کیانئے سال میں دنیا کے حالات بدلیں گے؟

2024میں دنیا غیر متوقع انقلابات کا سامنا کرے گی
عبدالغفار صدیقی
9897565066
سن 2023کا اختتام ملت اسلامیہ کے نقطۂ نظر سے انتہائی پر آشوب اور تکلیف دہ حالات میں ہورہا ہے ۔ایک طرف فلسطین میں ہزاروں انسانی جانوں کا اتلاف ہوچکاہے اور روزانہ ہورہا ہے ،لاکھوں لوگ بے آسرا ہیں ،لاکھوں گھروں کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔لاکھوں ٹن بارود گرایا گیا ہے ۔مہذب انسانی تاریخ میں کبھی اس طرح کے مظالم نہیں ڈھائے گئے جس طرح سرزمین مقدس فلسطین میں ڈھائے جارہے ہیں۔لاشوں سے اعضاء چرائے جارہے ہیں ،بچوں کی مسخ شدہ لاشوں کو پلاسٹک بیگ میں ان کے سرپرستوں کو سونپا جارہا ہے ۔ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے ملک کی آزادی چاہتے ہیں ،کچھ اسلام دشمنوں کو آزادی کی یہ جدو جہد بھی دہشت گردی نظر آرہی ہے۔اول تو ان کی زمین پر اسرائیل کی ناپاک ریاست قائم کی گئی اور پھر اس ناپاک ریاست نے اہل اسلام پر زندگی تنگ کردی ۔غزہ اور ویسٹ بینک جس علاقہ کو کہا جاتا ہے اور جہاں فلسطینی رہتے ہیں ،اس کی ہر شئی پر اسرائیل کا کنٹرول ہے ۔کہنے کو وہ ایک ملک ہے ،وہاں کا صدر بھی ہے ،وہاں کا دارالحکومت بھی ہے ،لیکن نہ اس کے پاس دفاع ہے نہ پولس ،غذا کا ایک دانہ اور پانی کی ایک بوند بھی اسرائیل کی مرضی کے خلاف وہاں نہیں جاسکتی ۔اس صورت حال میں جب جب فلسطینیوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کی آواز بلند کی ہے تب تب خود کو انسانی حقوق کے محافظ کہنے والی دنیا نے ان پر بمباری کی ہے ،ان کے جوانوں کو شہید کیا ہے ،معصوم بچوں کو مارڈالا ہے ۔اس صورت حال میں آج جب اہل فلسطین اپنے ملک کی آزادی کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں اور ظالموں سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں تو مہذب دنیااسے دہشت گردی کہہ رہی ہے ۔ہمارا ملک اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں ووٹنگ کرتا ہے،فلسطین کے لیے بیس کروڑ اسی لاکھ کی مدد جاری کرتا ہے لیکن گودی میڈیا پر لگام نہیں لگاتا۔ گودی میڈیا حماس کو دہشت گرد کہتے نہیں تھکتی ۔حماس کی حمایت میں بیان دینے والوں پر طعنہ زنی کرتی ہے ۔اسی بنا پر ہندوستان کی کثیر مسلم آبادی منہ پر مصلحت کی پٹی باندھے بیٹھی ہے ،عیسائی ممالک میں اور خود اسرائیل میں اس جنگ کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں ،مگر ہندوستانی مسلمانوں نے خاموشی کی چادر تان رکھی ہے ۔کیا ایک جمہوری ملک میں پر امن احتجاج کرنا کوئی جرم ہے ؟
سالہائے گزشتہ میں ہندستانی مسلمان بھی انتہائی کربناک حالات سے گزرے ہیں اور ابھی بھی گزررہے ہیں ۔بابری مسجد کی شہادت ،اس کے متعلق عدالت عالیہ کے شواہد کے خلاف فیصلہ ،مندر کے شلانیاس کے بعد اب عظیم رام مندر کا افتتاح ہونے والا ہے ۔اس ضمن میں پورے ملک میں فسطائی طاقتیں اور فرقہ پرست عناصر ماحول خراب کررہے ہیں ۔علی گڑھ کی ایک مسجد کی دیوار پر جے شری رام کا نعرہ لکھاگیا ہے۔پورے ملک میں ریلیاں اور جلوس نکالے جانے کا پروگرام ہے ،لاکھوں لوگوں کے اس پروگرام میں شرکت کا اندازہ ہے ۔ہمارے وزیر اعظم اس کا افتتاح فرمائیں گے ۔