Baseerat Online News Portal

حماس کی موجودہ کامیابی اور 48 و 67 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ہزیمت: ایک تجزیہ

مفتی احمدنادرالقاسمی
اللہ تعالی کا یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب کی امت کو کبھی مایوس نہیں کیا ۔جب بھی یہ امت خلوص نیت اوردین کی سربلندی کے عزم سے میدان کارزار میں اتری اللہ نے اسے سرخ روئی بھی عطا فرمائی اور دنیامیں عزت بھی دی۔آج دنیا اپنے سر کی آنکھوں سے اسے دیکھ بھی رہی ہے اوردشمن بھی نہ صرف یہ کہ دیکھ رہاہےبلکہ اس کا کلیجہ بھی خوف سے تھرتھرکانپ رہاہےاورہروقت یہ غم ستارہاہے کہ کہیں ہم صفحہ ہستی سے ہی نہ مٹ جائیں اورپھر اسی قعر مذلت میں ڈھکیل دئیےجائیں جہاں آج سے ستر سال پہلے تھے اوردنیا میں دربدرکی ٹھوکریں کھارہے تھے اورہماراایمان ہے کہ ان شا ءاللہ ایساہی ہوگا اوردجالی طاقتیں ارض فلسطین وقدس میں ضرور اسی طرح رسواہوں گی جس طرح صلاح الدین ایوبی کےقدموں تلے ذلیل ہوئے تھےاورکیوں نہ ہوں جب رب ذوالجلال نے نافرمانیوں، بدعہدیوں اورعہدشکنیوں کی وجہ سے انھیں ذلت ونکبت کی سند دیدی ہے۔”ضربت علیھم الذلة این ماثقفوا الابحبل من اللہ حبل من الناس وباٶ بغضب من اللہ وضربت علیھم المسکنة ذلک بأنھم کانوا یکفرون بأیات اللہ ویقتلون الانبیا ٕ بغیر حق ذلک بماعصواوکانوا یعتدون “۔(آل عمران ١١٢) یعنی ہرجگہ ان پر ذلت کی مارپڑی چاہے جہاں بھی رہے۔سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی یالوگوں کی پناہ میں ہوں،یہ غضب الہی کے مستحق ہوگئے اوران پر فقیری ڈال دی گئی۔یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کی آیتوں کا انکارکرتےتھے اورناحق ابنیا کو قتل کرتے تھے،یہ بدلہ ہےان کی نافرمانیوں اورزیادتیوں کا ۔
اورسورہ بقرہ کی آیت ٦١۔”وضربت علیھم الذلة والمسکنة وباٶبغضب من اللہ الخ“۔ یہ ان کی ذلت ورسوائی کی سند ہی تو ہے۔یہ ذلت ورسوائی آج تک ان کامقدر ہے۔کبھی وہ دنیا میں آزادانہ اوربے فکرہوکرزندہ نہیں رہےاورنہ ہی رہ سکتےہیں ۔کبھی برطانیہ کی پناہ میں کبھی پولینڈ کی پناہ میں کبھی روس اوریوکرین کی پناہ میں اورکبھی جرمنی اورفرانس کی پناہ میں اورآج امریکہ کی پناہ میں ہیں ۔آج اگر امریکہ اپنادست شفقت کھینچ لے تو دوماہ بھی سکون سے زندہ نہیں رہ سکتے اس لیے ہروقت امریکہ کے سامنے روتے اوربلکتے رہتے ہیں کہ تم ہماراساتھ مت چھوڑو ورنہ زمین سے ہمارانام ونشان مٹ جائے گا اورقوم یہود ختم ہوجائے گی۔ یہ دردشا اس قوم کی احسان فراموشی اوربدمعاشیوں کی وجہ سے ہوئی ۔وہی احسان فراموشی جواس نے دورقدیم میں کی تھی وہی احسان فراموشی اس نے آج فلسطین اورعربوں کے ساتھ کی ۔جب پوری دنیامیں ڈھائی تین ہزار سالوں سے دھتکارے اوربھگائےجاتے رہے تو عربوں نے ترس کھاکر جگہ دی اورانہی کا احسان بھلاکر انہی کو گھروں سے بےدخل کرکے اپنی ناجائزحکومت برطانیہ اورامریکہ کے توسط سے بنالی۔ اس سے بڑی احسان فراموشی کیاہوگی۔؟ کس نے اس قوم کو نہیں مارا۔بخت نصر سے لیکر ہٹلر تک اوراب چھوٹے سے نہتھے گروہ حماس اورغزہ سے کتنی ذلت آمیز مار کھارہاہے،دنیا دیکھ رہی ہے۔
