کرناٹک کے مسلم اراکینِ اسمبلی مسلمانوں کے مسائل پر اسمبلی میں آواز اٹھائیں یا پھر استعفی دیں: ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ

 

گلبرگہ: (پریس ریلیز) سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) نے کرناٹک میں کانگریس حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور اس پر ایوانِ اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پر آواز نہ اٹھانے والے مسلم اراکینِ اسمبلی کے خلاف ایس ڈی پی آئی ضلعی صدر سید دستگیر کی قیادت میں کل یہاں تماپوری سرکل سے گلبرگہ نارتھ کی رکن اسمبلی محترمہ کنیز فاطمہ کے رہائش گاہ تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ اس احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی لیڈران نے گلبرگہ نارتھ ایم ایل اے محترمہ کنیز فاطمہ سے خاموشی توڑنے اور ایوانِ اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھانے اور بصورت دیگر مستعفی ہو کر دوسروں کو موقع دینے کا مطالبہ کیا۔ ایس ڈی پی آئی لیڈران کا کہنا ہے کہ کنیز فاطمہ سمیت 9 مسلم اراکینِ اسمبلی کو مسلم نمائندے کے طور پر منتخب کرکے اسمبلی بھیجا گیا تھا۔ تاہم تمام مسلم اراکینِ اسمبلی مسلمانوں کی آواز بننے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر خاموش ہیں۔ یہ مسلم اراکینِ اسمبلی نہ تو اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی پارٹی فورم پہ بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔

”مسلم اراکینِ اسمبلی چپی توڑو“ کے عنوان کے تحت گلبرگہ میں نکالی گئی اس احتجاجی ریلی میں کنیز فاطمہ چپی توڑو کے نعرے لگائے گئے۔ ایس ڈی پی آئی مقررین نے کنیز فاطمہ کی مکمل سیاسی خاموشی پر سوال اٹھائے۔ خاص کر سنگھی لیڈر پربھاکر بھٹ نے جب مسلم خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے، تب بھی کنیز فاطمہ کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں آیا تھا۔ کنیز فاطمہ نے نہ ہی کوئی احتجاج، نہ کوئی قانونی کارروائی اور نہ ہی کوئی اخباری بیان دینے کی جسارت کی۔ بر خلاف اس کے حجاب معاملے پر سدرامیا کے بیان پر جلد بازی میں کریڈٹ لینے کی کوشش میں غلط بیانی سے کام لیا اور اپنی ناتجربہ کاری سب پر عیاں کردی۔ مقررین نے بشمول کنیز فاطمہ تمام مسلم اراکینِ اسمبلی سے سوال کیا کہ کانگریس ہائی کمان نے اپنے انتخابی منشور میں مسلم2B ریزرویشن کو بحال کرنے، حجاب اور گؤکشی قانون کو واپس لینے کی بات کہی تھی اور اپنے انتخابی جلسوں میں بھی کنیز فاطمہ نے یہ باتیں دوہرائی تھی، اب جبکہ حکومت بنے سات ماہ سے زائد کا وقفہ گزر چکا ہے، اس کے باوجود نہ حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی کنیز فاطمہ اور دیگر مسلم اراکینِ اسمبلی نے اس معاملے پر حکومت پر دباؤ بنایا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے مقررین نے کرناٹک اسمبلی کے 9؍مسلم اراکین سے مسلم ریزرویشن، دس ہزار کروڑ اقلیتی بجٹ، حجاب، مسلم طلبہ کے لئے اسکالر شپ، الند، ہبلی، کے جی ہلی، ڈی جے ہلی معاملے پر حکومت پر دباؤ بنانے اور اپنا موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔ گلبرگہ نارتھ ایم ایل اے کے سرکاری دفتر کے تعلق سے بھی وضاحت طلب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی مقررین نے کہاکہ منی ودھان سودھا کیمپس میں لوک سبھا ایم پی، راجیہ سبھا ایم پی، گلبرگہ انچارج منسٹر اور گلبرگہ ساؤتھ ایم ایل اے کا سرکاری دفتر موجود ہے، لیکن گلبرگہ نارتھ ایم ایل اے کا کوئی سرکاری دفتر نہیں ہے۔ ایسے میں عوام اپنے مسائل لے کر کہاں جائیں۔ایس ڈی پی آئی مقررین نے دیگر مسلم اراکینِ اسمبلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی پارٹی کا لیڈر سونیا یا راہل گاندھی کے خلاف بیان دیتا ہے تو یہ مسلم اراکینِ اسمبلی خوشامد پالیسی کے تحت اس کے خلاف بیان بازی یا سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، اس کے برخلاف برسر اقتدار حکومت میں مسلمانوں کی حق تلفی ہوتی ہے تو یہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی لیڈران نے کانگریس ہائی کمان پر بھی مسلم اراکینِ اسمبلی اور مسلم مسائل کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست بھر کے55لاکھ مسلم ووٹرس نے کانگریس کو ووٹ دیا اور دوسری کمیونیٹز کے بر خلاف مسلمانوں نے88فیصد ووٹ کانگریس کو دیے، اس کے باوجود کانگریس مسلسل مسلمانوں کو نظر انداز کر رہی ہے اور مسلم مسائل کا حل اور انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں پر سنجیدہ نہیں ہے۔ اس احتجاج میں ایس ڈی پی آئی کے ضلعی صدر سید دستگیر کے علاوہ ریاستی نائب صدر محترمہ سیدہ سعیدہ، ریاستی سکریٹری عبد الرحیم پٹیل، ضلعی جنرل سکریٹری سید علیم الہی اور سینئر لیڈر محمد محسن کے ساتھ سیکڑوں کارکنان اور خواتین نے حصہ لیا۔

Comments are closed.