مشہورمردم سازعالم دین استاذ العلماء مولانا عبد الجلیل قاسمی کا انتقال پرملال, پرنم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

 

مدھے پورہ ( نمائندہ) دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل, بزرگ عالم دین, کئی نسلوں کے استاذ, عوام و خواص کے محبوب و ہر دل عزیز, مدرسہ انوار العلوم اسلام پور, پورنیہ کے 43 سالہ دورانیہ کے بافیض استاذ و باکمال ناظم تعلیمات, بانی و صدر مدرسہ مرقات العلوم رام پور ڈہرو, تاحیات نقیب امارت شرعیہ, کئی ادارے اور تنظیموں کے سرپرست, صلاحیت و صالحیت سے مالامال, علم و عمل کے پیکر, حسن خلق کے خوگر, حق گو و کم سخن, مردم ساز و مردم گرحضرت مولانا عبد الجلیل قاسمی کی وفات حسرت آیات کی خبر سے دینی و علمی, سماجی و ملی حلقے میں غم و اندوہ اور سوگواری کی لہر پھیل گئی۔ خبر جنگل کی آگ بن کر پھیل گئی, تعزیت و دیدار کے لئے عوام و خواص کا تانتا بندھ گیا, کیا مسلم کیا غیر مسلم, آخری دیدارو زیارت کے لئے جن سیلاب امڈ پڑا۔ اور صوبہ و بیروں صوبہ سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔
مولانا مرحوم کا انتقال پرملال 4 جنوری 2024 مطابق 21 جمادی الثانیہ کو دن گزار کر شب جمعہ میں دس بج کر بیس منٹ پر ہوا۔ تدفین آبائی گاوں رام پور ڈہرو ضلع مدھے پورہ میں بعد نماز جمعہ عمل میں آئی۔
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا
جنازے میں کثیر تعداد میں قرب و جوار اور دور دراز کے علماء, صلحاء, اور عوام و خواص شریک ہوئے, گاوں کی تاریخ میں اب تک اس بڑی تعداد میں جنازےمیں لوگوں کی شرکت نہیں دیکھی گئی, نماز جنازہ سے قبل مفتی عبد القیوم رحمانی صاحب نے مولانا مرحوم کی دینی,تدریسی, تعلیمی اور سماجی و ملی خدمات اور خصوصیات پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ حضرت مولانا سراپا نفع رساں انسان تھے, ان کی مقبولیت و محبوبیت کا راز یہی ہے کہ انھوں نے پورے خطے کو اپنے علمی و دینی فیض سے مالامال کیا۔جنازے کی نماز بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد العظیم حیدری قاضی شریعت بیگوسرائے نے عیدگاہ کے وسیع و عریض میدان میں پڑھائی, مولانا مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیوہ, چار بیٹے: مفتی جاوید اشرف قاسمی, مفتی شبیر انور قاسمی, مفتی عبد القادر قاسمی, حافظ صادق انور اور پانچ بیٹیاں ہیں, ماشاء اللہ سبھی بیٹے بیٹیاں لائق و قابل علماء اور عالمات ہیں اور وہ بھی اشاعت علم میں مصروف ہیں۔
مولانا مرحوم کی ابتدائی تعلیم گاوں کے اردو مکتب میں ہوئی, پھر دار الیتامی چمپانگر اور مدرسہ اصلاح المسلمین میں اس وقت کے آفتاب علم و فن کے پاس زانوئے تلمذ طےکیا اور پھر اعلی تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور چار سال تک وہاں کی علمی و روحانی فضا میں علمی تشنگی بجھائی اور 1971 میں فارغ التحصیل ہوئے,بعدہ ڈھائی ماہ خانقاہ رحمانی مونگیر میں وقت گذرا, امیر شریعت رابع کی مجالس کا فیض پایا, اس کے بعد محرم میں مدرسہ انوار العلوم اسلام پور بحیثیت ناظم تعلیمات آئے اور مدرسے میں تعلیمی انقلاب برپا کیا, تشنگان علوم کشاں کشاں کھینچے چلے آئے, مولانا نے بھی خون جگر سے انھیں سینچا, آخر وقت تک آپ کی قربانیاں اور خدمات زریں تاریخ کا حصہ ہیں وہیں مولانا نے اپنے گاوں اور آس پاس کے علاقے میں پھیلی جہالت اور اس کی تاریکیوں کو بڑے ہی حکمت و تدبر سے کافور کیا, گاوں گاوں گھر گھر آپ نے علم کی شمع روشن کرنے کی ٹھانی کہ روشنی آتے ہی تاریکی چھٹ جاتی ہے, چنانچہ مولانا مرحوم کی خاموش محنت کا ثمرہ ہے کہ علماء کی بڑی کھیپ یہاں تیار ہوئی ,مولانا نے گاوں میں تعلیمی ادارہ مدرسہ مرقات العلوم قائم کیا جس کا فیضان حلقے میں جاری و ساری ہے, اس طرح امت اور امت کے بچوں کی فلاح کے لئے فکرمند وکوشاں رہے, سماجی تنازعات کا نپٹارا بھی آپ کی بصیرت کا نتیجہ ہوتا, مولانا کے وجود و مداخلت سے بڑے بڑے فتنے دب جاتے, فرقہ وارانہ ہم آہنگی و خیرسگالی پر بھی مولانا کی نگاہ رہتی, بے لوث خاموش محنت شیوہ رہا, عجب و ریا سے اللہ واسطہ کا بیر, مرحوم بے ضرر نافع, سادہ طبیعت اور سادگی پسند انسان تھے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.