آٹا اور اچار

کالم : بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ہر سال کی طرح اِس بار پھر دسمبر آگیا تھا باقی لوگوں کی طرح دسمبر میرا بھی پسندیدہ ترین مہینہ ہے دسمبر کی دھوپ رات کو آرام دہ نرم گداز بستر رضائی کتاب یا پسندیدہ فلم یا دوستوں کے ساتھ آگ کا مچ جلا کر گپ شپ یا کسی مرشد خانے پر مرشد کے سامنے آگ کا مچ لگا کر بیٹھنا دیدار مرشد اور مرشد کی روحانی گفتگو یہ سب دسمبر کی سو غاتیں ہیں میں حسب معمول دفتر آیا دو چار ملاقاتی موجود تھے میں ان سے مل کر فارغ ہوا تو چاروں طرف پھیلی سنہری دسمبر کی دھوپ انجوائے کر نے کا موڈ بنایا گرائونڈ کے اُس حصے کی طرف بڑھا جہاں پر کھلے آسمان کے نیچے خالی کرسیاں دعوت دے رہی تھیں کہ کوئی آکر دھوپ کی زیست آفریں شعائوں کو خوب انجوائے کر ے میں جا کر آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا ٹانگیں سامنے پڑی کرسی پر رکھیں جیب سے تسبیح نکالی یاحیی یاقیوم کا ورد میرے لبوں پر پھسلنے لگا میں جیسے جیسے دسمبر کی روح پرور حرارت کے میرے ٹھنڈے جسم کو حرارت سے آشنا کیا باڈی کا ٹمپریچر آرامدہ زون میں داخل ہوا نشیلا سا احساس رگوں میںدوڑنے لگا غنودگی سے طاری ہو نے لگی دھوپ نشیلے سیال کی طرح رگوں میں دوڑنے لگی میں دھوپ کی حرارت کو انجوائے کرتا کرتا خوابیدگی حالت میںداخل ہونے لگا یہ مراقباتی کیفیت حالت بیداری سے غنودگی میں ڈھلنے لگی اعصاب بوجھل اور نیند میں ڈوبنے لگے اور میں نے اپنے اعصاب کو نیند کی دیوی کے حوالے کر دیا اور کچھ دیرکے لیے اِس مادی دنیا سے کٹ کر رہ گیا دسمبر کی کیف آفریں حرارت سے بھر پور دھوپ اور میرا جسم خوب انجوائے کر نے لگا پتہ نہیں میں کتنی دیر اُس غنودگی یا مراقباتی حالت میں رہا ہوں گا جو لوگ دھوپ وہ بھی دسمبر کو انجوائے یا کھلے آسمان کے نیچے دسمبر کے مہینے میں آرام چارپائی نرم و گداز سرہانے پر آرام کرتے ہوئے یا پھر کسی پارک یا جنگل میں آرام دہ مخملی گھاس کے اوپر تھک ہار کر خود کو زمین اور سورج کے حوالے کرنے کا ہنر جانتے ہوں وہ اِس لطف کو انجوائے کر سکتے ہیں میں بھی شاید اُسی روح پرور لطف کے عمل سے گزر رہا تھا میں جب بھی خود کو ایسی مراقباتی حالت کے سپر د کرتا ہوں تو چند منٹوں میںہی تھکا ہوا جسم چارج ہو جاتا ہے دوبارہ ایک نئی انرجی طاقت کے ساتھ لوگوں سے ملنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ساری کی ساری تھکاوٹ بے زارگی چند منٹوں میں دور ہو جاتی ہے دوبارہ فریش تروتازہ ہو جاتا ہوں لہذا رش اور لوگوں کے دوران اگر جسم تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے تو میں چند لمحے مراقبے یا آرام دہ حالت میں گزارکر تازہ ہو جاتا ہوں اِس وقت بھی میرا دماغ قلب و روح اور جسم کسی ایسے ہی زندگی آمیز عمل ہے گزر رہے تھے میں ان کیف پرور لمحات میں گم تھا کہ اچانک مجھے لگا کوئی میرے پاس ہے اور وہ آہستہ آہستہ میرے ٹانگوں کو آرام پیار سے دبایا مساج کر رہا ہے جب اِس کا احساس واضح ہوا تو میں نے آنکھیں کھولی کوئی شخص میرے آرام کو دیکھ کر میری ٹانگیں دبا رہا تھا اُس کے اِس عمل سے مجھے لطف آرہا تھا ویسے بھی اب میں بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں جسم زوال کا شکار ہے اِس لیے بڑھاپے میں اگر کوئی پیار سے دبائے تو جسم کو سکون ملتا ہے اورتلاش حق کے دنوں میں بہت سارے بزرگوں کو میں پیار سے دبایا کرتا تھا ان کی ادا کو قائم رکھنے کے لیے جب کوئی بچہ پیار سے دباتا ہے تو اچھا