پارلیمنٹ انتخاب کے لیے ملک کو جمہوریت کی سچی آواز سننی چاہیے

عرض داشت
مذہبی منافرت، اشتعال، حکومت کی کامیابی اور ناکامی جیسے سوالوں کے درمیان آنے والے وقت میں پارلیمانی انتخاب ہوگا، جمہوری اداروں کے لیے لمحۂ فکریہ۔
صفدر امام قادری
سابق صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
۲۰۲۴ء کی آمد کے پہلے سے ہی نئے پارلیمانی انتخاب کی سگ بگاہٹ قائم ہونے لگی تھی۔ این ڈی اے کے سامنے انڈیا محاذ کا بننا تو ایک حقیقت ہے ہی مگر پورے ملک میں سیاسی تنظیموں اور چھوٹے بڑے اداروں میں روح پھونکنے کی مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو کوششیں ہو رہی ہیں، وہ قابلِ توجہ ہیں اور سیاسی مبصرین کو اِن موضوعات کا تجزیہ کرنا چاہیے جن کے آئینے میں ملک کا مزاج اُبھر کر سامنے آ سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کا نقطۂ نظر اور ان کی حکمتِ عملی واضح ہے۔ اُن کے پاس ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور وہاں مورتی کی تنصیب ایک ایسا کام ہے جس کو پھیلا کر ووٹ طلب کیا جا سکتا ہے۔ ایک برس پہلے سے ہی یہ اندازا ہونے لگا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی پھر سے رام مندر کو ہی پارلیمانی انتخاب کا ایجنڈا بنائے گی۔ اتر پردیش جہاں سب سے زیادہ پارلیمانی سیٹیں ہیں، وہاں کی صوبائی حکومت نے تمام چیزوں کو رام مندر سے جوڑ کر دیکھنے اور دکھانے کی ایک مہم قایم کر رکھی ہے۔حکومتِ اتر پردیش اور اُن کے وزیرِ اعلا کے ذہن میں یہ بات بالکل صاف ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر کی ذمہ داری ہندستان کی عوامی توقعات کے عین مطابق کر رہے ہیں، اِس لیے یہ کام اُنھیں ووٹ کی شکل میںتبدیل ہو کر پھر سے ایک بار حکومت بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ بے شک یہ کام اُن کے لیے توجّہ کا باعث ہے اور ایک بڑے حلقے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام اُنھیں نئے سرے سے حکمراں بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی سے اختلاف کرنے والوں کا بجا طور پر یہ کہنا ہے کہ ایک غیر مذہبی ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی مذہبی موضوع کے ساتھ کیوں کر الیکشن کے میدان میں اترنا چاہتی ہے۔ یہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیا کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ وہ اُن کاموں کے لیے عوام سے ووٹ طلب کرے۔ یہ بات یاد رہے کہ ۲۰۱۹ء کے بعد کورونا کی مشکلات میں ملک کے عوام کے ساتھ جو کچھ حکومت کا برتاؤ رہا ہوگا، اُس کی جانچ پرکھ اور حساب کتاب بھی عوام کی سطح پر ہونا ہے۔ شاید اِسی لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی کار کردگی کا حساب دینے سے زیادہ یہ مناسب سمجھا کہ ایک جذباتی سوال ہوا میں اچھال دیا جائے اور عوام کی معصومیت اور سادگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پھر ایک بار اپنی تاج پوشی کرا لی جائے۔
انڈیا محاذ کے حقیقی سر براہ کانگریس کے سپری مو راہل گاندھی کی اِس انتخاب کے حوالے سے سر گرمیوں کا جائزی لیا جائے تو ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جذباتی سوالوں سے الگ اپنی مہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔راہل گاندھی زمینی سطح پر عوام کے مسائل سے کانگریس کو جوڑ کر پارٹی کی ایک نئی شبیہ بنانے میں مصروف ہیں۔اُن کا پچھلا دورہ اور آنے والے وقت میں جو طویل یاترا ہونی ہے، اِس کے پیچھے اُن کے مقاصد اور اہداف واضح ہیں۔ شاید ااِسی لیے عوامی سطح پر بھی اُن کی گذشتہ امیج سے ایک واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے اور وہ ایک اُبھرتے ہوئے نہایت ہی سنجیدہ عوامی قائد کی شکل میں ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔کانگریس جتنی اُن کے پیچھے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس تتر بتر حالت میں بھی ہے۔ اِسی لیے رہ رہ کر کانگریس کے ایک حلقے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے جذباتی سوالوں کے حصار میں داخلے کی ہمیں آہٹ سنائی دیتی ہے۔ اگر راہل گاندھی کے تصوّرات، ملک کی ترقی کے موضوعات اور عوام سے متعلق بنیادی اُمور کانگریس کی طرف سے خاص ایجنڈا بن گئے تو یہ راہل گاندھی اور کانگریس دونوں کی کامیابی تو ہوگی ہی، اِس سے بڑھ کر جمہوری اداروں کی جیت بھی ہوگی کہ جذباتیت کو پسِ پشت ڈال کر عوامی مسائل کی بنیاد پر پارلیمنٹ انتخاب کے لیے ایجنڈا تیّار ہوگا۔یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ جذباتیت کے مقابلے سنجیدہ عوامی سوال کس قدر ٹک پائیں گے اور وہ ووٹ میں کتنے بدل پائیں گے مگر یہ سوال ذہن میں ہونا چاہیے کہ عوام کے مسئلوں پر الیکشن ہوناہی چاہیے اور مذہبی منافرت اور جذباتیت کو سرِ فہرست ایجنڈا بنانے کی بھول اب زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
