایا جا رہا ہے، اور جذبات کو یرغمال بنا کر کسی اور ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی ہے۔

 

یہ محض ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں، بلکہ اخلاقی زوال کی بدترین مثال ہے۔ جہاں حقیقت کے چہرے پر افسانے کا نقاب چڑھا کر انسانی شعور سے کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہر فرضی منظر ایک نئے اشتعال کو جنم دیتا ہے، ہر جھوٹا بیان ایک نئی نفرت کو ہوا دیتا ہے، اور ہر "مصنوعی حقیقت” عوامی فہم کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔ ایسے ماحول میں صرف صحافت نہیں، شعور، تحقیق، اور اخلاقی تربیت کو بھی از سرِ نو زندہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم نے اس ڈیجیٹل دجل کا مقابلہ نہ کیا، تو وہ دن دور نہیں جب سچ، ہماری نگاہوں کے سامنے موجود ہو گا، مگر ہمیں نظر نہیں آئے گا۔

 

❹ پروپیگنڈے کا محاذ: جب خبر، ہتھیار بن جائے

 

جنگ صرف میدانِ رزم میں نہیں لڑی جاتی، بلکہ قلم، کیمرہ اور اسکرین بھی اب محاذِ جنگ بن چکے ہیں۔ ایک نئی نوعیت کی جنگ، اطلاعات کی جنگ، اب فکری سرحدوں پر برپا ہے، جس میں خبر کو ہتھیار اور جھوٹ کو گولی بنا کر چلایا جاتا ہے۔ یہ جنگ خاموش ضرور ہے، مگر اس کے اثرات بارود سے کم نہیں۔

 

ایسے تنازعات میں، متحارب قوتیں اور ان کے حامی گروہ فیک نیوز کو ایک منظم، منصوبہ بند پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقصد صاف ہوتا ہے! دشمن کی صفوں میں مایوسی پھیلانا، اپنی فوجی طاقت کا مبالغہ آمیز تصور قائم کرنا، اور عالمی رائے عامہ کو اپنی سمت جھکانا۔ ایک جعلی خبر، ایک تراشی گئی تصویر، یا ایک گمراہ کن ویڈیو، یہ سب محض اطلاعات نہیں رہتیں، بلکہ نفسیاتی ہتھیار بن جاتی ہیں جو ذہنوں کو مجروح کرتی ہیں، جذبات کو زہریلا کرتی ہیں، اور سچائی کو پسِ پردہ دھکیل دیتی ہیں۔

 

یہ عمل صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور جنگی ضابطوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی مہذب دنیا میں، جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ جن میں سچ، انسانی وقار، اور غیر جانب دار اطلاع رسانی کو محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر جب پروپیگنڈے کی مشینری ان حدود کو روند دیتی ہے، تو نہ صرف سچ دفن ہو جاتا ہے بلکہ انسانیت کا مقدس چہرہ بھی مسخ ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ آج کے دور میں "کون جیتا” سے زیادہ اہم سوال یہ بن گیا ہے کہ "کس نے بہتر جھوٹ بولا؟”۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں، بطور انسان، بطور قاری، اور بطور ضمیر کے محافظ، رک کر سوچنا ہوگا: کیا ہم محض خبروں کے صارف ہیں، یا ان کے سچ اور جھوٹ کے نگران بھی؟

 

❺ عوامی جذبات اور ردّعمل: غیر ذمّہ دار شیئرنگ

 

