انڈیا محاذ پر زعفرانی احسان: پارلیمنٹ ہٹاؤ، اڈانی بچاؤ

 

ڈاکٹر سلیم خان

مودی سرکار نے جملہ 141؍ ارکان پارلیمان کو معطل کرکے ’انڈیا ‘ محاذ میں جان ڈال دی ۔یہ مشیت کا عجب کرشمہ ہے کہ اس سیاسی محاذ  کا سب سے زیادہ فائدہ کانگریس کو ہے مگر اس نے پچھلے تین ماہ میں اسے بہت کمزور کردیا ۔ اس کے برعکس اس  سے بی جے پی کو بہت بڑا خطرہ ہے مگر اس نے اپنی عظیم حماقت سے اس کو  مضبوط کردیا ۔ انسان کی فطرت میں تھوڑی بہت حماقت کرنا بھی شامل ہے اس لیے چھوٹی موٹی حماقتوں کی وجہ نہیں دریافت  کی جاتی بلکہ انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے لیکن موجودہ سرکار کی اس گھبراہٹ  نے پورے ملک کو حیرت زدہ کردیا ہے۔  بہت سارے سیاسی مبصرین اور دنشور  اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر اس  آخری اجلاس میں مودی جی نے اپنے چہرے سے سارے نقاب  نوچ کر کیوں  پھینک دیئے ؟ وہ اگر جاتے جاتے ایسا نہ کرتے تو کچھ ڈھل مل صحافی  یہ  کہہ دیتے کہ مودی کے لیے راون کی مثال مناسب نہیں ہے۔مودی جی  ایسے برے  بھی نہیں تھے۔ انہیں  دس سال حکومت کرنے کا موقع ملا ۔ اس دوران وہ ڈکٹیٹر بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مودی کی آمریت  کےکھل کر سامنے آجانے کے بعد اب ان  نرم گرم حامیوں مثلاً رولین سنگھ اور شیکھر گپتا  کے  لیے بھی کوئی موقع نہیں رہا۔

 اس تمہید  کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اخر مودی جی کو یہ انتہائی قدم اٹھانے کے لیے کس چیزنے مجبور کردیا؟ کچھ لوگوں کے نزدیک اس سوال کا ایک جواب  یہ ہے کہ وہ ایوان پارلیمان میں  حملہ  پر  وزیر داخلہ کو بیان دینے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟ 22؍ قبل جب حملہ ہوا تھا اس وقت کے وزیر داخلہ ایک کے اڈوانی نے بیان دیا  اور ساری تفصیل بیان کی تھی  اس  لیے  نیا کیا ہے؟   ایک ضرورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ مودی جی کو اندیشہ رہا  ہو گا کہ امیت شاہ کا جواب سن کر حزب اختلاف مطمئن نہیں ہوگا اور خود وزیر اعظم  سے بیان دینے کا مطالبہ کرے گا؟  اس میں بھی کیا حرج ہے؟  مودی جی تو 1947کی تقسیم کو یاد دلاکر اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔  2001کے حملے کو اسی ہفتے دوران یاد کرچکے ہیں ایسے میں اس تازہ واقعہ پر بیان دے دینا کون سا مشکل کام ہے؟ ویسے بھی  اپنا بیان  لکھنے کی زحمت انہیں خود نہیں کرنی پڑتی ۔  دوسرے لوگ  جو کچھ لکھ کر دیتے ہیں وہی ریہرسل کرنے بعد وہ پیش کردیتے ہیں  لیکن ایک مسئلہ ہے۔  مودی کی شبیہ کا مسئلہ !