انڈیا محاذ ایک بڑی جماعت کے طور پردو درجن سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کاایک پلیٹ فارم ہے اور اُس کی قیادت کے داخلی مسائل پورے ملک کے سامنے ہے۔ یہ مسائل آخر تک قایم رہیں گے۔ اِس کے باوجود عوامی سطح پر سیاسی اتحاد اور مقابلہ آرائی کا ماحول بھی رفتہ رفتہ قائم ہوتا جا رہا ہے۔ ماحول حزبِ اقتدار اور اختلاف دونوں کی طرف سے بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دیکھنے میں یہ ضرور محسوس ہوتا کہ انڈیا محاذ اپنے داخلی اختلافات اور انتشار کی وجہ سے پورے طور پر بکھراؤ کا شکار ہے اور اِسی وجہ سے سیاست کے ماہرین اور خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے عقیدت رکھنے والے افراد یہ بات مان کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اِس بکھراؤکا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملے گا اور کہیں نہ کہیں نریندر مودی کو تیسری بار سرکار بنانے کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔
پارلیمانی انتخا ب میں بے شک مذہبی منافرت اور جذباتیت کی بنیاد پر کچھ ووٹ اور کچھ فیصد سیٹیں حاصل کر لی جائیں مگر شاید یہ ممکن نہیں کہ صرف اِسی کی بنیاد پر حکومت حاصل کر لی جائے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور گجرات سے اسام تک ہندستان کی جو پیچیدہ سیاسی صورتِ حال ہے، اُس کے پیشِ نظر یہ آسان نہیں ہے کہ تین سو سے زیادہ پارلیمانی حلقوں میں یہ سیاسی کارڈ کام کر جائے اور صرف رام مندر کی تعمیر کی بنیاد پر اتنی بڑی تعداد میں سیٹیں حاصل ہو جائیں۔ملک میں حزبِ اختلاف کی الگ الگ جو علاقائی پارٹیاں ہیں، اُنھوں نے بھی اپنے عوام کو بہت دنوں سے غیر مذہبی بنیاد پر تیّار کرنے کا ماحول بنا رکھا ہے۔مرکزی حکومت سے بہت سارے بنیادی سوالات جگہ جگہ پوچھے جا رہے ہیں اور آنے والے وقت میں اِن کا تواتر بڑھے گا۔ابھی الیکشن کی سرگرمیاں جیسے جیسے بڑھیں گی، اختلاف کی آوازیں بھی ابھرنے لگیں گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین سے گانو، محلوں اور شہروں میں ملک کی ترقی اور خوش حالی اور کمزر عوام کے لیے فلاح کے وسائل کے موضوعات پر آمنے سامنے کی بحث ہو گی۔ یہ بحث کسی بھی شکل میں آسان نہیں ہے۔ دس برس کی میعاد کم نہیں ہوتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو کھُل کر یہ بتانا ہوگا کہ ہندستانی عوام کے دکھ درد کا اُنھوں نے کس قدر مداوا ڈھونڈا اور اُن کی سطحِ زندگی کتنی بدلی۔ یہ سوال بھی پیشِ نظر ہوگا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈروں نے سیاسی جملے کتنے کہے اور حقیقی کام کے اعلانات کتنے کیے، اب اِن سب باتوں کا حساب کتاب عوامی سطح پر ہوگا۔ کورونا کی وبا میں مرکزی حکومت کی جو ناکامی سامنے آئی، اُس کا بھی عوامی پلیٹ فارم پر جگہ جگہ حساب کتاب ہوگا۔ کانگریس کو ایسے ناگفتہ بہہ سوالوں سے ابھی سامنا نہیں ہوگا۔ ہاں کچھ صوبوں میں جہاں انڈیا محاذ کی حلیف جماعتوں کی حکومت تھی اور اُنھوں نے مناسب کارکردگی نہیں پیش کی، اُن کا لوگ حساب کتاب کریں گے۔
ہندستان کی آزادی کے ۷۶؍ برس مکمل ہو چکے ہیں۔جمہوری اقدار کے اعتبار سے اگر چہ یہ میعاد بہت کم ہے مگر آزادی کے لیے جتنی قربانیاں ہمارے بزرگوں نے دیں، اُن کے لہو سے ہم نے اپنی جمہوریت کو سینچا ہے۔ اِ س لیے اِس بات کی توقع ہمیں بہ ہر طور رکھنی چاہیے کہ پارلیمانی انتخاب کے مرحلے میں جذباتی سوالوں کو پیچھے رکھ دیں اور ملک کی ترقی، سالمیت اور امن و امان کو آگے رکھیں۔ ملک میں اگر مذہبی سطح پر اتحاد اور میل جول کا ماحول بچا رہے گا تو ہماری ترقی بھی ہو ہی جائے گی۔ اِس لیے آج نئی حکومت سازی کے پہلے عوام کو ایک بالغ جمہوری ڈھانچے کا حصّہ ہونے کی وجہ سے اُنھیں جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے جمہوریت کی صالح قدروں کو اپناتے ہوئے ہندستانی جمہوریت کی نئی تاریخ لکھنی چاہیے۔ ملک کی ترقی، غربت سے نجات،بے روزگاری سے نجات اور عالمی سطح پر اپنی شناخت کے لیے نئی حکومت کا انتخاب کرنا چاہیے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
[email protected]
Comments are closed.