یہ دور ڈیجیٹل انقلاب کا ہے، جہاں ہر شخص ہاتھ میں ایک ایسا آلہ رکھتا ہے جو معلومات کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہے اور بسا اوقات فتنوں کا آغاز بھی۔ سوشل میڈیا کے میدان میں عام صارفین کو گویا ایک "شریک صحافی” کا درجہ حاصل ہو چکا ہے، مگر افسوس کہ اس حیثیت کے تقاضے نہ سکھائے گئے، نہ سمجھے گئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جذبات کی موجوں میں بہتے ہوئے لوگ، کسی دل دہلا دینے والی خبر، کسی چونکا دینے والے ویڈیو، یا کسی جذباتی پوسٹ کو بنا کسی تحقیق، بنا کسی تصدیق، فوراً آگے بڑھا دیتے ہیں۔ شیئر کے ایک بٹن سے گویا جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا جاتا ہے۔ یوں جھوٹ سچ بن کر پھیلتا ہے، اور افواہ، آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ایسی آگ جو صرف خیالات کو ہی نہیں، دلوں کو بھی جلا کر رکھ دیتی ہے۔

 

یہ غیر محتاط روش محض ایک معمولی غلطی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی اخلاقی کوتاہی ہے جو معلوماتی انتشار، معاشرتی اضطراب، فرقہ وارانہ کشیدگی اور بین الانسانی بداعتمادی جیسے زہر کو معاشرے کی رگوں میں سرایت کر دیتی ہے۔ ایک جھوٹی خبر کسی قوم کے مستقبل کو گہنا سکتی ہے، اور ایک غلط تصویر دو دلوں کے بیچ نفرت کا دریا بہا سکتی ہے۔ ایسے میں خاموشی، احتیاط اور تحقیق، آج کے مؤمن کا نیا تقویٰ بن چکی ہیں۔ قرآن کی حکمت بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے: "فَتَبَيَّنُوا…” — "تو تحقیق کر لیا کرو…” (الحجرات: 6)۔ اگر ہر انگلی جو اسکرین پر چلتی ہے، ایک لمحے کو سوچے کہ اس کا اثر کہاں تک جا سکتا ہے، تو شاید معاشرے کے زخم کچھ مندمل ہو سکیں۔ ورنہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہوں گے جہاں سچائی پکارتی رہ جائے گی، اور جھوٹ تالیوں میں گم ہو جائے گا۔

 

فیک نیوز کے گہرے اور مہلک اثرات

 

فیک نیوز کا زہر صرف ایک جھوٹی خبر کی حد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے اثرات کئی سطحوں پر معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کو جنم دیتے ہیں:

 

① ایسی جھوٹی خبریں انتقامی جذبات کو ابھارتی ہیں، جس سے امن پسند معاشروں میں بھی نفرت، غصّہ، اور تصادم کا ماحول بن جاتا ہے۔ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت میں اضافہ، تشدّد کے رجحانات، اور پُرامن مکالمے کا خاتمہ اس کا فوری نتیجہ ہوتا ہے۔

 

② جب سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو جائے، تو عوامی شعور دھندلا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر، اداروں پر، اور یہاں تک کہ خود اپنی رائے پر بھی اعتماد کھو دیتے ہیں۔ بے یقینی اور ذہنی دباؤ ایک عام کیفیت بن جاتی ہے۔

 

③ کبھی کبھی ایک فیک ویڈیو یا جھوٹی خبر بین الاقوامی سطح پر سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں، بے بنیاد الزامات لگائے جا سکتے ہیں، اور عالمی ادارے غلط معلومات کی بنیاد پر پالیسی سازی کر سکتے ہیں۔

 

④ جھوٹے دعوے، مثلاً "دشمن پسپا ہو گیا” یا "ہم نے کامیابی حاصل کر لی”، عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور فوج پر دباؤ بڑھاتے ہیں۔ بعض اوقات دشمن کو غلط معلومات دے کر اسے گمراہ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے جو خود ایک خطرناک چال ہو سکتی ہے۔

 

⑤ فیک نیوز کے سبب عوام کا اعتماد مستند میڈیا پر سے اٹھنے لگتا ہے۔ سنجیدہ صحافت دب کر رہ جاتی ہے اور افواہیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اس سے تحقیقاتی صحافت اور آزاد میڈیا کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

 

