ملک کو ایک ہی’رنگ میں رنگنے‘ کی سازش کامیاب!

جاوید جمال الدین
ملک میں 22جنوری کے موقع پر جس طرح کا جس طرح کا جوش و خروش ایک مخصوص نظریہ کے ذریعہ بھرنے کی کوشش کی گئی اور سارے ملک کو 75 ویں یوم جمہوریہ پر ایک ہی رنگ میں رنگنے کی جو سازش ر چی گئی ،اگر جائزہ لیا جائے تو ان عناصر کو ایک حد تک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔اجودھیا میں رام مندر پران پریستھا کے ذریعے جو ماحول بنایا گیا،اس سے واضح ہوچکاہے کہ ایک بار پھر وطن عزیز کوایک مخصوص سمت میں لے جانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے اور اس کا واحد مقصد صرف اور صرف لوک سبھا انتخابات میں مسلسل کامیاب ہوکر ہٹ ٹریک بنانا ہے۔
چند روز قبل ایک سیاست سے معمولی طور پربلد عام سے آدمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ "رام مندر کے افتتاح پر جگہ جگہ گلی محلوں میں لگائے جانے والے بھگوا جھنڈے یوم جمہوریہ 26 جنوری اور بعد میں بھی نظرآئیں گے اور ترنگے پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے اور دیر ودر ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ملکی اور عالمی سطح پر کئی جائزہ رپورٹیں پیش کی چکی ہیں۔جوکہ تشویش میں اضافہ کرتی ہیں۔
حال میں برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کا ایک سنگین جائزہ سامنے آیا ہے،جس نے اقلیتی فرقے کی تشویش میں مزید اضافہ کیاہے۔اس میں اس بات کااظہار کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت میں انتہا پسند اقدامات نے ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کردی اور رام مندر کے افتتاح سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اجودھیا نہ صرف ہندو بلکہ مسلم تہذیب اور ثقافت کا بھی اہم مرکز ہے، اجودھیا میں جگہ جگہ مساجد، مقبرے، درگاہیں اور قدیم قبریں ہیں ۔اس شہر میں مسلمانوں کی صدیوں سے آبادی اس بات کا ثبوت ہے۔سرکاری ریکارڈ کے حوالے سے انکشاف کیا گیاہے کہ اجودھیا میں 55 مساجد، 22 قبرستان، 22 مزارات اور 11 امام بارگاہیں موجود ہیں، لیکن رام مندر کی تعمیر کے ساتھ اب یہاں سے مسلمانوں کے نشانات مٹانے کی کوششیں بڑھ چکی ہیں۔
ملک میں ویسے کئی ریاستوں میں یہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،آسام،ایم پی،ہماچل پردیش، اتراکھنڈ،بہار میں اتر پردیش کے بعد مسلمان مخالف سرگرمیوں میں سب سے زیاد اضافہ ہوا ہے۔آسام،ہماچل اور یوپی کے وزرائے اعلیٰ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے باز نہیں آتے ہیں،اور انہیں اس بات کاکوئی احساس نہیں ہوتاہے کہ عہدہ اور رازداری کاحلف لیتے ہوئے انہوں نے غیر جانبداری اور مساوات کرنے کی قسم کھائی تھی۔آسام کے وزیراعلی سرماتو بے لگام سے نظرآرہے ہیں،وہ کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی یاتراسے اتنے بوکھلائے ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ دشمنی دکھا رہے ہیں اور ذاتیات پر اترنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ والے علاقے سے گزرتی دکھائی دے رہی ہے۔دراصل آسام کے وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما نے اسے ذاتی طور پر کیوں لیا ہے۔
ہاں بات رام مندر کے افتتاح اور فرقہ وارانہ صورتحال پر کررہے تھے،اجودھیا وقف بورڈ کے صدر محمد اعظم قادری کا کہنا ہے کہ رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انتہا پسند ہندو مافیا کی نگاہیں مسلمانوں کے قبرستانوں پر لگی ہوئی ہیں، مسلمانوں کے کئی قبرستانوں اور وقف کی جائیدادوں پر قبضہ مافیا ہندو تسلط جما چکے ہیں۔لیکن عام طورپرخیال کیا جارہا کہ ہندوؤں کے تیرتھ استھان اور مقدس شہروں میں تو گزشتہ ایک عشرے سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، مغربی یوپی کے کئی شہروں میں مذبح بند کرنے اور گوشت،چکن اور انڈے تک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ،اور حدیں مقرر کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو بے روزگار کردیاگیاہے۔