ایمان و عقیدہ کی سلامتی کے ساتھ اعلیٰ معیاری تعلیم سے نئی نسل کو آراستہ کرنا ہماری ملی و قومی ذمہ داری :انیس الرحمن قاسمی

 

ضلع سوپول کی مردم خیز بستی محرم پور بگھیلی میں القاسم اکیڈمی میں منعقد اجلاس میں آل انڈیا ملی کونسل کے ذمہ داران کا خطاب

 

(سوپول پریس ریلیز) اسلام کے وسیع تر پس منظر اور مفہوم کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں تعلیم ہی وہ اجتماعی عمل ہے جس کے ذریعہ معاشرہ نئی نسل کو تصور حیات دیتا ہے، اسلامی افکار کی روشنی میں زندگی گذارنے کے طور طریقے اور اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے۔جب اللہ پاک نے نبوت کی ذمہ داریوں کا اعلان کیا تو صاف فرمایا کہ رسول کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم سے آراستہ کرے۔ لفظ حکمت اپنے اندر ایک آفاقی معنی رکھتا ہے، جو کثیر الجہتی تصور تعلیم کو محیط ہے۔ اللہ کے نبی کا ارشاد ہے کہ حکمت یعنی دانائی کی بات مؤمن کی گمشدہ سامان ہے وہ جہاں اسے پائے اس کو حاصل کرنے کا زیادہ حقدارہے۔ یہی وجہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آپ کو ہمیشہ معلم کی حیثیت سے پیش کیا اور فرمایاکہمیں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔اسلام کے اندر تعلیم کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے اس کا جائزہ لینے کے لئے ہم سیرت رسول کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو اس وقت عرب جہالت اور توہمات کے اندھیرے میں غرق تھے، پوری دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئے تھی آپ نے قرآنی تعلیمات کے علم و بصیرت سے عرب کے تاریک ریگستان کو منور کیا، آپ نے اسلام کو ایک فلسفہ حیات، نمونہئ زندگی اور پوری کائنات کے لیے ایک آفاقی اصلاحی و انقلابی تحریک کے طور پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ترقی اور عروج کی بنیاد تعلیم کے اوپر موقوف ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”جولوگ تم میں سے ایمان لائے اورجولوگ اہل علم ہیں اللہ ان کے درجات بلند کرتا ہے اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے باخبرہے“یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا ملی کونسل نے تعلیم کو اپنے مشن کا اولین حصہ بنایا ہے اور مشن تعلیم 2050کے نام سے ایک ایسی تحریک شروع کی ہے جس کا مقصد ہے کہ2050تک ایسی محنت کی جائے کہ ہمارے معاشرہ کا ہر فرد ایمان و عقیدہ کی سلامتی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا حامل ہو جائے۔یہ باتیں آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب نے ضلع سوپول کی مردم خیز بستی محرم پور بگھیلی میں امید ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت چلنے والے انگلش عربک میڈیم اسکول القاسم اکیڈمی میں منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔واضح ہو کہ آل انڈیا ملی کونسل کا ایک موقر وفد حضرت مولانا کی قیادت میں ضلع مدھے پورہ اور سوپول کے تعلیمی، اصلاحی اور دعوتی دورہ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نئی نسلوں کو دین پر قائم رہنے کے لیے بنیادی دینی تعلیم کا نظم لازم ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ایمان و عقیدہ کی سلامتی کے ساتھ ہماری آنے والی نسل معیاری تعلیم حاصل کر کے تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑی رہے تو ہمیں ایسے عصری ادارے قائم کر نے پڑیں گے جہاں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات اور اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔ مولانا محمد عالم صاحب قاسمی جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نے قرآن اور حدیث کے حوالہ سے بتا یا کہ بحیثیت خیر امت ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف مسلمانوں کی فکر کریں بلکہ پوری انسانیت کی ترقی اور فلاح کی فکر کریں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کے ہر فرد کو تعلیم سے آراستہ کریں۔مولانا مفتی نافع عارفی صاحب نے فرمایا حدیث رسول کے حوالہ سے بتایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ علم کے سلسلہ میں ہمارا رول کیا ہونا چاہئے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یا تو علم سیکھنے والے بنو، یا سکھانے والے بنو، یاعلم کی راہ میں تعاون کرنے والے بنو۔اس لیے سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی تعمیر و ترقی میں معاونت کریں تاکہ سماج علمی، فکری اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ہو سکے۔مولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نے خانقاہ رحمانی، امارت شرعیہ اور دیگر دینی اداروں کے اکابر علماء کرام خاص طور پر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی، حضرت مولانا عارف صاحب ہر سنگھ پوری، حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ہر سنگھ پوری، حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب، حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کے اس علاقہ میں فیوض و برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ ہمیشہ بزرگوں کے علوم و معارف سے فیضیاب یا ب ہو تا رہا ہے۔