عدالتوں کے فیصلوں میں توازن،وقار اور اعتماد قائم رہے

جاوید جمال الدین
کشمیر میں دفعہ 370 ہٹائے جانے،متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور مہاراشٹر اسمبلی میں شیوسینا کے ایم ایل ایز کی نااہلی کے معاملات میں جو فیصلے دیئے ہیں،انصاف کاتقاضا ہے کہ عدالت کے فیصلوں میں توازن برقرار رہناچاہئیے۔کئی مقدمات میں ججوں نے سخت اور تلخ لہجے میں تبصرے کیے ،لیکن انہیں مقدمہ کے فیصلہ میں تحریر میں لانے کی زحمت نہیں کی۔خود مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کو حکومت سازی کی دعوت دینے پر اُس وقت کے گورنر کوشیاری کے فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیا تھا،مگر شندے کی مبینہ ‘ غیر قانونی ‘ حکومت پرفیصلہ دینےکے بجائے ،ادھوٹھاکرے سے کہاکہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا۔یہی حال نوپورشرما کی شان رسول میں گستاخی کے مقدمہ میں فیصلہ لیتے ہوئے تلخ تبصرے کے باوجود کارروائی کےدور دور تک کوئی آثار نہیں نظرآئے ،بلکہ پولیس نے متعدد ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی، الٹا ،اُس کی حفاظت بڑھا دی اور ایسا ہواکہ ” الٹا چور پولیس کوڈانٹے ۔”
کشمیر میں دفعہ 370 ہٹائے جانے،متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور مہاراشٹر اسمبلی میں شیوسینا کے ایم ایل ایز کی نااہلی کے معاملے کا جائزہ لیں توناانصافی اور امتیازی برتاو کی بو سی محسوس ہوتی ہے۔حالانکہ پھر بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عام ہندوستانی کو عدلیہ کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف پر پورایقین اور اعتماد ہے۔لیکن اکثر وبیشتر فیصلوں میں” ممبیا”انداز میں ” جھول” جھلکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کشمیر کے خصوصی درجہ دفعہ 370 پر حکومت کے موقف کی تائید کی،البتہ ریاستی درجہ بحال کرنے اورریاستی اسمبلی انتخابات کی ہدایات بھی دی ہیں،دفعہ 370 پر عدالت عالیہ نے سرکاری فیصلہ کوحق بجانب قرار دیااور اُسے ایک عارضی انتظام قراردیا،عجیب بات یہ ہےکہ عارضی طریقہ کار 7،عشرے تک نافذ العمل رہا۔بلکہ اسکی اہمیت اجاگر رہی،پھر عارضی معاملہ کیسے ممکن ہے۔یہ معاملہ سمجھنے اور سمجھانے کا ہی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نےمہاراشٹر کی ایکناتھ شندے کی مبینہ غیر قانونی حکومت کے ممبران اسمبلی کی نااہلی کے معاملے میں۔ 31 ,دسمبر 2023 مقرر کی تھی اور ایک بار پھر 10 جنوری 2024 تک فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی ہے۔
اسپیکر نارویکر کی سست روی پر دو ماہ قبل سپریم کورٹ نے ان سے کہا تھا کہ وہ 31 دسمبر تک اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنائیں۔ عدالت عظمیٰ نے ایم ایل اے کی نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ سنانے میں تاخیر پر بھی نارویکر کو پھٹکار لگائی تھی۔ تاہم، انہوں نے سماعت کے دوران دستاویزات کی بڑی مقدار کی وجہ سے مزید دو ہفتے کا وقت مانگا۔ سماعت کے دوران جس میں 20 سیشن شامل تھے جن میں سے ہر ایک میں چھ گھنٹے سے زیادہ تھے، مقننہ نے 2.67 لاکھ صفحات پر مشتمل دستاویزات پیش کیں۔ ان دستاویزات میں دونوں کیمپوں کی 34 درخواستیں اور جوابات شامل ہیں۔ اطلاع کے مطابق، دستاویزات میں 1,100 سے زیادہ سوالات اور گواہوں کے جوابات بھی شامل ہیں۔ اب تک، نارویکر نے دستاویزات کی جانچ اور جرح مکمل کر لی ہے۔ اب، وہ 18 دسمبر کو زبانی دلائل کی سماعت شروع کرنے والے ہیں۔ دو دن تک زبانی دلائل سننے کے بعد، اسپیکر کو دستاویزات کے مطالعہ اور دوبارہ جانچ کی ضرورت ہوگی، جس میں مزید وقت درکار ہوگا۔