67 19کی جنگ میں عربوں کے پسپاہونے کے کئی وجوہات تھے ۔ان سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عرب ہمیشہ سے میدان جنگ کے ماہررہے اورتلوار اوربندوقوں کی حد تک ان میں کافی مہارت رہی اوراس پر جرأت وبہادری نورعلی نور ۔مگر عرب کبھی بھی دنیا میں پروفیشنل سپاہی نہیں رہے ۔جب دنیا میں ملٹری اورجنگی سپاہیوں کی ترتیب وتربیت کادورآیا تو اس وقت مسلمانوں کی قیادت بجائے عربوں کے ترکوں کے ہاتھ میں رہی اورملٹری ترک قوم ہی تھی اس میں عرب برائے نام ہی شامل رہے ۔بلکہ عرب تو ترکوں سے نسلی بنیاد پر نالاں ہی رہے اورعرب ہمیشہ چاہتے تھے کی عربوں پرسے ترکوں کاتسلط ختم ہوجائے۔ اسی لیے عربوں نے ترکوں کے خلاف برطانیہ سے ہاتھ ملالیا تاکہ وہ خلافت عثمانیہ سے آزادہوسکیں ۔عربوں کے نزدیک امت کامفاد کم اوراپنی عرب قومیت کامفاد زیادہ تھا ۔نتیجہ یہ ہواکہ جب ترکی خلافت ختم ہوئی اورعرب آزادہوئےتو برطانیہ نے ان اسرائیلیوں اورصہیونیوں کو ان پر مسلط کیا جوپہلے سے پروفیشنل ملٹری تھے اوران کو پہلی اوردوسری جنگ عظیم میں فاتح فوج کے شانہ بہ شانہ لڑنے کاتجربہ تھا ۔عربوں کے پاس جہادکاتجربہ توتھا مگرتربیت یافتہ ملٹری ونگ کی طرح میدان میں لڑنے کانہ توتجربہ تھا اورنہ ان کے پاس فضائی جنگ کے طیارے تھے جبکہ صہیونی جو اسرائیل آئے تھے وہ پہلے ہی سے برطانیہ اورفرانس کی ملٹری میں شامل تربیت یافتہ تھے اورفضاسے جنگ کرنے کی بھی مہارت تھی اورفائٹر جٹ بھی ان کے پاس برطانیہ اورامریکہ وفرانس نے دے دئیے تھے ۔بھلا عرب تومیدانی جنگ کاتجربہ رکھتے تھے اسرائیلی فوج سے کیالڑتے۔ نتیجہ یہ نکلاکہ عرب ملکوں کے متحد ہونےکے باوجود اسرائیل کے سامنے محض ۶ دنوں میں ڈھیرہوگیے اوراسرائیل جیت گیا۔ یہ وجہ تھی 67 کی جنگ میں عربوں کی شکت کی۔ مگر آج جبکہ عربوں کو میدانی ملٹری ایکشن کے ساتھ فضائی تجربہ بھی آگیاہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں اگرچہ حماس نے اب تک کوئی فضائی جوہر نہیں دکھائےمگر اپنی معمولی اورزمینی ملٹری تربیت کی وجہ سے اسرائیل پر بھاری پڑ رہے ہیں اورجدیدترین اسلحہ سےلیس ایڈوانس کہی جانے والی فوج کے چھکے چھڑارکھے ہیں ۔ اگر ذرابھی عربوں نے اپنی ہمت دکھائی ہوتی اورحماس کا عسکری ساتھ دیاہوتا تو اس وقت اسرائیل اورامریکہ کے ڈرپوک سورماؤں کا حشرہی کچھ اورہوتا ۔عربوں اورمسلمانوں کے لیے یہ بہترین موقعہ تھا فلسطین اوراقصی کو صہیونی خونی پنجے سے آزاد کرانے کا ۔مگر افسوس مسلم حکومتوں کی بزدلی اورنکمے پن پر ۔اگر آج حماس اسرائیل سے شکت کھاتاہے تو کہاجائے گا ”حماس توجنگ جیت گیامگر ہار سعودی عربیہ ،متحدہ امارات،ترکی، پاکستان ،مصر،اردن اورملیشیاکی ہوئی “ جو اپنی بڑی بڑی فوج اورمعاشی وعسکری طاقت کا ڈنکابجانے کے باوجود بزدلی کی وجہ سے راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ اگر کوئی ملک ان ملکوں میں سے کسی پر بھی حملہ آورہوتاہے تو اس کے آگے خود سپردگی کرنے میں دیرنہیں لگے گی چاہے کتنی ہی زبانی طاقت دکھاتے رہیں ۔بس زبانی طاقتورہیں عمل کے میدان میں زیرو،ہاں یہ طاقت دکھائیں گے اپنوں کے خلاف۔ میں تو یہاں تک کہتاہوں کہ مسلم اورعرب ملکوں کےموجودہ رویہ نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ ممالک امریکہ کی ان فوجی ٹکڑیوں سے بھی نہیں لڑسکتے جن کو امریکہ نے ان ملکوں میں ڈپلائی کررکھا ہے ۔مسلم امہ کی اس بزدلی اورنکمے پن پر سوائے افسوس کے اورکچھ نہیں کیاجاسکتا۔ اللہ تعالی بجائے دنیاوی اسباب پرتکیہ کرنے کے مسلمانوں کواپنی ذات پربھروسہ کرنے والا حقیقی توحیدی ایمان عطاکرے۔آمین ۔وماذلک علی اللہ بعزیز۔ اورمسلم ممالک کے نوجوانوں کو یہ بھی غور کرناچاہیے کہ أگرامت کی حفاظت کرنی ہے توان حکومتوں پر تکیہ کرنابندکریں ۔ اوراپنے اسلاف کی پیروی کوشعار بنائیں ۔

Comments are closed.