متھرا جیسے شہر میں ایسے علاقوں کوہی نشانہ بنایا گیا,جہاں مسلمان بڑی تعداد میں رہائش پذیرہیں،یہاں کرشن جنم بھومی کے دائرے میں نان ویج کےاستعمال اور خریدوفروخت کوبند کروادیاگیاہے جبکہ مچھلی مارکیٹ بھی بند ہیں۔ہوٹلوں کو دال سبزی فروخت کرنے پرجبرا مجبور کیاگیاہے۔یوپی کے بڑے چھوٹے شہروں میں قدیم مساجد، قبرستان ،مزارات اور مقبرے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں،جن کا حوالہ دے کر مولانا آزاد نے مسلمانوں کی ہجرت رکوانے کی کوشش کی تھی اور جامع مسجد سے ایک یادگار خطبہ دیاتھا۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ کاایک بڑا طبقہ ملک کے موجودہ حالات کو نظر انداز کررہا ہے اور اس کی چشم پوشی حالات کو مزید بدتر کررہی ہے۔لیکن عالمی ذرائع مودی دور کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فکر لاحق ہے ۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رام مندر کی مزید توسیع کا امکان ہے اور اس کی زد میں مسلمانوں کے بہت سے قبرستان اور مقبرے آ سکتے ہیں، متنازعہ رام مندر کی تعمیر میں مذہبی قوم پرستی کی نئی بنیاد رکھتے ہوئے ہندوستان کی سیاست کا منظر نامہ بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بہانے مسلمانوں کی زمینوں اور قبرستان پر تیزی سے قبضہ کیا جا رہا ہے، اجودھیا میں طرح طرح کے بہانے گڑھ کر مسلمانوں کو روزگار سے بھی محروم کردیاگیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر پہلے بھی ظلم جاری نہیں ہوتے تھے،لیکن سچائی یہ ہے کہ مودی حکومت کے آنے کے بعدمظالم نے درندگی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔عام طورپر بی جے پی جو دنیا بھر میں سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے اس کی اصل شکل یہ ہے کہ سوائے ہندوؤں کے ہندوستان میں کوئی بھی مذہب محفوظ نہیں۔کیونکہ 22جنوری کو ممبئی کے قرب وجوار میں مسلمان ہی نہیں بلکہ وسئی علاقہ میں چرچ پر بھی بھگوا جھنڈے لہرائے گئے اور قابل اعتراض نعرے بھی لگائے گئے۔
ملک کی اقلیتوں کو طرح طرح کے حربوں سے تنگ کیا جارہا ہے،ملک میں عیسائی 28 ملین اورسکھ 20 ملین بتائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ کوئی 20 کروڑ مسلمان ہیں اور مودی ہمیشہ 140، کروڑ ہندوستانیوں کی ترقی کی باتیں کرتے ہیں،لیکن جائزہ لیں تو عام طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آتاہے۔
ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم ہندوز فار ہیومن رائٹس نے تشویش ظاہر کی ہے کہ مودی کی پارٹی ہو سکتا ہے کہ “ہندو ازم” کو سیاسی اور انتخابی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہوچنانچہ سیاسی مقاصد کے لیے اس تقریب کی قیادت کرنا تیکنیکی اور اخلاقی دونوں طرح سے غلط ہے۔ویسے ایک بڑا طبقہ یا سیاسی پنڈت دعویٰ کرتے ہیں کہ بی جے پی کو مندر کے نام پر ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اسے اس کے ترقیاتی کاموں پر ووٹ ملتے ہیں۔جبکہ اجودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ مذہبی اور ثقافتی معاملہ ہے اور پھر رام مندر کی تعمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں کو نئی رفتار ملے گی۔ سیاحت اور تجارت کا فروغ ہو گا۔یہ عجیب وغریب صورتحال ہے اور اس مصنوعی ماحول میں سپریم کورٹ کے چند فیصلوں سے اُمید بر آئی ہے،خصوصی طورپر گجرات میں بلقیس بانو اجتماعی آبروریزی کے مجرمین کو دوبارہ جیل بھیجے جانے کا سپریم کورٹ کافیصلہ ایک حد تک ناامیدی کو ختم کرتا ہے۔لیکن یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ملک کو ایک ہی’ رنگ میں رنگنے’ کی سازش کامیابی کی طرف رواں دواں ہیں۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.