بیجو باورا : تو ای ڈی کی چوٹ میں لالچ کی دھارا

ڈاکٹر سلیم خان
نتیش کمار کا ایک لقب پلٹو رام بھی ہے۔حالیہ چھٹے الٹ پلٹ کے بعدنتیش کمار کا امیت شاہ کے ساتھ ایک ویڈیو خوب گردش کررہا ہے۔تقریباً ایک سال قبل گاندھی جینتی کے موقع پر انہوں نے کہا تھا’ یہ اچھی طرح جان لیجیے کہ اب مرنا قبول ہے، لیکن ان (بی جے پی) کے ساتھ جانا قابل قبول نہیں ہے‘۔ اس کے ڈھائی ماہ بعد امیت شاہ نے اعلان کیا تھا کہ:’’ اگر کسی دل میں یہ شک ہو کہ انتخابی نتائج کے بعدنتیش بابو کو بی جےپی ، این ڈی اے میں لے گی تو میں واضح کردینا چاہتا ہوں ان کے لیے بی جے پی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوچکے ہیں‘‘۔ ان دونوں بیانات کو سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں بڑا جھوٹا کون ہے؟ ویسے پلٹو رام جملے بازی کا شہنشاہ کو مات نہیں دے سکتے۔ان کے باہم انحصار پر فلم بیجو باورا کا مشہورنغمہ من و عن صادق آتا ہے۔ شکیل بدایونی نے اس کی ابتدا یوں کی تھی ’ اکیلی مت جئیو رادھے جمنا کے تیر‘۔ یہ مصرع نتیش کمارکے لیے نہیں ہے کیونکہ وہ تو آر جے ڈی کے سہارے بھی تیر جاتے ہیں مگر بی جے پی کے اقتدار کی لٹیا ڈوب جاتی ہے۔
نتیش کے مقابلے بی جے پی زیادہ و محتاج ہے اسی لیے وہ بار بار تھوک کر چاٹ لیتی ہےاور اس کو کہنا پڑتا ہے:’’ تو گنگا کی موج میں جمنا کی دھارا ، ہورہے گا ملن ، یہ ہمارا تمہارا رہے گا ملن ، یہ ہمارا تمہارا‘۔ موج تو کبھی بی جے پی کے ساتھ تو کبھی آر جے ڈی کے ساتھ ہوجاتی ہے مگر جس کا ساتھ چھوڑتی ہے تو وہ اقتدار سے محروم ہوجاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ نغمہ معمولی ترمیم کے ساتھ اس رام ملائی جوڑی ، ایک اندھا اور ایک کوڑھی پر منطبق ہوجاتا ہے۔نتیش کہہ رہے ہیں ’تو ای ڈی کی چوٹ میں، لالچ کی دھارا ، ہورہے گا ملن ، ہمارا تمہارا رہے گا ملن ، یہ ہمارا تمہارا‘۔ آگے بھی یہ نغمہ موجودہ سیاسی صورتحال کا ترجمان ہے۔ بی جے پی نے جب صدا لگائی :’ اگر تو ہے ساگر تو منجدھار میں ہوں ، تیرے دل کی کشی کا پتوا ر میں ہوں، چلے گی اکیلے نہ تم سے یہ نیاّ ، ملے گی نہ منزل ، تمہیں بن کھیویاّ ، چلے آو جی ، چلے آو جی ، چلے آو موجوں کا لے کر سہارا ، ہورہے گا ملن ۔ یہ ہمارا تمہارا رہے گا ملن ، یہ ہمارا تمہارا‘ تو نتیش نے اس طرح لبیک کہا کہ :’’بھلا کیسے ٹوٹیں گے بندھن یہ دل کے ، بچھڑتی نہیں موج سے موج مل کے‘‘ لیکن اس بندھن کے پیچھے ای ڈی کی یہ دھمکی بھی ہے کہ :’’چھپوگے بھنور میں تو چھپنے نہ دیں گے ، ڈبو دیں گے نیاّ تمہیں ڈھونڈ لیں گے ‘‘ اس طرح ای ڈی کی خوف سے آر جے ڈی کی کشتی ڈبوکر کے ساتھ جے ڈی یو نےبی جے پی کا دامن تھام لیا ہے اور دونوں مل کر گا رہے ہیں:’’بنائیں گے ہم طوفاں کو لے کر کنارہ ، ہورہے گا ملن۰۰۰‘سیاست کی یہ بیجو باورہ پھر ایک بار رائے دہندگان کی تفریح کا سامان کررہی ہے ۔
