ورلڈ اکنامک فورم میں چیف منسٹر تلنگانہ کی کامیاب مساعی

 

از : ناظم الدین فاروقی

سینئر مبصر

       ورلڈ اکنامک فورمWEF کا اجلاس ہر سال جنوری میں ڈیوسسوئزر لینڈ میں منعقد کیا جاتا ہے ۔ دنیا کے ممتاز سرمایہ داروں کے لئے اس فورم کا آغاز پہلی مرتبہ 24 جنوری1971 میں ہوا تھا۔ اس سال15 تا 19 جنوری 24 منعقد ہوا۔ ارجنٹینا کے صدر ذاوئیر میلل ( Javier Milei )سکریٹری آف ایسٹ امریکہ انتونی بلنکن(Antony Blinken)  کے علاوہ J.P Morgan کے صدر Daniel Pinto اور Schneider Electric  ‘Louis Dreyfus ‘  Berkshire Hathaway کے علاوہ GreenCo Energy Project کے سربراہوں نے شرکت کی۔

       ارجنٹینا کے صدر   Javier Mileiتوجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ 60 سے زیادہ مندوبین نے ان سے ملاقات کے لئے درج رجسٹر کر وایا تھا ۔ ملاوی ملل کااپنانظریہ ہے کہ شوشلزم غربت کو پروان چڑھاتا ہے ۔ شوشلسٹ نظریات سے بھی قوم کو غربت سے آزادی دلانے میں ہمیشہ ناکام رہے ۔اسی لئے ان کو Anarcho-capitalists ‘انتہا پسند سرمایہ دارانہ نظام کے ترجمان کے طور پر جانا جاتا ہے ۔J.P Morgan کے صدر Daniel Pinto نے اپنی تقریر میں کہا کہ قومی مالیاتی انتظامیہ میں جس طرح بڑے سرمایہ کاری کے پروجکٹ پر توجہ دی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ ہم امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر حلیرہ کے ذریعہ حاصل ہونے والی چھوٹی بچتوں والی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے آگے آئیں۔سرمایہ کی منفعت کو عوامی ضروریات کے مطابق ایسا نظام ترتیب دینے کی کوشش کریں جو سب کے لئے فائدہ مند ہو۔

       ڈیوس کے ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کی فیس اور دیگر اخراجات کافی مہنگیں ہیں  ۔شرکت کی فی نمائندہ فیس پانچ دن کے لئے 25 لاکھ روپے ہے اور قیام و طعام کےیومیہ اخراجات 2,500 ڈالر ہیں۔ اس طرح 5 دن میں شرکت کے لئے ایک نمائندہ کو تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کے اخراجات عائد ہو تے ہیں۔

        یہاں دنیا کے ممتاز سرمایہ کار اور بڑی بڑی کمپنیاں اور ان کے نمائندے شرکت کرتے ہیں یہ کمپنیاں  اپنے اپنے ملک اور ریاستوں میں بڑے ترقیاتی پروجکٹ کے لئے سرمایہ کاروں کو راغب کرتے ہیں۔ ڈیوس کے ورلڈ اکنامک فورم کے اس اجلاس میں شرکت سے خاطرخواہ فائدہ ہندوستان کے تین ریاستوں نے اٹھایا ۔ مہاراشٹرا ‘ کرناٹک اور تلنگانہ ۔

ریزروبینک گورنر شکتی کنٹا داس (Shri Shaktikanta Das) نے ہندوستان کی سالانہ شرح ترقی 7% پر روشنی ڈالی ۔ امریکی وزیر خارجہ نتونی بلنکن نے ہندوستان کی تیز رفتار ترقی کی تعریف کی اور کہا کہ ہندوستان مثالی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔سرمایہ کار یہاں سے بہت فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

       مہاراشٹرا نے کئی بڑ ی سرمایہ کار کمپنیوں کے ساتھ تقریباً ایک ٹریلین 500  کروڑ کے یادداشت مفاہمت پر دستخط کئے ‘ کرناٹک نے 24 ہزار کروڑ اور تلنگانہ نے تقریباً 36 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کے معاہدات پر دستخط کئے ۔