حکام نے مطلع کیا ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر سپریم کورٹ نے 30 اکتوبر کو حکم دیا تھا کہ شیوسینا کے حریف دھڑوں کی طرف سے ایک دوسرے کے ایم ایل ایز کو نااہل قرار دینے کی درخواستوں پر 31 دسمبر سے پہلے فیصلہ سنایا جائے۔لیکن اب انہیں اور دس روز دے دیئے ہی ۔البتہ ہدایت کے بعد، نارویکر نے گزشتہ چھ ہفتوں میں ممبئی اور ناگپور ودھان بھون میں سماعت اور سیشن کا انعقاد شروع کیا۔ ایچ ٹی رپورٹ کے مطابق، کل 34 درخواستوں کو چھ گروپوں میں درجہ بندی کیا گیا ہے۔ ان گروپوں میں وہپ کا اجرا، ایکناتھ شندے حکومت کا فلور ٹیسٹ اور اسپیکر کا انتخاب شامل ہے۔امید ہے کہ 10،10 جنوری تک کچھ نہ حتمی فیصلہ سامنے آجائے۔گزشتہ ایک دیڑھ سال سے ملک میں ہندوتوا تنظیموں نے ارباب اقتدار کے اشارے پر 2024 کے عام انتخابات کے لیے برسر اقتدار پارٹی کے لیے ماحول سازگارکرنا شروع کردیا ہے ،آئندہ سال 22،جنوری کو اجودھیا میں بابری مسجد کی متنازعہ جگہ پر رام مندر کا افتتاح کیا جائے گا اور اس معاملہ کے یہاں مکمل ہونے کے بعد اتر پردیش کے دوسرے شہر متھرا میں کرشن جنم بھومی کی تحریک کو مزید تیز کرنے کا امکان ہے ،اس تعلق سے عدلیہ کا سہار الیا جائے گا اور عدالتیں بلاجھجک شرپسند عناصر کی رٹ پٹیشن یا عرضداشت سماعت کے لیے داخل کرلیتی ہیں،خاص طور پر آلہ آباد ہائی کورٹ میں تو متنازعہ معاملات پر ہمیشہ متنازعہ فیصلے سامنے آئے ہیں۔
متھرا میں الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پرسپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا جس میں متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کمپلیکس پر سائنسی سروے کی اجازت دی گئی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے مسجد کے معائنے کے لیے کورٹ کمشنر کی تقرری کی درخواست کی اجازت دینے والے حکم پر روک لگانے کا مطالبہ مسلم فریقین نے کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے اور 9 جنوری کو ٹرانسفر آرڈر کو چیلنج کرنے کا معاملہ طے کر دیا ہے… ہائی کورٹ کا حکم جاری رہے گا اور ہائی کورٹ اس معاملے کو آگے بڑھائے گی اور سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی روک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ یا آلہ آباد ہائی کورٹ انہیں چند خاص معاملات میں جلدی سماعت کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے۔عمر خالداور گجرات آئی پی ایس سنجیو بھٹ میں ضمانتوں کی عرضداشت پر سماعت کے لیے وقت نہیں ہے،بلکہ سنجیو بھٹ پر تو لاکھوں کا جرمانہ عائد کردیا ہے۔عمر خالد کے معاملے میں تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ قانونی چارہ جوئی کے ہندو فریقوں کا دعویٰ ہے کہ متھرا میں 17ویں صدی کی مغل دور کی مسجد ہندو دیوتا کرشنا کی جائے پیدائش پر ایک مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ اس مطالبہ کو گزشتہ سال دسمبر میں مقامی عدالت نے تسلیم کیا تھا لیکن مسلم فریق نے ہائی کورٹ میں اعتراض دائر کیا تھا۔
