جگدیپ دھنکڑ: اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے

 

ڈاکٹر سلیم خان

ملک کا سب سے پریشان انسان فی الحال نائب صدرمملکت جگدیپ دھنکڑہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ  دوسروں کا قتل عام کرنے والے کے پیر میں بھی  اگر سوئی چبھتی ہے تو اس کی ٹیس محسوس ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کے نزدیک    ایوان پارلیمان سے 141 ؍ ارکان پارلیمان کو معطل کردینا  کوئی جرم  نہیں بلکہ کارِ خیر تھا لیکن اس  احتجاج کے دوران صدر ایوانِ بالا جگدیپ دھنکڑ کی نقالی کردینا گویا قابل گردن زدنی گناہ عظیم ہوگیا ۔ اس پر اب پولیس میں شکایت  درج ہوچکی ہے اور ٹی ایم سی کے رکن پارلیمان کلیان بنرجی سمیت  راہل گاندھی کو بھی گرفتار کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔کلیان بنرجی کی مذکورہ  ویڈیو صرف راہل نے نہیں کئی لوگوں نے بنائی تھی لیکن ان  لوگوں کی مخالفت سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہے اس لیے ایک فرد خاص کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایکس پر ’بے شرم شہزادہ‘ نامی ٹرینڈ چل رہا ہے۔ یہ ٹرینڈ وہ پارٹی چلا رہی ہے جس کے رکن پارلیمان رمیش بھدوڑی نے ایوان کے اندر دانش علی کے لیے نہایت نازیبا الفاظ استعمال کیے۔رمیش بھدوڑی  کے معاملے میں  اس پر وزیر دفاع کو مداخلت کرکے معافی مانگنی پڑی مگراس  کا بال بیکا نہیں ہوا۔ اس بدزبان کو برخواست کرنا تو دور معطل تک نہیں کیا گیا بلکہ راجستھان کے ریاستی  انتخاب میں ایک ضلع کا نگران بنادیا گیا ۔  ایسے میں اخلاق و اقدار کی دہائی دینے والے دھنکڑ اور برلا سے سوال یہ ہے کہ اس وقت ان کے عہدے کا وقار کہاں مر گیا تھا ؟   بھدوڑی نے ایک فرد کی آڑ میں پورے طبقہ کی تضحیک کی تھی اور  بی جے پی کے روی شنکر پرشاد جیسے  سینئر ارکان اس پر  قہقہے لگا کراس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے ۔ اس وقت اگر صدر اجلاس کی جانب سے کڑی کارروائی ہوتی تو انہیں اب شکایت کا حق ہوتا ورنہ تو غالب کا شعر ہے؎

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ                        ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

نائب صدر مملکت کی اپنی  نقالی  کو دیکھ کر ہونے والی پشیمانی بے معنی ہے اس لیے  ہےکہ اپنا وقار تو انہوں نے خود بار بار پامال کیا ہے۔ جگدیپ دھنکڑ اگر  اس موقع پر صدق دل سے اپنا احتساب کرتے تو انہیں کلیان بنرجی سے زیادہ خود اپنے آپ پر شرم آتی ۔ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ  فی الحال وہ جس جماعت میں شامل ہوگئے ہیں وہاں خود احتسابی   ممنوع ہے ۔ بی جے پی کی حکمت عملی  کا بنیادی پتھر دوسروں پر جھوٹے الزامات لگاکر اپنے عیوب کی پردہ داری ہے۔  اسی کے ساتھ  ذات پات کے جذبات کو ہوا دے کر اس پر سیاسی روٹیاں سینکنا  بھی مقصودہے۔ اس ممکری کے بعد اچانک جگدیپ دھنکڑ کویاد آگیا کہ وہ  جاٹ برادی سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے یہ پورے جاٹ سماج کی  توہین ہے جیسے  سارے مودی چور ہیں کہنا پوری  مودی برادری کی توہین تھا۔ سوال یہ ہے کہ جن 141؍ ارکان اسمبلی کو معطل کردیا گیا ہے کیا ان میں کوئی جاٹ نہیں ہے؟ ان کا گلاگھونٹ دینا  کیا انہیں منتخب کرکے ایوان میں بھیجنے والےجاٹ  رائے دہندگان کی حق تلفی نہیں ہے؟ کیا جاٹ سماج اس توہین کو بھول جائے گا؟؟