عوام کو اس  خوش فہمی کا شکار کردیا گیا تھا کہ  مودی اگر  چین کی جانب لال آنکھ کر دیکھیں گے تو وہ ڈر کے مارے سہم جائے گا۔ گلوان ، ڈوکلام اور ارونا چل پر دیش میں چین نے مودی جی کے تعلق سے یہ غلط فہمی کا قلع قمع کردیا۔  اس کے باوجود یہ خیال تھا کہ یہ ملک مودی کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ شاہ کے وزیر داخلہ ہوتے ملک کے اندر کوئی پرندہ  بھی پر نہیں مارسکتا لیکن ایوان پارلیمان پر نوجوان کے احتجاجی حملے نے اس خیالِ خام کے پر خچے اڑا دئیے۔ اس مظاہرے سے صرف اور صرف مودی  و شاہ کی شبیہ تباہ و برباد ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی صفائی پیش کرنے کے لیے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو آگے کردیا گیا اور وہ دنوں ان کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے۔  ایوان کے باہر مودی اور شاہ  یہ کہہ رہے ہیں  پارلیمان کے اندر  پر حملے کو لے کر جانچ کا انتظار کیا جائے اور سیاست نہ کی جائے لیکن وزیر اعظم  نریندر مودی فی الحال بھول گئے ہیں  ممبئی میں 26؍11 کو جب حملہ ہوا تھا تو وہ خود کیا کررہے تھے؟  گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی اس نازک موقع پرپہلے تو احمد آباد میں  پریس کانفرنس کی  اور وزیر اعظم کے قومی خطاب پر افسوس کا اظہار کیا۔ منموہن سنگھ نے تو خیر تفتیش کا انتظار کیے بغیر خطاب کیا اور  اسی لیے مودی نے تنقید کی مگر اب وہ  خود بیان دینے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟

ممبئی میں 26؍11  حملے کے بعد مودی ملک کے واحد وزیر اعلیٰ تھے جو اپنا شہر چھوڑ کرمہاراشٹر پہنچ گئے تھے اور اس  کا بھرپور  سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ تفتیش کے مکمل ہونے کا خیال اس وقت ان کو کیوں نہیں آیا اور اب کیوں آرہا ہے؟ سابق وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی نےممبئی میں دوبارہ پریس کانفرنس کرنے کے بعد  آنجہانی  ہیمنت کرکرے کے گھر جانے کا ناٹک بھی کیا تھا یہ اور بات ہے کہ جانباز افسر  کی خوددار زوجہ نے مودی جی کو بیرنگ لوٹا دیا ۔ ممبئی حملے کے بعد اس وقت کے کانگریسی وزیر داخلہ شیوراج پاٹل  نے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ وہ اگر مستعفی ہوسکتے ہیں تو امیت شاہ کیوں نہیں؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایوان کے باہر بیانات دینے والے مودی اور شاہ کو کون سی چیزپارلیمان  میں آنے سے روک رہی ہے؟ حزب اختلاف کے 92؍ ارکانِ پارلیمان  کو تو بزور قوت روک دیا  گیاہے مگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اپنے آپ پر جو  خود ساختہ پابندی  لگا رکھی ہے اس کے لیے کون ذمہ دار ہے۔ وہ کون ساخوف ہے جو ان بہادروں  کے پیروں کی بیڑی بن گیا ہے۔ ایسے نازک وقت میں ایوان سے فرار شرمناک ہے۔سچ تو یہ ہے کہ  ایوان میں فی الحال  141نہیں بلکہ  143 لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

وطن  عزیز میں   کچھ اور لوگوں کا  خیال ہے کہ حملہ آوروں کے لیے پاس بنوانے والے  پرتاپ سمہا  کو بچانے کے لیے  ارکان پارلیمان کا گلا گھونٹا جارہا ہے لیکن موجودہ سربراہ  اپنااقتدار  بچانے کے لیے   کئی نرسمہا کو بے دریغ  بلی چڑھا سکتے ہیں ۔  ایسے میں  گری راج سنگھ کا  ہندووں کو حلال کے بجائے  جھٹکا گوشت کھانے کا مشورہ  ذہن میں آتا ہے۔ مودی اور شاہ چونکہ خود کو سبزی خور بتاتے ہیں اس لیے وہ گری راج سنگھ کے مشورے پر حقیقی  عمل نہیں کرسکتے اس لیے انہوں اظہار رائے کی آزادی کو  دھیرے دھیرے حلال کرنے کے بجائے  ایک جھٹکے میں  اس کا کام تمام کردیا ہے  ۔ اس سے گری راج سنگھ کی آتما کو شانتی مل گئی ہوگی کیونکہ عام ہندو نے نہ سہی تو ہندوتوا نواز سرکار نے ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کردیا لیکن مودی اور شاہ کے نزدیک گری راج سنگھ کی وقعت مچھر مکھی سے بھی زیادہ نہیں ہےاس لیے  ان کے پاس ولحاظ  والی دلیل گلے سے نہیں اترتی ۔