⑥ فیک نیوز کا ایک اور پہلو معاشرے میں بڑھتی ہوئی تفریق ہے۔ طبقات، قومیتوں، اور فرقوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ، طعنے، اور الزامات کا ماحول عام ہو جاتا ہے۔

 

⑦ اگر کوئی گروہ یا ملک پُرامن جدوجہد کر رہا ہو، تو اس کے خلاف جھوٹی خبریں اور ویڈیوز اسے انتہاء پسند یا دہشت گرد ظاہر کر سکتی ہیں، جس سے اس کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور حقیقی مسائل پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔

 

احتیاط: شعور کی پہلی سیڑھی، ذمّہ داری ہم سب کی ہے

 

ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں اطلاعات تیر کی طرح تیز، اور افواہیں بارود کی طرح مہلک ہو چکی ہیں۔ فیک نیوز کا سیلاب اب صرف صحافت یا حکومتوں کا مسئلہ نہیں رہا، یہ اب ہر فرد کے ضمیر اور شعور کا امتحان بن چکا ہے۔ خبر کو "شیئر” کرنا محض ایک ڈیجیٹل عمل نہیں، بلکہ اب ایک اخلاقی فیصلہ ہے، جس کے اثرات معاشرے کے نبض پر براہِ راست مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ محض جذبات کی رو میں بہہ کر کسی بھی خبر یا ویڈیو کو دوسروں تک نہ پہنچائے۔ تحقیق اب ترجیح نہیں، ضرورت ہے۔ تصدیق اب اختیار نہیں، فرض ہے۔ Google Reverse Image جیسے سادہ مگر مؤثر ذرائع، InVID جیسے ویڈیو تجزیاتی ٹولز، اور معتبر fact-checking پلیٹ فارمز ہماری رہنمائی کے لیے دستیاب ہیں! بس ایک کلک کی دوری پر۔ ہمیں چاہیے کہ Al Jazeera، BBC، Reuters، اور Associated Press جیسے مستند عالمی اداروں پر اعتماد کریں، نہ کہ کسی گمنام فیس بک پوسٹ یا forwarded میسج پر۔

 

اور اگر کبھی شک ہو، تو سب سے بہتر عمل یہ ہے! خاموشی اختیار کی جائے، اور خبر کو وہیں روک دیا جائے۔ یاد رکھیے، جھوٹ کا پھیلاؤ صرف اس وقت رک سکتا ہے جب سچ کا محافظ ہر فرد خود بنے۔ یہ سیلاب تبھی تھمے گا جب ہم ہر لفظ، ہر تصویر، اور ہر ویڈیو کو ضمیر کی کسوٹی پر پرکھ کر آگے بڑھائیں گے۔ کیونکہ آج کا سب سے مؤثر مجاہد وہی ہے جو انگلی سے صرف سچ کو سفر پر روانہ کرے، اور جھوٹ کے ہر قافلے کو اپنی دہلیز سے لوٹا دے۔

 

فیک نیوز — سچائی کا قاتل، ضمیر کا دشمن

 

فیک نیوز محض جھوٹ نہیں! یہ دھوکۂ زمانہ ہے! فتنۂ عصر ہے!! اور ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے!!! جس کی ضرب صرف سچائی پر نہیں، انسانیت کے بنیادی اصولوں پر پڑتی ہے۔ یہ وہ خنجر ہے جو صداقت کے گلے پر رکھا جاتا ہے، وہ زہر ہے جو اعتماد کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا ہے، اور وہ آتش ہے جو قوموں کے بیچ بھائی چارے کی فصل کو راکھ میں بدل دیتی ہے۔ آج ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں اطلاعات کی رسائی ایک نعمت بھی ہے اور آزمائش بھی۔ ہر خبر، ہر تصویر، ہر ویڈیو ایک لمحے میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر یہ سہولت اگر غیر ذمّہ داری کے ساتھ برتی جائے، تو سچائی کی موت یقینی ہو جاتی ہے، اور جھوٹ ایک ایسا ننگا بادشاہ بن جاتا ہے جس پر کوئی انگلی اٹھانے والا باقی نہیں رہتا۔

