تائیوان چین کااٹوٹ حصہ ہے،اسے دوبارہ اپنے ساتھ ملالیاجائےگا:چینی صدر

بصیرت نیوزڈیسک
چین کے صدر شی جن پنگ نے اتوار کے روز نئے سال کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران کہا کہ تائیوان کو ”یقینی طور پر دوبارہ اپنے ساتھ ملا لیا جائے گا۔”
ان کے ان تبصروں سے تائیوان کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان ہے، جسے بیجنگ چین کا اپنا ہی ایک صوبہ مانتا ہے۔ خود مختار جزیرے تائیوان میں 13 جنوری کو صدارتی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے قوم کے نام ٹیلی وژن پر براہ راست نشر ہونے والے اپنے خطاب میں کہا کہ ”مادر وطن کو یقیناً دوبارہ متحد کر لیا جائے گا۔”انہوں نے مزید کہا ”آبنائے (تائیوان) کے دونوں اطراف کے ہم وطنوں کو قومی تجدید کی شان میں حصہ لینے کے لیے مشترکہ مقاصد کا پابند ہونا چاہیے۔”
ان کے ان بیانات کو ایک ایسے اشارے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بیجنگ تائیوان پر اپنا سیاسی اور عسکری دباؤ جاری رکھے گا۔ شی جن پنگ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو چین تائیوان کو بزور طاقت دوبارہ ضم کرنے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں جزیرے تائیوان کے آس پاس چینی جنگی جہاز اور فوجی طیارے تعینات کیے جاتے رہے ہیں، جبکہ تائی پے چین کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی بھی بات کرتا رہا ہے۔
تائیوان میں صدارتی مہم کے دوران بہت سے اہم موضوعات کی طرح چین کے ساتھ تعلقات بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ فی الحال صدارتی انتخابات کی دوڑ میں جزیرے کے نائب صدر ولیم لائی کو سبقت حاصل ہے۔
جزیرے کی حکمران ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ولیم لائی کو چین ایک ”علیحدگی پسند” رہنما کے طور پر دیکھتا ہے اور بیجنگ ان پر اور تائیوان کی سبکدوش ہونے والی صدر سائی انگ وین پر، جزیرے پر حملہ کرنے کے لیے چین کو اکسانے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
تائیوان کے رہنما چین پر انتخابی مداخلت اور غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگا چکے ہیں۔ بیجنگ ان کے دعووں کو مسترد کرتا ہے۔
شی جن پنگ نے اپنی تقریر کے دوران چینی معیشت کو بہتر بنانے کا عہد بھی کیا اور کہا کہ سن 2023 کے دوران کاروباری حالات ”زیادہ مضوبط اور متحرک” ہوئے ہیں۔ چینی رہنما نے معیشت سے متعلق کافی مثبت لہجہ اختیار کیا، جبکہ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ کووڈ 19 کی پابندیوں کے بعد سے معیشت کی بحالی کا عمل رک سا گیا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین میں نوجوانوں میں ریکارڈ بے روزگاری پائی جاتی ہے اور ریئل اسٹیٹ کے اہم شعبے میں قرضوں کے مسلسل بحران کے سبب معاشی بحالی کا عمل رک گیا ہے۔
لیکن شی جن پنگ نے کہا کہ معیشت نے وبائی امراض کے ”طوفان کو سنبھال لیا ہے۔” انہوں نے ”اعلیٰ معیار کی ترقی” اور الیکٹرک گاڑیوں، لیتھیم بیٹریوں اور سولر پینلز جیسی ابھرتی ہوئی صنعتوں کے فروغ کو بھی سراہا۔
تاہم انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ ہر کوئی فائدہ نہیں اٹھا پا رہا ہے کیونکہ ”کچھ کمپنیاں آپریٹنگ دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو روزگار جیسے مسائل اور مشکل زندگی کے حالات کا بھی سامنا ہے۔”
انہوں نے چینی عوام سے کہا کہ ”یہ تمام چیزیں مجھے بہت پریشان کرتی ہیں۔ ہمارا مقصد بہت ہی بلند ہے، پھر بھی یہ بہت آسان بھی ہے۔ آخر کار اس کا مقصد لوگوں کو بہتر زندگی گزارنے میں مدد کرنا ہے۔”
چین کی سن 2023 کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) پانچ فیصد کے قریب رہنے کی توقع ہے، جو سن 2010 کی دہائی کے عروج کے
سالوں سے کافی کم ہے۔ بیجنگ نے اگلے سال کے لیے بھی اسی طرح کی معاشی ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔
چینی صدر نے کہا کہ 2024 میں، ”ہمیں۔۔۔۔ اقتصادی بحالی کے مثبت رجحان کو مضبوط اور بڑھانے کی ضرورت ہے اور طویل مدتی اقتصادی ترقی حاصل کرنا ہوگی۔”
اس سے قبل دسمبر کے اوائل میں اعلیٰ چینی رہنماؤں نے سن 2024 کے لیے اپنے اقتصادی منصوبے پیش کیے تھے، جس میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے مزید اقدامات کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔

Comments are closed.