مودی اور شاہ کے نزدیک پرتاپ یا گری راج کی تو کوئی اہمیت نہیں تو کون  سب سے زیادہ اہم  ہے؟ اس سوال واحد جواب ہے گوتم اڈانی ۔ کیا  یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن اڈانی کے خلاف ممبئی شہر میں زبردست احتجاج ہوا اسی دن 92؍ ارکان پارلیمان معطل کردئیے گئے ۔  ایسا نہیں ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ  اڈانی کے پیر میں کانٹا چبھے تو مودی جی کے سرمیں درد ہوتا  ہے۔ اڈانی کے خلاف بولنے والے راہل گاندھی ، سنجے سنگھ اور مہوا موئترا کو ایوان سے نکال دیا جاتا ہے۔   اڈانی کی بدعنوانی منظر عام پر آجائے تو اس کی   جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے ایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کر کےاس حوالے سے بے شمار افواہوں کا بازار گرم کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں راہل گاندھی کی وہ طوطے والی کہانی یاد آتی ہے۔ راہل کے مطابق   پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا، جس کی روح پنجرے میں بیٹھے طوطے کے اندرقید تھی۔ اس لیےراجہ  کے ساتھ کچھ بھی کرو تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔  راہل نے آگے بتایا کہ اسی طرح نریندر مودی جی کی روح اڈانی کے اندر قید ہےکیونکہ اختیارات اڈانی کے ہاتھ میں  ہیں۔ اپوزیشن کو اس بات کا علم ہے کہ اس ملک میں اڈانی پہلے، وزیر اعظم مودی دوسرے اور امیت شاہ تیسرے نمبر پر ہیں۔ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا تھا کہ  وزیر اعظم مودی کی جان  جس گوتم اڈانی میں ہے اس کی گردن اپوزیشن نے پکڑ لی ہے۔

وزیر اعظم  جانتے تھے کہ آج نہیں تو کل ایوانِ پارلیمان میں دھاراوی کے حوالے سے  اڈانی کا مسئلہ آئے گا اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر سارے بولنے والوں کا گلاگھونٹنے  کے لیے  انہیں معطل کردیا گیا۔  مشیت نے یہ اقدام بہت غلط وقت میں کروا لیا۔  کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے جب اعلان کیا کہ ’انڈیا‘ اتحاد کا چوتھا اجلاس 19؍ دسمبر 2023 کو نئی دہلی میں سہ پہر 3 بجے سے منعقد ہوگا۔ جڑے گا بھارت، جیتے گا انڈیا تو اس کے بعد سرکار نے یہ  احمقانہ فیصلہ کردیا  ۔انڈیا کے  مجوزہ اجلاس میں اس بار   نشستوں کی تقسیم پر بات چیت ہونی ہے۔ اس کے علاوہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل مشترکہ انتخابی مہم پر بھی تبادلہ خیال پیش نظر ہے۔  کانگریس نے دو ریاستیں گنوا کر اپنی اصلاح کرلی ہے اور اس کے مرکزی موضوع ’’میں نہیں، ہم‘ پر راضی  ہوگئی ہے ۔ زمین کے بجائے آسمان کی جانب دیکھ کر چلنے والے ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ کانگریس کے ساتھ یہی ہوا لیکن اب بھی اگر وہ اپنی  اصلاح کی جانب متوجہ ہوجائے تو ناکامی کے اس شر میں خیر کا ایک پہلو نکل سکتا ہے اور ’ہم ہونگے کامیاب ‘ گانے کا موقع مل سکتا ہے کیونکہ صبح کا بھولا شام کر گھر آجائے تو وہ بھولا نہیں کہلاتا۔  ویسے انڈیا محاذ کے لوگوں کو 141؍ ارکان کو نکال اس میں شامل جماعتوں کے اندر عدم تحفظ کا حساس جگانے اور پہلے سے زیادہ متحد کرنے کے لیے بی جے پی کا ممنون ہونا چاہیے۔

Comments are closed.