پارلیمانی امور کے برہمن  وزیر پرہلاد جوشی  نے اس توہین کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے یہ انکشاف  کیا  کہ وہ کسان  ہیں اس لیے یہ سارے کسانوں کی توہین قرار پایا۔   جگدیپ دھنکڑ کسان کے بیٹے ضرور ہیں مگر خود پیشے سے کسان نہیں بلکہ وکیل اور سیاستداں ہیں۔  مرکزی حکومت  کسانوں کے ساتھ جو وعدے کرکے مکر گئی اس پر اگر دھنکر ایک لفظ بھی کہتے تو ان کی  کاشتکاری سے انسیت ظاہر ہوتی اور جوشی  جیسے لوگ اسے  بھنانے میں  کامیاب ہوپاتے ۔ کسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے تو جگدیپ نے دھنکڑ نے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا مگر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر انہوں نے وزیر اعظم مودی کی جو چاپلوسی کی اس کا ایک نمونہ ساڑھے تین سال قبل اس وقت سامنے آیا تھا جب وہ مغربی بنگال کے گورنر تھے۔ اپنے عہدے کے وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے انہوں ے ٹویٹ کیا تھا ۔گورنر جگدیپ دھنکر نے نریندر مودی  کے ذریعہ  ملک بھرمیں  کسانوں کے مسائل حل کرنے کی کوششوں پر ان کی تعریف کرتے ہوئے ممتا بنرجی سے درخواست کی تھی  کہ وہ مرکز کی وزیر اعظم کسان سکیم میں شامل ہوں۔ انہوں نے وزیر اعظم کی ستائش  کرتے ہوئےکسان کریڈٹ کارڈ سے دو لاکھ کروڑ روپے کا مراعاتی قرض کا بھی ذکر کیا تھا ۔  کیا یہ حرکت کسی گورنر کو زیب دینے والی تھی؟

اس وقت  ترنمول کانگریس کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ کلیان بنرجی نے  دھنکڑ کے جواب میں لکھا  تھا کہ ان کے ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے  گورنر بی جے پی کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور اگلے سال وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر اسمبلی انتخابات لڑیں گے۔ کلیان بنرجی کا اندازہ غلط نکلا ۔ مغربی بنگال میں  گورنر کی حیثیت سے جگدیپ دھنکڑ کی دلالی سے خوش ہوکر بی جے پی نے انہیں نائب صدر بنادیا  اور نتیجے میں  کلیان بنرجی  معطل ہوگئے ۔اب تو دھنکڑ  کے لیے  صدارت  کی کرسی پکی  ہوگئی ہے ۔ اپنی ممکری پرچراغ پا  ہونے والے دھنکڑ اگر وزیر اعظم کے ذریعہ مغربی بنگال کی خاتون وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بھرے  جلسے میں ’دیدی او دیدی، ۲؍ مئی دیدی گئی‘ پر بھی اعتراض کردیتے تو انہیں شکایت کا حق ہوتا لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی  کے لوگوں کی بدزبانی پر اُف تک نہ کہنے والے  ایوان کے صدر کو تو اب کچھ کہنے کا حق نہیں ہے۔  وہ تو بی جے پی کی کٹھ پتلی بن کر ازخود اپنے عہدے اور دفتر کی توہین کرچکے ہیں اس لیے ممکری ہوگئی تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا؟