ایک سیکولر ملک میں جس کادستور تمام مذاہب کو یکساں مقام دینے کی بات کرتا ہے ،جہاں کبھی حکومت کے ذمہ داران اس طرح کی مذہبی تقریبات میں شمولیت سے گریز کرتے تھے آج اسی سیکولر ملک میں ایک مندر کا افتتاح وزیر اعظم فرمائیں گے ۔شلانیاس بھی محترم کے ہاتھوں ہوا تھا ۔اس سے اہل ملک سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دستور اور آئین کی کیا حیثیت رہ گئی ہے ۔ایک طرف کشمیر سے 370یہ کہہ کر ختم کی جارہی ہے کہ اس سے علاحدگی پسندگی کے رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ اسی قبیل کے خصوصی اختیارات بعض دیگر ریاستوں کو بھی حاصل ہیں۔ کل ہی اتراکھنڈ کی حکومت اعلان کیا ہے کہ یہاں دوسری ریاستوں کے لوگ زمین نہیں خرید سکیں گے ۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کے مدارس ختم کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں ۔آسام کے ایک ہزار سے زائدمدارس کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے ۔یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لیے کمر کس لی گئی ہے ۔ماب لنچنگ کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں،یہ واقعات اور ملک کے موجودہ حالات مسلمانان ہند اورآئین و قانون پر یقین رکھنے والوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
مجھے امید ہے کہ 2024ساری دنیا میں ایک انقلاب کا سال ہوگا ۔دنیا میں طاقت کا توازن بدل جائے گا ۔ابھی امریکہ ،برطانیہ اور فرانس عالمی طاقت کا مرکز ہیں ۔مگر غزہ کی جنگ نے بہت سی بھیڑوں کے جسم سے شیرکی کھال نوچ ڈالی ہے ۔اسرائیل جو خو د کوناقابل تسخیر سمجھاجاتا تھا آج غزہ کے سامنے جنگ بندی کی بھیک مانگ رہا ہے ۔بحر احمر پر یمن کا قبضہ ہے اور اسرائیل جانے والے تمام جہازاپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہیں۔امریکہ نے عالمی طاقتوں کا ایک محاذ بنانے کی کوشش کی تھی جو فی الحال ناکام ہوگیا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ سپر پاورز یمن جیسے چھوٹے اور غریب ملک سے خوف کھاررہے ہیں ۔جولوگ بیس دن میں غزہ پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کررہے تھے وہ اپنے قیدیوں کا پتا لگانے میں ناکام ہیں ۔ امریکہ جس نے جنگ بندی پر ویٹو کردیا تھا اب مذاکرات پر زور دے رہا ہے ۔اس لیے کہ اس جنگ کے نتیجے میںمشرق وسطیٰ میں اس کے مفادات پر خطرات کے بادل منڈرارہے ہیں ۔
2024 میں طاقت کا نیا مرکز وجود میں آنے کی امیدہے ۔غزہ جنگ نے روس،چین اور ایران پر مشتمل مثلث کو متعارف کرایا ہے ۔امید ہے کہ نئے سال میں امریکہ کی سپریمیسی ختم ہوگی اور چین و روس کی اجارہ داری قائم ہوگی ۔2024میں ترکی کے ساتھ برطانیہ کے ذریعہ کیا گیا وہ ظالمانہ معاہدہ بھی ختم ہوجائے گا جو اسے آزاد کرتے ہوئے کیا گیاتھا اور جس کی رو سے ترکی اپنے تیل و معدنیات کے ذخائر سے کلی طور پرمستفید نہیں ہوسکتاتھا ۔امید ہے کہ اس معاہدے کے اختتام پر ترکی کی معاشیات مضبوط ہوں گی اور یہ اسلامی دنیا کے لیے نیک فال ہوگا ۔