 

فیک نیوز کے ذریعے اقوام کو آپس میں لڑایا جاتا ہے، مذاہب کو ٹکرایا جاتا ہے، اور عوامی رائے کو زہریلے تعصبات کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف عالمی امن کو داؤ پر لگاتا ہے، بلکہ داخلی سکون، فکری یکجہتی اور باہمی اعتماد کو بھی تہس نہس کر دیتا ہے۔ یہ سائبر دجل کا دور ہے، جہاں جعلی خبروں کی اشاعت سچ سے زیادہ تیز، اور ان کا اثر حق سے زیادہ گہرا ہو چکا ہے۔

 

ایسے میں یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمّہ داری ہے کہ ہم نہ صرف سچ کے متلاشی بنیں بلکہ اس کے محافظ بھی۔ تصدیق کیے بغیر خبر کو نہ پھیلانا، تحقیق کے بغیر رائے قائم نہ کرنا، اور معتبر ذرائع پر ہی انحصار کرنا، یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے ہم اس فتنۂ جھوٹ کے خلاف ایک علمی و اخلاقی جہاد کر سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کی روشنی پھر سے اندھیروں پر غالب آئے، عدل کو فریب کی جگہ ملے، اور امن کو نفرت کے شور میں سننے والا کوئی ہو تو ہمیں فیک نیوز کے اس فتنۂ کبریٰ کے خلاف شعور، اتحاد اور اخلاص کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ اگر سچ کا ساتھ نہ دیا گیا، تو جھوٹ صرف پھیلتا نہیں، حکومت بھی کرنے لگتا ہے۔

 

جب باطل کا شور حد سے بڑھ جائے اور سچائی کی آواز دبنے لگے، تو خاموشی جرم بن جاتی ہے، اور حق کا دفاع فرض۔ فیک نیوز، جسے آج کے دور کا جدید فتنہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، صرف جھوٹا مواد نہیں، بلکہ ایک ایسا فکری حملہ ہے جو دلوں کو اندھیرے میں دھکیلتا ہے اور قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرتا ہے۔ یہ فتنہ ہمارے ایمان، اخلاق، شعور، اور بقاء کو چیلنج کر رہا ہے۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم سچائی کے ساتھ کھڑے ہوں، باطل کا انکار کریں، اور افواہوں سے بچ کر معاشرے میں امن، عدل اور بصیرت کو فروغ دیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں (صحیح مسلم)۔

 

اور یہی اصول آج ہمیں اس فریب زدہ دنیا میں اختیار کرنا ہوگا! نہ جھوٹ پھیلائیں، نہ پھیلانے والوں کا ساتھ دیں، نہ سچ کو خاموش رہنے دیں۔ فیک نیوز کے خلاف یہ معرکہ صرف حکومتوں یا اداروں کا نہیں، بلکہ ہر اس فرد کا ہے جو سچائی سے محبت رکھتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے علم، فہم اور ضمیر کو اپنا سب سے مؤثر ہتھیار بنائیں اور اس سچائی کے محافظ بنیں جو نہ صرف ہماری شخصیت کو سنوارتا ہے بلکہ ہماری دنیا کو بھی امن و انصاف کا گہوارہ بناتا ہے۔ آیئے، ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم صرف وہی بات آگے بڑھائیں گے جو تصدیق شدہ ہو، اور ہر اس جھوٹ کے راستے میں دیوار بنیں گے جو انسانیت کو تقسیم اور تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ کیونکہ یاد رکھیے! فیک نیوز صرف الفاظ کا فریب نہیں، یہ ضمیر کا زوال ہے۔ اور ضمیر کی حفاظت، ہر سچے انسان کی پہلی ذمّہ داری ہے۔

 

اے اللّٰہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق دے، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ۔

[email protected]

Comments are closed.