نتیش کمار کے الٹ پھیر کی تاریخ خاصی دلچسپ ہے۔ اٹل جی اقتدار میں آئے تو کرپوری ٹھاکر ک یہ شاگردجارج فرنانڈیس کے ساتھ سماجوادی نظریات کی چتا جلاکر این ڈی اے میں شامل ہوگیا ۔ اپنے مرکزی وزیر ریلوے نتیش کمار کو واجپائی جی غیر آئینی طریقہ پر لالو کی جگہ پہلی بار مارچ 2000 میں بہار کے وزیر اعلیٰ بنایا لیکن اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں 7 دن کے اندر رسوا ہوکر استعفیٰ دینا پڑا۔ آگے چل کر اٹل جی تو انتخاب ہار گئے مگر نتیش بہا رکے اندر اقتدار میں لوٹ آئے۔ 2005 میں انہوں نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی اور پھر سے بہار کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لے لیا۔ 2013 تک یہ ساتھ چلا مگر جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کو لوک سبھا الیکشن کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا تو نتیش کمار نے اس کی مخالفت کی اور بی جے پی کے ساتھ 17 سال پرانا اتحاد ختم کر کے این ڈی اے سے الگ ہوگئے یہ ان کی پہلی پلٹی تھی۔ آر جے ڈی اور کانگریس نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور حکومت قائم دائم رہی۔
2015 کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس نے مل کر بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ نتیش کمار نے ’عظیم اتحاد‘ کی حکومت قائم کر کےتیجسوی یادو کو نائب وزیر اعلیٰ بنادیا لیکن یہ حکومت اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کر سکی۔ سال 2017 میں نتیش کمار نے عظیم اتحاد سے تعلقات توڑ لیے۔ نتیش کمار کے آستین میں دوکبوتر ہیں ۔ ان کو جب بی جے پی کا ساتھ چھوڑنا ہوتا ہے تو انہیں فرقہ واریت اور فسطائیت کا غم ستانے لگتا ہے ۔ نتیش کو جب بی جے پی کے ساتھ جانا ہوتا ہے تو وہ اقرباء پروری اور بدعنوانی کا راگ الاپنے لگتے ہیں ۔ ہوا یہ کہ بی جے پی مرکزی حکومت نے نتیش کو ڈرانے کی خاطر اس وقت بہار کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ اور آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو پر بدعنوانی کے الزامات لگادیئے۔ ایسے میں نتیش کمار سمجھ گئے کہ تیجسوی یادو کے بعد ان کی باری ہے اس لیے ضمیر کی آوازکا بہانہ بناکر انہوں نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیاجو ای ڈی دھمکی کا اثر تھا اسی لیے چند گھنٹوں کے اندر دوبارہ بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اقتدار کی تبدیلی کا سارا واقعہ 15 گھنٹے کے اندر ڈرامائی انداز میں ہوگیا۔
نتیش کمار نے 2017 سے 2022 تک این ڈی اے اتحاد کے تحت حکومت چلائی۔ اس دوران 2020 کے اسمبلی انتخابات جے ڈی یو اور بی جے پی نے ساتھ مل کر لڑا۔ اس الیکشن میں بی جے پی کوتو فائدہ ہوا مگر جے ڈی یو کو بڑا نقصان ہوگیا اور وہ 43 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آ گئی۔ اس طرح 74 سیٹوں والی بی جے پی نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ نتیش کمار کو سونپا مگر اپنے دو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر انہیں ذلیل کرنا شروع کردیا ۔ ان کو محسوس ہونے لگا کہ بہت جلد بی جے پی ان کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرکے کوڑے دان میں ڈال دے گی۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان سیاسی کشیدگی بڑھتے بڑھتے بامِ عروج پر پہنچ گئی تو 9 اگست 2022 کو نتیش کمار نے این ڈی اے اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔اس وقت جے ڈی یو نے بی جے پی پر پارٹی کو توڑنے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ نتیش کمار نے ایک بار پھر آر جے ڈی اور کانگریس سے ہاتھ ملایا۔ 10 اگست 2022 کو وہ ’ عظیم اتحاد‘ کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ ڈیڑھ سال بعد اب پھر امیت شاہ نے نتیش کمار کے سامنے احمد فراز کا مشہور شعر پڑھا تو ان کا دل پسیج گیا ۔ فراز نے کہا تھا ؎
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
نتیش کمار کا استعفیٰ اور حلف برداری کوئی نئی بات تو نہیں لیکن یہ صورتحال تھوڑی سے مختلف ضرور ہے۔ دو دن قبل انہوں نے کہاتھا کہ پارٹی ”مضبوطی سے انڈیااتحادکے ساتھ“ ہے لیکن چاہتی ہے کہ کانگریس اتحاد کے شراکت دار وں او رسیٹوں کی تقسیم میں ”خودشناسی“ کرے۔ریاستی جے ڈی (یو) صدر امیش سنگھ کشواہا نےان کی افواہوں کو مسترد کردیاتھا کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے میں واپس لوٹنے کی سوچ رہی ہے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ”بہار کے اقتدار‘‘ اور ”عظیم اتحاد“ میں سب ٹھیک ہے اور میڈیا قیاس آرائیاں مخصوص ایجنڈا کے تحت چلائی جارہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ دن کے اندر ایسا کیا ہوگیا کہ وہ اس انڈیا وفاق سے الگ ہوگئے جس کی داغ بیل خود انہوں نے ڈالی تھی اور جو بہت جلد پھل دینے لگا تھا ۔ بات یہ ہے اس بیچ نتیش کمار کو محسوس ہوگیا کہ یہ پھل ان کے ہاتھ نہیں لگے گا لیکن اس کی آبیاری ان کو جیل کی ہوا کھلا سکتی ہے اس لیے وہ پھر سے پلٹ گئے۔
موجودہ الٹ پھیر سے این ڈی اے کو زیادہ سے زیادہ ایک نشست کا فائدہ ہوگا کیونکہ پچھلی باروہ 39؍ نشستیں جیت چکا تھا ہاں ممکنہ نقصان کسی حد تک ٹل گیا اس لیے کہ اگر نتیش کمار انڈیا الائنس کے ساتھ انتخاب لڑتے ےو بی جے پی کی حالت پچھلی بار کی آر جے ڈی جیسی ہوجاتی جو صرف ایک نشست جیت سکی تھی۔ بی جے پی نے یہ محسوس کیا کہ پانچ کلو اناج سے لے کر مودی جی کا کرشمہ کچھ بھی عوام کو اس کی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا ہے۔ اس سے بی جے پی کا وہ پول بھی کھل گیا کہ رام مندر کی مدد سے اس نے انتخاب جیت لیا ہے ۔ اس دعویٰ میں کوئی سچائی ہوتی تو ناک رگڑ کر اپنے سے کمزور نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کی ضرورت نہیں پیش آتی ۔ رام مندر اگر بہار کو متاثر کرنے میں ناکام رہا تو ملک بھر میں کیا اثرات ڈالے گا؟ یہ سوال اہم ہے۔ بہار میں نتیش کمار کے بی جے پی کی گود میں جانے سے اہم اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان طے پاجانے والا نشستوں کا معاہدہ ہے۔ اس سے اترپردیش کی سیاست پر زیادہ دور رس اثرات ہوں گے۔ اس معاملے میں ممتا بنرجی کا بیان بھی قابلِ توجہ ہے کہ انڈیا کے نام پر نشستیں جیت کر این ڈی اے میں جانے والے نتیش کمار کا پہلے چلے جانا بہتر ہے۔ اس الٹ پھیر کے نتائج کا فیصلہ اب رائے دہندگان کریں گے۔
Comments are closed.