یومِ جمہوریہ: پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے

ڈاکٹر سلیم خان
یومِ جمہوریہ کے موقع پر عزت مآب دروپدی مرمو کا خطاب توجہ کا مستحق ہے اور اس کا تجزیہ ہونا چاہیے۔ اپنی تقریر کے شروع میں مبارکبا دپیش کرنے کے بعد انہوں نے کہا ’’ جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کہ نامساعد حالات کے باوجود ہم نے کتنا طویل سفر طے کیا ہے، تو میرا دل فخر سے بھر جاتا ہے‘‘۔ یہ فخر اگر گزشتہ دس سالوں کی کامیابیوں پر جتایا جاتا تو یقیناً اس سے مودی بھگت خوشی سے پھولے نہیں سماتے مگر انہوں نے اسے 75 سال تک پھیلا کر بی جے پی کے اس دعویٰ کی تردید کردی کہ کانگریس اور دیگر جماعتوں نے ملک کو سوائے تباہی و بربادی کے کچھ نہیں دیا ۔ ملک کے اندر مودی کی آمد کے بعد ہی سنہری دور کا آغاز ہوا ہے۔صدر مملکت کے بقول:’ ’ہم بھارت کے لوگ یہ الفاظ آئین کے بنیادی نظریہ یعنی جمہوریت کو واضح کرتے ہیں لیکن کل یگ کے رام راجیہ میں اقلیتیں تو کجا چند نام نہا د اونچی ذاتوں کے علاوہ کسی کو بھارت کا باشندہ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔دروپدی مرمو نے بھارت کو ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کہا مگروطن عزیز میں گوا کے اندر ایک ایسی ماں بھی سامنے آچکی ہے جو خود اپنی ہی اولاد کو قتل کرنے میں پس و پیش نہیں کرتی بعید نہیں موجودہ سیاسی قیادت اس مادرجمہوریت کو ویسی ہی ماں نہ بنادے ۔
صدرِ مملکت نے یاد دلایا کہ :’’ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے بعد ہمارا ملک 15 اگست 1947 کو غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوا‘‘ لیکن افسوس کہ موجودہ حکمرانوں کا سنگھ پریوار نہ صرف اس جدوجہد سے گریزاں رہا بلکہ بلا واسطہ انگریزی سامراج کا آلۂ کار بنا ہوا تھا ۔ یوم جمہوریہ کے خطاب میں صفر دروپدی مرمو نے آزادی کے فوراً بعدملک میں اچھی حکمرانی اوراہل وطن کی فطری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مناسب بنیادی اصولوں اور طریقہ کار کی خاطر دستور ہند کے تشکیل کو یاد کیا۔آئین ہند کی تشکیل پر خوش ہونے والی صدر مملکت کو معلوم ہونا چاہیے کہ فی الحال بڑے زور و شور کے ساتھ اسے منو سمرتی سے بدلنے کی علی الاعلان کوشش ہورہی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ملک کے سبھی شہریوں سےآئین میں درج اپنے تمام بنیادی فرائض پر عمل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے سو سال مکمل ہونے تک بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی سمت میں اپنا کردار ادا کرنا ہرشہری کی ذمہ داری ہے۔
موجودہ حکمراں عام لوگوں کو تو ذمہ داری اداکرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ پردھان منتری اپنے فرائض منصبی کو فراموش کرکے دن رات پرچار منتری کا رول نبھانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔ کاش کہ صدر مملکت ان کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کروا کر اس کی جانب متوجہ کرتیں ۔ محترمہ دروپدی مرمو نے اس سلسلے میں گاندھی جی کاحوالہ دے کر کہا صرف اپنے اختیارات پر نظر رکھنے والے عوام ترقی نہیں کرسکتے، ترقی توصرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو مذہبی فريضہ سمجھ کر انجام دیا ہولیکن فی الحال کیمرے کے سامنے مندر مندر گھومنا ہی واحد مذہبی ذمہ داری بن کر رہ گئی ہے۔ عوام دن رات ذرائع ابلاغ میں اپنے چہیتے رہنما کو کرم کانڈ کے علاوہ صرف انتخابی تقریریں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ فی الحال راج دھرم (یعنی راجہ کا دھرم ) اقتدار میں آنا اور اسے کسی بھی طرح باقی رکھنے سے آگے نہیں جاتا۔اس مقصد کے لیے وہ سارے جائز و ناجائز حربے مندرجہ ذیل شعر کی ماننداختیار کیے جاتےہیں
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن
یوم جمہوریہ کے موقع پر آئین ساز ڈاکٹر امبیڈکر کے حوالے سے صدر مملکت نے مساوات پر مبنی نظام انصاف اور آزادی کے ماحول پر زو ر دیا ۔ ان اقدار اور اصولوں کی جامعیت کو ہندوستانی تہذیب کی بنیاد بتایا لیکن موجودہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں اس کا جنازہ اٹھایا جاچکا ہے۔اس حوالے سے تفریق کو ختم کرنے کے لیے سماجی انصاف کے راستے پر ثابت قدمی تلقین کرنے کے بعد صدر مملکت نے کرپوری ٹھاکر کو صدسالہ یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا تو نہیں مگر حال میں کرپوری ٹھاکر جیسے نظریاتی مخالف کو مرکزی حکومت نے بعد از مرگ بھارت رتن کا اعزاز دے کر ان کے ہمنواوں خاص طور نتیش کمار پر ڈورے ڈالنے کی ایک کوشش کی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رام مندر کے افتتاح بھی بی جے پی میں کامیابی کا اعتماد پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس لیے پسماندہ طبقات کو لبھانے کی خاطر یہ کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ کرپوری ٹھاکر کی آڑ میں حکمراں طبقہ ذات پات کی بنیاد پر ہونے والی ناانصافی کے خلاف سب سے طاقتور آر جے ڈی اور جے ڈی یو اتحاد کو توڑ نے میں لگا ہوا ہے۔