       اڈانی گروپ تلنگانہ میں ڈاٹا سنٹر ‘ کلین انرجی میں 72400 کروڑ کی سرمایہ کاری کرے گا ۔اڈانی گروپ آئندہ 10 سالوں میں مہاراشٹرا میں 1.G.W کا ڈاٹا سنٹر قائم کرے گا۔ اسی  طرحJSW New Energy نے 9000 ہزارکروڑ کے سرمایہ سے ڈاٹا سنٹر قائم کرنے کا ایک معاہدہ کیا ہے ۔

       لولو گروپ نے ضلع وجئے پورا ‘ کرناٹک میں 300 کروڑ کے سرمایہ سے فوڈ پروسیسنگ پلانٹ کی  تنصیب کا معاہدہ کیا۔

       ورلڈ اکنامک فورم میں سرمایہ کاری کے علاوہ دنیا کی سیاسی جغرافیائی صورتحال اور مختلف طبقات و اقوام کو درپیش چیالنجس پر بھی قائدین نے اظہار خیال کیا ۔ غزہ و اسرائیل کی جنگ پر اور اس کے علاوہ باب مندب پر حوثیوں کے حملوں سے بین الاقوامی جہاز رانی کے کمپنیوں کو درپیش مسائل پر اور عالمی اَمن اور موسمیات کی تبدیلی‘ خواتین کی معاشی آزادی اور انہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی جد وجہد میں خواتین کی عدم شمولیت اور عدم مساوات کی وجہ دنیا سالانہ 7 ٹریلین ڈالر کا نقصان اُٹھا رہی ہے۔

       دوبئی میں منعقد عالمی COP-28 کانفرنس میں 85 ہزار مندوبین نے شرکت کی تھی جبکہ

 WEF-24 ڈیوس میں 3 تا 5 ہزار شرکاء نے شرکت کی ۔ دوسرے عالمی کانفرنسوں کے مقابلہ میں اس کانفرنس میں تعداد بہت کم ہوا کرتی ہے۔ سنجیدہ سربراہان مملکت اور نمائندے شرکت کر تے ہیں اس سے ہمیشہ شرکت بہت کم و محدود ہوتی ہے ۔

       WEFکانفرنس میں سرمایہ کاروں کو اگر متاثراور راضی  کر لیا جائے تو ریاست اور ملک کا بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے ۔اس طرح یقینا کانفرنس کمزور جھوٹے ممالک کے لئے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے ۔ جہاں سرمایہ کاری کے بعد سرمایہ کے تحفظ اور نفع ROI کی کوئی توقع نہ ہو تو وہاں کوئی بھی دنیا کی ہر بڑی سے بڑی کمپنی سرمایہ کاری سے اجتناب کرتی ہے ۔ جیسے ویتنام ‘ لاو ئس یا افریقی ممالک میں یہاں بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے کوئی ایسی مارکٹ نہیں ہے اس کے علاوہ قانونی رعایتیں اور حکومتوں کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے سرمایہ کارکمپنیاں دوری اختیار کر لیتی ہیں۔

       ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022-23 کے دوران ہندوستان میں سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) شرح تناسب حاصل کرنے والوں میں سر فہرست شعبے جن میں فینانس ‘ بینکنگ‘ انشورنس‘ آوٹ سورسنگ‘ آر  اینڈ  ڈی ‘ کورئیر‘ جانچ اور تجزیہ قابل ذکر ہیں۔ دیگر شعبہ جات میں جیسے کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر (15%) ‘ ٹریڈنگ (6%)‘ ٹیلی کمیونیکیشنس(%6)اور آٹو موبائل انڈسٹری (%5) ہیں۔