2024میں ہندوستان میں عام انتخابات ہوں گے ۔بظاہر تو حالات یہی کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کو ایک بار پھر اقتدار نصیب ہوگا ۔البتہ انڈیا کے نام سے اپوزیشن کا جو گروپ تشکیل دیا گیا ہے اگر اس نے ایثار اور حکمت سے کام لیا تو یہ منظر بدل بھی سکتا ہے ۔آنے والے عام انتخابات صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے بہت اہم ہیں ۔مودی جی کی سربراہی میں ملک کے گزشتہ دس سال بڑے نشیب و فراز کے حامل رہے ہیں ۔ملک نے جہاں چاند مشن میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے وہیں ،روزگارکی فراہمی میں کمی ،مہنگائی کی شرح میں اضافہ جیسے عفریت سے بھی سامنا کیا ہے ۔سب سے بڑا نقصان ملک کے آئین کو پہنچا ہے ۔اس کی روح کو ماردیا گیا ہے ۔مسلم پرسنل لاء میں مداخلت سے شروع ہوئی آئینی اصلاحات کی نام نہاد تحریک اب پورے آئین پر ہی تلوار بن کر لٹک گئی ہے ۔مزے کی بات یہ کہ کسی معاملہ میںسپریم کورٹ کوئی فیصلہ سناتی ہے اور اس کو پلٹنے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون بنادیا جاتا ہے ۔توقع ہے کہ عالمی طاقت کا توازن بدلنے سے ملک کی پالیسیوں پر فرق پڑے گا ۔جب ہم عالمی دبائو کے نتیجے میں اور عرب ریاستوں کی خوشنودی کے لیے نہرو جی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکہ کے خلاف ووٹ کررہے ہیں تو ذرا سوچیے اس وقت کیا ہوگا جب امریکہ اپنی بادشاہت کھوچکا ہوگا ۔اسرائیل کی ہوا اکھڑ چکی ہوگی اور مشرق وسطیٰ ایران ، ترکی ،چین اور روس کے زیر اثر ہوگا ۔
میرا تجزیہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی ہندوستانی مسلمان نہیں لاسکتے ۔اس لیے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ خود کو کسی طور نہیں بدلیں گے ۔نہ اپنی جہالت پر قابو پائیں گے ،نہ اپنی معاشی کمزوری دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کریں گے ،نہ اپنے انتشار کو دور کرنے کے لیے مخالفین کو گلے لگائیں گے ۔بلکہ جس ڈھرے پر ان کی گاڑی چل رہی ہے اسی پر چلتی رہے گی ۔ہمارے قائدین کی سوچ کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیجیے کہ 31دسمبر کے اخبارات میں جامع مسجد دہلی کے امام کے حوالہ سے یہ بیان شائع ہواہے کہ غزہ جنگ میں اسلامی ممالک سے وہ مایوس ہوچکے ہیں اور یہ جنگ مودی جی رکوا سکتے ہیں ۔مجھے مودی جی کی عظیم صلاحیتوں سے انکار نہیں ہے ۔البتہ امام صاحب کی عقل و فہم پر حیرت ہوتی ہے ۔اسی کو علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ۔:
بتوں سے تجھ کو امید خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
دوستو!جو گزرگیا وہ ماضی ہوگیا ،ہم اپنے ماضی کو بدل نہیں سکتے ،البتہ ماضی کا جائزہ لے سکتے ہیں ،اپنا احتساب کرسکتے ہیں ،اور اس کی روشنی میں کوئی لائحہ عمل بنا کر اپنے حال کو بہتر اور مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنا سکتے ہیں ۔جو گروہ اور افراد اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے وہ اپنی اصلاح نہیں کرسکتے ۔ جو خود نہیں بدلتے وہ زمانے کو کیا بدلیں گے ،ان کوتو قدرت بھی نہیں بدلتی ۔ہم اہل فلسطین کی ہمت کو سلام کرتے ہیں کہ انھوں نے عالمی طاقتوں کو ان کی اوقات یاد دلائی ۔وہ مستضعفین کی مدد کے لیے نکلے ۔اس کے لیے انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اللہ کی مدد سے وہ تعداد اور طاقت میں کم ہونے کے باوجود غالب آرہے ہیں ۔مجھے پوری امید ہے کہ ان کی قربانیاں رائگاں نہیں جائیں گی اور دنیا 2024میں بہت کچھ ایسا دیکھے گی جس کی اس کو توقع نہیں ہوگی ۔کمزور طاقت پائیں گے اور ظالم عبرت ناک شکست سے دوچار ہوں گے ان شاء اللہ۔
Comments are closed.