کرپوری ٹھاکر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بعدمحترمہ دروپدی مرمو اس موضوع پر آگئیں جس کی خاطر ہندو رسوم و رواج کو طاق پر رکھ کرہزار مخالفت کے باوجود آدھے ادھورے مندر کا افتتاح کردیا گیا۔ انہوں نے فرمایا :’اس ہفتے کے شروع میں ہم سب نے ایودھیا میں پربھو شری رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیے گئے عالی شان مندر میں پران پرتشٹھا کی تاریخی تقریب کامشاہدہ کیا۔مستقبل میں جب اس واقعے کو وسیع تر تناظر میں دیکھ کر مؤرخ بھارت کی ثقافتی وراثت کی تلاش کرتے ہوئے اس کا ذکر ایک عہدساز تقریب کے طورپر کرے گا‘‘۔ گودی مؤرخ تو یقیناً وہی لکھے گا جو مودی نے کہا مگر غیر جانبدار اور باضمیر دانشور کو تو یہ بھی لکھنا پڑے گا کہ کس طرح دو شنکر اچاریہ نے کھل کر اس کی مخالفت کی باقی دو بھی اس میں شرکت کے لیے نہیں گئے۔ ہندو مہا سبھا نے بھی اس جلد بازی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مودی جی کی خودنمائی رام مندر تحریک میں حصہ لینے والوں کی راہ میں حائل ہوگئی ۔ وزیر داخلہ، وزیر دفاع اورصدر مملکت سمیت سبھی کو نام نہاد تاریخی تقریب میں حاضر رہنے سے روک دیا گیا۔
محترمہ دروپدی مرمو نے رام مندر کی تعمیر کو مناسب عدالتی کارروائیوں سے جوڑ کر کہا کہ اور ملک کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ہی مندر کی تعمیر کا کام شروع ہواجس نے اب یہ ایک خوبصورت مندر کی شکل اختیار کرلی ہےیہاں پر عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے اس تفصیل کا حوالہ لازمی ہے کہ بابری مسجد کو کسی مندر کی مسماری کے بعد تعمیر نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ مسجد میں چوری چھپے مورتی رکھ کر اس کےازخود ظاہر ہونے کا جھوٹ پھیلایا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کو مجرم قرار دے کر سزا دینے کی سفارش کی مگر نچلی عدالت نے ان سب کو بری کردیا ۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین مسلمانوں کے حوالے کرنے بجائے ہندو فریق کو دے کر تاریخی ناانصافی کاا رتکاب کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر کسی جج نے دستخط کرنے کی جرأت نہیں کی ۔ مسلم فریق کی اس حق تلفی کے بعد صدر مملکت کا یہ دعویٰ کھوکھلا محسوس ہوتا ہے کہ :’ رام مندر نہ صرف ہرفرد کی عقیدت کا اظہا رہے بلکہ عدلیہ پر اپنے ملک کےشہریوں کے اٹوٹ یقین کا بین ثبوت بھی ہے‘‘۔ اس مؤرخ کو یہ لکھنا پڑے گا کہ مذکورہ فیصلہ حقائق کی نہیں عقائد بنیاد پر دباو میں آکر انعام و اکرام سے نوازے جانے کے لیے کیا گیا تھا۔
عزت مآب درو پدی مرمو نے بڑے فخر سے کھلاڑیوں کے بین الاقوامی سطح پر بھارت کا سرفخر سے اونچا کرنے کا ذکر تو کیا مگر حکومت کی جانب سے عالمی شہرت یافتہ خاتون پہلوانوں پر ظلم اوراس پر خواتین کے فلاح وبہبود کی وزیر سمرتی ایرانی کی خاموشی پر ان کی مذمت نہیں کی ۔ نوجوان نسل کے عزائم سے متعلق صدرِ مملکت نے فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں سبھی کو برابر کے مواقع میسر ہوں۔وہ مساوات سے منسلک پرانے الفاظ کے جال میں پھنسنے کے بجائے برابری کے گراں قدر اقدار کی حقیقی شکل دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ :’’ ہمارے نوجوانوں کی خود اعتماد ی کی بنیاد پر ہی مستقبل کے بھارت کی تعمیر ہورہی ہے‘‘۔ویسے یہ بھی سچ ہے کہ نوجوان نسل کو بے تحاشہ بیروزگاری نے بے چین کررکھا ہے۔ صدر مملکت کے خوابوں کا غبارہ پھوڑنے کے لیے یہ ایک خبر کافی ہےکہ مایوسی کا شکار ہمارے نوجوان اپنی جان جوکھم میں ڈال کر جنگ زدہ اسرائیل میں مزدوری کرنے کے لیے جانے پر راضی ہوگئے ہیں ۔ جند میں روہتاش سنگھ نام کا جوان کہتا ہے کہ یہاں بھوکے مرنے سے اسرائیل جاکر جان گنوانا بہتر ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کا شور مچا کر رام راجیہ کا اعلان کرنے والوں کو یہ جان کر شرم آنی چاہیے کہ ایک جانب لاکھوں یہودی اپنی جان بچانے کی خاطر اسرائیل چھوڑ کر یوروپ اور امریکہ کی جانب کوچ کررہے ہیں دوسری طرف ہمارے نوجوان اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان کی خدمت کے لیے جانے پر مجبورہیں بقول شاعر؎
میں خون بیچ کے روٹی خرید لایا ہوں امیر شہر بتا یہ حلال ہے کہ نہیں
Comments are closed.