اس معاملہ جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی کی بنچ خصوصی چھٹی کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ جسٹس کھنہ کی زیرقیادت بنچ نے مشاہدہ کیا کہ شاہی عیدگاہ مسجد میں سائنسی سروے کے ہائی کورٹ کے حکم کو اس کے سامنے باضابطہ طور پر چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔جسٹس کھنہ کی زیرقیادت بنچ نے اس حکم میں مداخلت کرنے سے لاتعلقی کا اظہار کیا جسے بنچ کے سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ "میں آرڈر کو میرے سامنے رکھے بغیر کیسے رہ سکتا ہوں؟” سپریم کورٹ کے جج کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کمپلیکس پر سائنسی سروے کرنے کی منظوری دے دی۔ عدالت نے اس سروے کے لیےجمعرات کو ایک ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کیا اور شاہی عیدگاہ مسجد کمپلیکس کے سروے کی اصولی منظوری دی۔ سروے کے لیے کمیشن آف ایڈووکیٹ کے طریقہ کار کا فیصلہ 18 دسمبر کو کیا جائے گا۔
یہ سروے اسی طریقے سے کیا جائے گا جس طرح وارانسی کی گیانواپی مسجد میں کیا گیا ہے۔ شری کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ مسجد کے معاملات میں متھرا کی عدالت میں اب تک نو مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔اس سے قبل لکھنؤ کی رہنے والی رنجنا اگنی ہوتری نے شری کرشن جنم بھومی کی 13.37 ایکڑ اراضی کی ملکیت کا مطالبہ کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا۔ اپنے قانونی مقدمے میں اگنی ہوتری نے کرشنا جنم بھومی میں بنی شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
متھرا کی عدالت میں دائر مقدمے میں ہندو فریقین کادعوی ہے کہ بھگوان کرشن کی جائے پیدائش کے قریب کٹرا کیشو دیو مندر کے 13.37 ایکڑ کے احاطے میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے حکم پر_70 1669- میں تعمیر کی گئی مسجد کی گئی تھی اور انہوں نے عید گاہ اور مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے،متھرا کی نچلی عدالتوں نے کئی بار ان عرضداشت کو مسترد کیا اور بالآخر ایک عدالت نے اس کی منظوری دے دی تھی تو آلہ آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلہ کو چیلنج کیا گیا اور آلہ آباد ہائی کورٹ میں ایسے مقدمات میں اکثر مبینہ طورپرمتنازعہ فیصلہ ہونے کا الزام۔لگایا جاتا ہے،بابری مسجد اور گیان واپی مسجد کے معاملات بھی یہیں پھلے پھولے ہیں،آخر میں سپریم کورٹ نے اس پر مہر ثبت کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔
چند سال قبل ایک ہندی فلم میں عدالت میں ایک نیا موڑ آنے کے بعد ایک مثبت فیصلہ دیتے ہوئے جج عوام کی مایوسی اور تشویش کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ می۔ کیے گئے اپنے فیصلے میں کہتا ہے کہ ” عدلیہ سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں ۔اگر عام آدمی کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو ایک فریق اعتماد کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ” میں اس معاملہ میں آپ کو عدالت میں دیکھ لونگا ،اس بھروسہ اور اعتماد نے عدلیہ کا حوصلہ بڑھا کر رکھاہے، عدالتوں کی حالت زارسے سبھی بخوبی واقف ہیں۔لیکن امید برقرار ہے .”اس لیے عدالتوں کے فیصلہ کا توازن،وقار اور اعتماد قائم رہے۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.