لگتا ہے یہ مرشد مرید کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے میں غنودگی سے بیداری میں آکر بیٹھ گیا ایک مزدور نما شخص جو پچھلے دنوں سے مسلسل میرے پاس آرہا تھا اِس وقت بھی آیا ہوا تھا مجھے جاگتا دیکھ کر بولا سرکار میں نے آپ کو تنگ تو نہیں کیا تو میں بولا نہیں بلکل نہیں بتائو کوئی کام ملا کہ نہیں کیونکہ وہ پچھلے کئی دنوں سے آکر ایک ہی بات کرتا تھا کہ مزدوری مل جائے کسی جگہ کام مل جائے یا جن سے پیسے لینے ہیں وہ واپس کردیں ہر روز مایوس ہو کر اگلے دن مسیحا سمجھ کر پھر گناہ گار کے پاس آجاتا تھا بو لا جناب آج میری بیگم اور بیٹی بھی ساتھ آئی ہے میں نے دیکھا اُس کے ساتھ اُس کی بیگم اور بارہ سالہ بیٹی بھی عقیدت کا بت بنی کھڑیں تھیں میں نے بچی کے سرپر ہاتھ پھیرا اور پوچھا میری بیٹی کسی کلاس میں پڑھتی ہے تو وہ بولی بابا جی میں چھٹی کلاس میں پڑھتی تھی بابا نے سکول سے چھڑوا دیا ہے اب مزدور بولا سرکار غربت کی وجہ سے روٹی تو پوری نہیں ہوتی اِس لیے اِس کو سکول سے چھڑوا دیا ہے کتابوں کاخرچہ آنے جانے کا خرچہ اب میں برداشت نہیں کرسکتا بیٹی اداس نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی والدہ بھی مایوسی کا مجسمہ بنی کھڑی تھی میری طرف دیکھ رہی تھی والدہ بھی مایوسی کا مجسمہ بنی کھڑی تھی مزدور نے پھر بولنا شروع کر دیا سرکار مزدوری کے اڈے پر جاتاہوں ملکی حالات ٹھیک نہیں بہت سارے مزدور خالی واپس گھرکو لوٹ جاتے ہیں کوئی کام پر لے کر نہیں جاتا اِس غربت اور زندگی کو چلانا اب ناممکن سا ہو گیا ہے پھر وہ بیچارہ غربت اور زندگی کی آزمائش کے بارے میں اپنی داستان الم سناتا رہا میں دل گرفتہ سنتا رہا پیار سے بیٹی کی طرف دیکھا اور بولا آج میری پری بیٹی بابا کے پاس دعا کرانے آئی ہے تو وہ بولی جی بابا میرا یہ خط بھی پڑھ لیجئیے گا پھر وہ بچی دعا ئیں لے کر رخصت ہو گئی بچی کے جاتے ہیں میں نے کاغذ کھولا جس پر لکھا تھا پیارے بابا جان کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کردیا یہ خط میں چھپ کر بہت امید سے آپ کو لکھ رہی ہوں باباجی ہم بہت غریب ہیں ایک سال پہلے میرے چھوٹے بھائی کی پیدائش پر ہماری ساری کمائی لٹ گئی آپریشن غلط ہوا امی بہت بیمار ہو گئی سب کچھ بیچ کر ان کا علاج کرایا ابو جی مزدوری کرتے تھے کسی فیکٹری میں جہاں سے دو ماہ پہلے ان کو نکال دیا گیا اب وہ مزدوری کرتے میں رات کو آٹا اور اچار لے آٹے ہیں کیونکہ سالن پکانے کے لیے زیادہ پیسے چاہیں ہم لوگ دس دن لگاتا ر روٹی اچار کھاتے رہے ہیں تین دن سے اچار کے پیسے نہیں تو صرف روٹی پانی سے کھارہے ہیں آپ خدا کے لیے ہمیں آٹے کا توڑا اور اچار لادیں تاکہ ہم زندہ رہ سکیں ۔ بیٹی کاخط بارود بن کر میرے اعصاب پر گرا اور میرا کلیجہ پھٹ گیا یہ فیملی اچار روٹی کے لیے ترس رہی ہے شام کو میں اپنے دوست کے ساتھ بیٹی کے بتائے ہوئے پتے پر تین ماہ کا راشن اور پیسوں کے ساتھ پہنچ گیا اورکہا میرے والدین دنیا میں نہیں ان کا کھانا روزانہ بھجواتا ہوں کیا آپ یہ کھانا قبول کریں گے تو میاں بیوی رو پڑے سرکار یہ تو ہمارے لیے عزت کی بات ہے بیٹی کی آنکھیں خوشی سے روشن اور مسکرا رہی تھیں میں راشن دے کر واپس لوٹا تو مجھے لگا میری والدین آسمان کی بلندیوں سے نیچے مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں اور سلا دے رہے ہیں کیا آپ بھی اپنے والدین کو اِسطرح خوش دیکھ سکتے ہیں تو کسی کی مدد کریں پلیز ۔
Comments are closed.