 نائب صدر کی  نقالی ایوان بالا سے  معطل کیے جانے کے بعد  احاطے میں احتجاج کے دوران ہوئی ۔ مظاہرے میں  جب  ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رکن پارلیمنٹ  کلیان بنرجی نے نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کی نقل کی تووہاں موجود دیگر اپوزیشن کے ارکان پارلیمان ہنسنے لگے ظاہر ہے نقالی کے دوران کوئی رونے سے رہا  ۔ اس معاملے میں  راہل گاندھی کی  موجودگی نے تڑکا لگا دیا کیونکہ انہوں نے  ویڈیو بھی بنایا ۔ اس کو نائب صدر جگدیپ دھنکڑنے  شرمناک  ، مضحکہ خیز اور ناقابل قبول  قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک رکن پارلیمان مذاق کر رہا ہے اور دوسرے ایم پی اس واقعہ کی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ویڈیو بنانا تو اس لیے ضروری تھا بی جے پی کا میڈیا سیل اس کے پیچھے پاکستان زندہ باد کی آواز ڈال کر جھوٹ پھیلانا نہ شروع کردے۔  ویسےایوان پارلیمان سے معطل ہونے والے ارکان  تو اپنا غم غلط کرنے کے لیے ہنس رہے تھے اس لیئ  اپوزیشن ارکان پارلیمان کے لیے عقل سلیم کی دعا کرنے والے نائب صدر کو خود اپنے لیے دعا کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔

ایوان بالا کے صدر جگدیپ دھنکڑ نے جب اپنی نام نہاد توہین پر فرمایا  کہ تنزلی کی کوئی حد نہیں ہوتی انہیں اس پر بہت صدمہ ہوا۔ اس پر ان کا وزیر اعظم کی تعریف و توصیف میں کہا جانے والاوہ   جملہ یاد دآگیا کہ  گاندھی جی تو پچھلی صدی کی عبقری شخصیت(مہا پوروش)  تھے اور اس  دور کے مردِ آہن (یُگ پوروش)  نریندر مودی ہیں۔ یہ سن کر گاندھی اور گوڈسےدونوں کے مداحوں کو کتنا صدمہ ہوا ہوگا اس کا اندازہ نائب صدر کو نہیں ہے۔   اس موازنہ کے بعد معروف محاورہ ’کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی‘ یاد آگیا ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوگیا کہ آخرعزت مآب جگدیپ  دھنکڑ نے وزیر اعظم کا موازنہ ساورکر یا گولوالکر سے کیوں نہیں کیا؟  اس کا جواب یہ ہے کہ  نائب صدر کی تربیت سنگھ کی شاکھا میں نہیں ہوئی اس لیے ان کے دل میں ساورکر یا گولوالکر کا کوئی احترام نہیں ہے۔ وہ  راجستھان کے گاؤں کیتھانہ میں ایک کسان خاندان کے اندر پیدا ہوئے۔ انہوں  نےزراعت سے منہ موڑ کر بطور وکیل اپنے پیشہ ورانہ زندگی میں  سپریم کورٹ اور راجستھان ہائی کورٹ میں پریکٹس کی ۔  فعال سیاست میں آنے کے  بعد انہوں نے سابق نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال کا دامن تھام لیا جو بی جے پی کے سخت مخالف تھے۔

 1990 میں وہ اپنے سرپرست کی پیروی کرتے ہوئے چندر شیکھر کی اقلیتی حکومت میں مرکزی وزیر بن گئے۔  اس کے بعد  کانگریس اقتدار  میں آئی  تو اس میں  شامل ہوگئے لیکن راجستھان میں اشوک گہلوت سے اختلافات کے سبب  بی جے پی میں پناہ لے لی ۔ اس ابن الوقتی کی وجہ سے انہیں جولائی 2019 میں مغربی بنگال کا گورنر مقرر کیا گیا اور اگست 2022  میں نائب صدر بنادیا  گیاکیونکہ سنگھ پریوار میں اس عہدے کے لیے کوئی قابلِ قبول فرد موجود نہیں تھا ۔صدر مملکت تو کوئی انتظامی ذمہ داری نہیں ہوتی  اس لیے موہن بھاگوت کو بھی صدارت کا عہدہ  سونپا جاسکتا ہے مگر نائب صدرایوان بالا کی صدارت کرنی پڑتی ہے۔ جگدیپ دھنکڑ کی موقع پرستی ان سے کچھ بھی کروا سکتی ہے بعید نہیں کہ آگے چل کر اگر سرکار بدل جائے تو ان کو وزیر اعظم نریندر مودی میں گوڈسے نظر آنے لگے کیونکہ دھنکڑ ہے تو ممکن ہے۔

 

Comments are closed.