       اور اگر ریاستی سطحوں پر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ FDI شرح تناسب حاصل کرنے والے میں5 ریاستیں شامل ہیں ان میں سرفہرست مہاراشٹرا کی شرح (29%) ‘ کرناٹک کی (24%) ‘ گجرات کی (17%) ‘ دہلی کی (%13) اور اسی طرح ٹامل ناڈو کی (5%) ہیں۔

       عالمی سطح پر بیرونی سرمایہ کاری FDI میں تقریباً %12  کی گراوٹ آئی ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں FDI کا متناسب 37% تک گھٹ گیا ہے ۔ امریکہ میں دنیا کے مختلف ممالک کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری 285 بلین اور چین میں189 بلین ‘ جبکہ ہندوستان میں 49 بلین کی ہوئی ہے۔

ہندوستان میں Ratio to GDP کے اعتبار سے% 14.7 ہے ۔2021 اور 2022 میں سرمایہ کاری 82 اور84 بلین تک پہنچ چکی تھی لیکن 2023 میں تقریباً 15 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری واپس چلی گئی ۔ اور 46.0 بلین ڈالر ہی سال گذشتہ بطور سرمایہ کاری کے ہندوستان کو وصول ہو سکے۔اس جملہFDI میں امریکن کمپنیوں میں Google+Meto ‘Walmartکے 16 بلین Amazonکے 2014 کے دو بلین ‘ Foxconn کے 600 بلین ڈالر شامل ہیں۔

       صنعتی پیداوار ‘ خدمات ‘ قانونی رعایتیں ‘ فنی تجربہ کار ملازمین کی دستیابی ‘ منتجات و مصنوعات کی طلب و نکاسی ‘ صنعتی تجارتی سرمایہ و نفع کے آپسی جھگڑوں کی صلح و صفائی یا انصاف کے حصول کے لئے مضبوط  عدلیہ کا نظام اور در آمدات و برآمدات کا نٹ ورک ضروری ہے ۔

       امریکہ یورپ کی کمپنیاں ابتداء میں ہندوستان میں اپنے قدم جماتے وقت اپنے ساتھ قانونی مشاورتی طاقتور کمپنیوں کو بھی لیے آئیں۔ سرمایہ کاروں کے سرمایہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ان کی خدمات لی جاتیں ہیں۔ 90 اور 2000 کے دہے میں ہندوستان میں سرمایہ کاری ‘خطرات و خدشات سے پُرتھی بلکہ کئی بیرونی کمپنیوں کو جعلسازی ‘ دھوکہ دہی ‘فراڈ اور بے جا مقدمہ بازی کی وجوہات کی بنا پرشدید نقصانات اٹھانے پڑتے تھے ۔ ہمارے ملک میں تجارتی قوانین میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی وجہ سے بیرونی و بین الاقوامی سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کو اولین توجہ دے رہے ہیں۔

       عالمی ماہرین اقتصادیات کے مطابق 2040 تک ہندوستان کی معیشت 35 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی ۔ ہندوستان کی معیشت چین کے بعد سب سے بڑی عظیم معیشت بننے کی اپنے اندر پوری صلاحیت اور طاقت و اہلیت رکھتی ہے ۔ ملک کے پالیسی سازوں اور سیاست دانوں کی مالیاتی ‘ معاشی حکمت عملی اور طویل مدتی پلاننگ پر اس کا انحصار ہے۔عالمی اقتصادی طاقت بن کر دنیاپر چھا جانے کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

       اگر ملک فرقہ پرستی کے جنون و بھنور سے نہیں نکلا تو پھر ترقی کے بجائے زوال اور تباہی عوام کا مقدر بن سکتی ہے ۔شدید مذہبی منافرت ‘ فسادات اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا بڑی تشویش و حولناکی کے طور پر دیکھتی ہے ۔ ہندوستان کی حکمران سیاسی جماعتوں پر یہ عین ذمہ داری ہے کہ مذہبی جنون سے آزادی حاصل کر کے اپنی تمام تر طاقت معاشی‘ صنعتی ‘ تجارتی ترقی کی طرف توجہ مبذول کرے۔

Comments are closed.