منّور رانا نے اردو شاعری کی دنیا کو ویران کر دیا: ڈاکٹرسید احمد قادری

ممبئی ( پریس ریلیز )
اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا 14 ؍ جنوری کی شام لمبی بیماری کے بعد سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ۔ جانا یوں تو سبھی کو ہے لیکن کچھ جانے والے ایسے ہوتے ہیں جن کا گزر جانا صدیوں کا درد و غم دے جاتا ہے ۔ اپنے گہرے رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے منور رانا کے گزشتہ چار دہایوں کے دیرینہ دوست ڈاکٹر سیّد احمد قادری نے کہا کہ منور بھائی کا بچھڑ جانا اردو ادب اور شاعری کا ناقابل تلافی نقصان تو ہے ہی ہے ان کا ذاتی نقصان بھی ہے ۔ عالمی سطح پر اردو شاعری میں اپنی شناخت رکھنے والا ایسا ہنس مکھ ، بات بات پر ہنسانے والا دوست منور رانا ہمیں رُلا گیا ۔ ڈاکٹر سیّد احمد قادری نے منور رانا کے ساتھ گزرے گئے وقت کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ بھی ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ منور رانا شہرت اور مقبولیت کی بلندی پر پہنچ کر بھی اپنی انکساری کو کبھی نہیں بھولے۔ ہر سے ایک خاص انداز اور محبت سے وہ ملتے تھے اور ان سے جو بھی ملتا تھا وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے بتایا کہ منور بھائی سے ان کے گھریلو تعلقات تھے اور اکثر فون پر اپنے دل کی بات کیا کرتے تھے اور پرانی یادوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کرتے تھے قادری بھائی آپ لوگوں نے میرے لئے جو دوکان سجا ئی تھی وہ دوکان اچھی چل نکلی ہے ۔ جب کبھی وہ کسی سے ملواتے ،وہ سبھوں سے کہا کرتے تھے کہ قادری صاحب کا میں احسان مند ہوں ۔ منور رانا کی شاعری کے تعلق سے ڈاکٹر سید احمد قادری نے بتایا کہ منور رانا عصر جدید کے ایسے ہونہار شاعر تھے،جنہوں نے اپنے فکر وفن ، مطالعہ و مشاہدہ اور احساسات و جذبات کے خوبصورت اظہار سے بہت کم عرصے میں اپنی ایک پہچان بنا لی تھی ۔ مشہور شاعر والی عاصی نے اپنے اس شاگرد شاعر سے توقعات وابستہ کرتے ہوئے کہا تھا:’’جس شاعر کے یہاں غزل کی روایت سے بغاوت اتنے خوبصورت انداز میں ہو وہ ضرور آگے جائے گا اور نئی اردو غزل کو بہت کچھ دے گا۔‘‘اور اس شاعر نے اپنی ذہانت و صلاحیت اور فکر و نظر سے یقینی طور پر نئی اردو غزل کو بہت کچھ دیا ۔منور راناؔ کا مطالعہ و مشاہدہ بڑا گہرا تھا ۔ان کی گرفت فن پر بھی مضبوط تھی۔ اس لئے راناؔ جو بھی شعر کہتے تھے وہ فنّی اور فکری لحاظ سے قابل قدر ہوتے تھے۔ مخصوص اور منفرد لب و لہجہ والے اس شاعر کے یہاں علامتوں ، استعاروں اور تشبیہوں کا استعمال بڑے سلیقے ، خوبصورت اور دلکش و دلچسپ انداز میں نظر آتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے استعمال سے ترسیل یا ابہام کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ فہم و ادراک کے نئے نئے دروازے وا ہوتے ہیں۔ان ہی خصوصیات کی بنا پر راناؔ کو ان کے ہم عصر شعرا مثلاً ناصر کاظمی، شکیب جلالی، کشور ناہید ، سلطان اختر، پروین شاکر ، ندا فاضلی اور ظفر اقبال کے درمیان بآسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر سید احمد قادری کے مطابق منور رانا کا فی بزلہ سنج تھے اپنے خاص دوستوں کی محفل میں ہر محفل کو قہقہ زار بنا دیا کرتے تھے ۔ منور رانا اپنی شاعری میں جہاں بے حد سنجیدہ اور فکر و احساس سے لبریز نظر آتے تھے وہیں وہ اپنی نثر میں طنز و ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کرتے تھے ۔ ایسا با کمال فنکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭
Comments are closed.