انہو ں نے لوگوں سے اپیل کی کہ ہمیشہ اپنے آپ کو دینی اداروں اور علماء کرام سے وابستہ رکھیں، اس سے ہمارے علاقہ میں خیر و برکت بھی آئے گی اور تعلیمی و اخلاقی طور پر بھی علاقہ بہتر ہو گا۔ مولانا ضیاء اللہ ضیاء رحمانی صاحب مہتمم کلیہ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ مسلمان اپنے بچوں کے دین و ایمان کے تحفظ و بقاء کی فکر کریں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گاؤں اور ہر محلے میں مکاتب کا نظام قائم کیا جائے جن کے ذریعے بچوں کو بنیادی تعلیم دیجائے تاکہ ان کا ذہن ودماغ اسلامی سانچے میں ڈھل جائے۔جناب ذکی مجاہد صاحب یوتھ لیڈر جماعت اسلامی نے قرآن و حدیث کے حوالہ سے دینی و عصری تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس امت کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ نے علم کے اوپر رکھی ہے، اس لیے امت کی ترقی بغیر علم کے نہیں ہو سکتی ہے۔ مولانامحمد عادل فریدی قاسمی سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نے کہا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علم پر بہت زیادہ توجہ دلائی ہے، صحابہ کرام اور ان کے بعد ان کے متبعین نے ہمیشہ علم کی ترویج و اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد اولین بنایا۔اتنا ہی نہیں انہوں نے قران و سنت کے احکامات سے اکتساب فیض کر کے سینکڑوں علوم و فنون ایجاد کر ڈالے، قرانی تعلیمات کی روشنی میں اہل عرب نے تجوید، تفیسر، حدیث، عقائد، کلام، فقہ، اصول فقہ، تاریخ، سوانح، سیرت، ادب، لغت، شعر و بلاغت کے علاوہ سائنسی اور مادی تعلیمات میں عروج حاصل کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب پوری دنیا نے مسلم سائنسدانوں اور مسلمان ماہرین تعلیم کا لوہا مانا۔اسلام نے دیگر تمام مذاہب کے بر عکس تعلیمی اصول فراہم کیے ہیں، جنہیں مشعل راہ بنا کر شاندار کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور ماضی میں مختلف ادوار میں مسلمانوں نے مختلف ملکوں میں اس کا عملی ثبوت دیا ہے۔ لیکن جب مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ علمی و فکری زوال بھی آیا اور رفتہ رفتہ مسلمان ان میدانوں میں پیچھے سے پیچھے ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشرتی اور معاشی پسماندگی کا بھی شکار ہو گئے اس لیے اگر ہم اپنی عظمت رفتہ اور کھویے ہوئے وقار کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ علم و حکمت اور تحقیق و ریسرچ کے میدان میں ترقی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اسلام کا نظریہ تعلیم صرف دینی امور تک محدو د نہیں ہے، بلکہ اسلام ہر اس فن اور صنعت کو سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو انسانی معاشرے کے مفاد پر منتج ہو۔ اسلام ہر ا س تعلیم کو سیکھنے کی اجازت دیتا ہے جو انسانیت کے لیے مفید ہو اور ساتھ ہی اس تعلیم سے ایمان و اسلام کو کوئی نقصان نہ پہونچے۔آج امت مسلمہ کی جو تعلیمی پسماندگی ہے اس کو دور کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہمیں اسلام کے نظریہ تعلیم جس کی بنیاد عہد نبوی میں رکھی گئی اور صحابہ کے زمانے میں اور اسلام کے عہد زریں میں جس کو پروان چڑھایا گیا، اس کو حرز جان بنانا ہو گا۔ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے درمیان کے فرق کو مٹا کر دونوں طرح کی تعلیم میں آگے بڑھنے کی فکر کرنی ہوگی تبھی ہم ایک ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے اپنی شناخت بنا سکتے ہیں۔اجلاس میں علاقہ کے معروف عالم دین حضرت مولانا شعیب صاحب اور مولانا محمود صاحب رحمانی نے بھی اظہار خیال کیا۔امید ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے صدر جناب مجاہد الاسلام صاحب نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور القاسم اکیڈمی کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد اور خدمات پر روشنی ڈالی۔اجلاس کی نظامت کے فرائض القاسم اکیڈمی کے ڈائرکٹر جناب مولانا سیف الاسلام قاسمی صاحب نے انجام دیے۔شرکاء میں مندرجہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا جمال الدین قاسمی ، مولانا نور عالم رحمانی ،ماسٹر قمر الہدیٰ، مولانا عتیق الرحمن ندوی مہتمم جامعہ سراج العلوم ڈپرکھا، حافظ ابو المحاسن،مولانا فضل الرحمن بگھیلی، ندیم شاد، ثاقب صاحب، شاہد اکرمی، حافظ ریاض، فیض الرحمن، عماد الدین،فیض الاسلام،خالد الاسلام،حافظ سعود، مولانا خورشید ندوی کے نام اہم ہیں ان کے ساتھ علاقہ کی عوام و خواص و معززین نیز طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کی بڑی تعداد شریک تھی۔اجلاس کے بعد علماء کرام کے اس وفد نے سابق مکھیا جناب اعجاز صاحب کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی، نیز علاقہ کی معروف شخصیت بابو عبد العلیم صاحب کے گھر جا کر ان کی اہلیہ کے انتقال پر اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور دعاء مغفرت کی بابو عبد العلیم صاحب کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائی ڈاکٹر کلیم صاحب نے شرکاء وفد کا استقبال کیا۔

Comments are closed.