ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ،وزیراعظم،آرایس ایس سربراہ سمیت سینکڑوں اہم شخصیات کی شرکت

نئی دہلی(ایجنسی)اتر پردیش کے تاریخی شہر ایودھیا میں تین دہائیوں قبل منہدم کی گئی تاریخی بابری مسجد کی جگہ تعمیرکیے گئے رام مندر کا افتتاح آج پیر کے روز کردیا گیا۔ اس افتتاحی تقریب کے سلسلے میں ہونے والی پوجا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اوراترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ اہم شخصیات نے شرکت کی۔
اس پروگرام کو ٹی وی اورآن لائن پلیٹ فارموں پر براہ راست نشر کیا گیا۔ بعض سنیما گھروں میں بھی اسے براہ راست دکھانے کا انتظام کیا گیا تھا جبکہ ہندو تنظیموں نے مختلف مقامات پر بڑی بڑی اسکرینیں بھی آویزاں کی تھیں۔
مرکزی حکومت نے تمام سرکاری دفاتر اور محکموں میں آدھے دن کی چھٹی کا اعلان کر رکھا تھا، بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں اس اعلان پرمکمل عمل کیا گیا۔ اترپردیش اور دہلی کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں آج چھٹی تھی۔
نو تعمیر شدہ رام مندرمیں ہندوؤں میں بھگوان کا درجہ رکھنے والے رام کی مورتی میں روح پھونکنے یعنی ’پران پرتشٹھا‘ کی رسم ادا کی گئی حالانکہ ہندوؤں میں انتہائی اعلیٰ ترین مذہبی حیثیت رکھنے والے چار شنکر آچاریاوں نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ابھی مندر پوری طرح مکمل نہیں ہوا ہے اس لیے اس صورت حال میں مورتی میں روح پھونکنے کا عمل درست نہیں۔
سیاہ پتھروں سے تراش کر تیار کی گئی اکیاون انچ کی مورتی میسور کے سنگ تراش ارون یوگی راج نے تیار کی ہے، جسے مندر کے ’گربھ گرہ‘ میں رکھا گیا ہے۔ اس مورتی میں رام ایک پانچ سالہ بچے کے طور پر دکھائے گئے ہیں۔
رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ملک بھر میں ہندوؤں میں انتہائی جوش و خروش نظر آیا۔ اس موقع کی مناسبت سے وزیر اعظم کی اپیل پر ملک بھر کے مندروں میں تقریباً تمام مندروں کو سجایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیو ں اور ہندو محلوں میں بھی مذہبی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔
ہندو شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد نے بھی آج دنیا کے مختلف ملکوں میں تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔
رام مندر کی افتتاحی تقریب کے موقع پرایودھیا میں سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ مندر اور اس کے اطراف میں دس ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے تھے۔ یونیفارم اور سادہ لباس میں پولیس اہلکار بھی لوگوں کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھے رہے۔
شہر کے تمام چوراہوں اوراہم سڑکوں پرخاردار تاریں لگا کر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔
کیمیاوی، حیاتیاتی، تابکاری اورجوہری حملوں سے مقابلہ کرنے نیز سیلاب اور زلزلے جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بھی انتہائی تربیت یافتہ این ڈی آرایف کی متعدد ٹیمیں بھی تعینات کی گئی تھیں۔ اہم مقامات اورعمارتوں کی چھتوں پربھی سکیورٹی اہلکار تعینا ت کیے گئے تھے۔
رام مندر ٹرسٹ نے اس تاریخی موقع پر ملک بھر سے تقریباً آٹھ ہزار افراد کو مدعو کیا تھا۔ ان میں 506 کو انتہائی اہم شخصیات کے زمرے میں رکھا گیا۔ اس فہرست میں بالی وڈ اداکار امیتابھ بچن، سابق کرکٹر سچن تندولکر اور معروف صنعت کار مکیش امبانی اور گوتم اڈانی شامل ہیں۔
ان اہم شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا ہے جو رام مندر کی تحریک سے وابستہ رہیں۔ بالی وڈ اداکار انوپم کھیر، رن دیپ ہوڈا، مادھوری دکشت، ہیما مالنی، رنبیرکپور، عالیہ بھٹ، کترینہ کیف، کنگنا رناوت وغیرہ بھی اس افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے۔ متعدد فلم ہدایت کاروں اور پروڈویوسرز کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
جن کرکٹروں کو مدعو کیا گیا تھا ان میں کپل دیو، سنیل گواسکر، مہندر سنگھ دھونی، سوربھ گنگولی، راہل دراوڑ، وریندر سہواگ شامل ہیں۔رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے تمام پانچوں ججوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ متعدد سائنس دانوں، سابق سفارت کاروں، دانش وروں کو بھی دعوت دی گئی ہے۔
اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ کانگریس پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ تقریب "بی جے پی اور آرایس ایس کا پروگرام” ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سن 2019 میں اپنے تاریخی فیصلے میں منہدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
ہندو فریق کا دعویٰ تھا کہ مسجد کی جگہ ہی رام پیدا ہوئے تھے اور وہاں پہلے کبھی مندر تھا۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں مسجد کی جگہ کسی مندر کی موجودگی کو مسترد کردیا تھا۔ اس نے سولہویں صدی میں تعمیر بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992 کو منہدم کردینے کا بھی اعتراف کیا تھا۔ اس کے باوجود ملک کے اکثریتی ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے وہاں مندر بنانے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا گیا تھا تاہم مسلم فریق نے اپنے وعدے کے مطابق عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا۔سپریم کورٹ نے رام مندر سے کوئی پچیس کلومیٹر دور دھنی پور گاؤں میں مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے پانچ ایکڑ زمین الاٹ کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ فی الحال مسجد کی تعمیر کے آغاز کا کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔

 

Comments are closed.