نتیش کمار بی جے پی کی مجبوری اور بی جے پی کی مجبوری نتیش کمار

 

تحریر : مظاہر حسین عماد قاسمی
بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے پانچویں بار پلٹی ماری ۔
پہلی پلٹی انہوں نے انیس سو چورانوے میں ماری جب انہوں نے لالو پرساد سے ناراض ہوکر نئی پارٹی سمتا پارٹی بنائی، مگر وہ ابھی زعفرانی رنگ میں نہیں رنگے تھے اس لیے ہم اس پلٹی کو اپنے گھر کی کشتی سمجھتے ہیں اور یہ پلٹی قابل مذمت نہیں ہے۔
انیس سو چھیانوے میں انہوں نے اپنے سماج واد کی دیوار پھلانگ دی اور سماج واد کی سب سے بڑی دشمن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد کر لیا، اس َسے نتیش کمار کا ذاتی فائدہ تو ہوا مگر ملک اور سماج کا بہت نقصان ہوا۔
نتیش کی یہ دوسری پلٹی اور اسی طرح کی چوتھی اور اب تک کی ان کی آخری اور چھٹی پلٹی ہی قابل مذمت ہے، ان کی تیسری اور پانچویں پلٹی اپنے آبائی گھر سماج واد کی طرف تھی۔
امید یہ تھی کہ ڈیڑھ سال قبل ہوئی ان کی پلٹی سماج واد کی طرف ہی ہوگی اور وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں نفرتی درندوں کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں ایک اہم رول ادا کرکے نیک نامی کے ساتھ امر ہوجائیں گے، مگر کل اٹھائیس جنوری دو ہزار چوبیس کو انہوں نے پھر فاشزم کے ساتھ ہاتھ ملا کر رنگ بدلنے کا ایک نیا ریکارڈ بنادیا۔
نتیش کمار کی پلٹیوں کی تاریخ کو میں نے چار اشعار میں نظم کیا ہے۔
ہرا ہونے سے مراد لالو پرساد کے ساتھ رہنا ہے، لالوجی کی پارٹی کے جھنڈے میں ہرا رنگ ہے اور زعفرانی ہونے سے مراد بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد کرنا ہے۔

نتیشی سیاست
عماد عاقب مظفر پوری

وہ ہرے تھے زعفرانی ہو گئے ،
زعفرانی سے ہرے پھر ہو گئے

پھر ہرے سے زعفرانی ہو گئے ،
زعفرانی سے ہر ے پھر ہو گئے

ذعفرانی رنگ پھر بھایا انہیں
پھر ہر ے سے زعفرانی ہو گئیے

کوئ کیا سمجھے انہیں عاقب میاں!
وہ ہیں انساں، یا کہ گرگٹ ہوگئے

بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ
نتیش کمار کی پلٹیوں کو سلسلہ وار بیان کرنے سے قبل ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی دادی اماں ہندو مہا سبھا کی پیدائش انیس سو پندرہ میں ہوئی تھی، اور ماتا جی بھارتیہ جن سنگھ کی ولادت انیس سو اکیاون میں ہوئی اور اسی جن سنگھ کو اس کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی(25/دسمبر 1924-16/اگست 2018) نےہندوستانی سوشلسٹوں کے دادا ابا جے پرکاش نارائن ( 11/اکتوبر 1902-8/اکتوبر 1977) کی اپیل پر انیس سو ستہتر کے لوک سبھا کے عام انتخابات سے قبل جنتا پارٹی میں ضم کر دیا تھا۔
جن سنگھ سے تعلق رکھنے والے اٹل بہاری واجپائی (25/دسمبر 1924-16/اگست 2018)مرکز کی پہلی غیر کانگریسی اور جنتا پارٹی کی مرارجی ڈیسائی سرکار میں وزیر خارجہ بنے تھے اور لال کرشن اڈوانی( پیدائش : 8/نومبر ،1927)وزیر اطلاعات و نشریات، جنتا پارٹی کی سرکار تین سال سے زیادہ نہ چل سکی، پارٹی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی، سولہ تا بیس مارچ انیس سو ستہتر میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے تھے، اس میں نئی پارٹی جنتا پارٹی کو دوسو پچانوے سیٹیں ملی تھی اور کانگریس کو صرف ایک سو چودہ، جنتا پارٹی میں پھوٹ کی وجہ سے انیس سو اسی میں لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات ہوئے، اور اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس دوبارہ بر سر اقتدار آگئی، کانگرس کو ایک سو ننانوے سیٹوں کا فائدہ ہوا اور اسے کل تین سو ترپن سیٹیں حاصل ہوئیں، جنتا پارٹی کا جنازہ نکل گیا اسے صرف اکتیس سیٹیں ملیں، اس سے نکلے ہوئے لوگوں کی نئی جماعت جنتا پارٹی سیکولر کو اکتالیس سیٹیں حاصل ہوئیں ، اس طرح جنتا پارٹی پریوار نے کل بہتر سیٹیں حاصل کیں، ایسے حالات میں جنتا پارٹی میں شامل جن سنگھیوں نے خود کو پھر سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بینر تلے متحد کیا، اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی چھ اپریل انیس سو اسی میں وجود میں آئی۔
رام کے سہارے کی ضرورت کیوں پڑی ؟
انیس سو چوراسی کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا کو لوک سبھا کی صرف دو نشستیں ملیں، ایک گجرات سے اور ایک آندھرا پردیش سے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے دونوں بڑے لیڈران واجپئی اور اڈوانی بھی کامیاب نہ ہوسکے، اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے رام مندر کا مسئلہ زور شور سے اٹھایا۔
رام مندر کے مسئلے اور دیگر کئی وجوہات کے سبب بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیٹیں دو سے بڑھ کر پچاسی ہوگئیں،جنتا دل کو ایک سو تینتالیس سیٹیں ملی تھیں، کانگریس ایک سو ستانوے نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی، مگر مزید پچھتر ارکان کی حمایت اسے نہ مل سکی جنتا دل نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اور کمیونسٹ پارٹیوں کی حمایت سے دو دسمبر انیس سو نوے کو سرکار بنائی اور اس کے وزیر اعظم وی پی سنگھ ( 25/جون 1931-27/نومبر 2008 ) مقرر ہوئے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوسرے بڑے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے بابری مسجد توڑکر رام مندر بنانے کے مقصد سے ( اصل مقصد ہندؤں کے جذبات کا استحصال کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار تک لانا تھا ) گجرات کے ہندؤں کے مقدس شہر سومناتھ سے رام رتھ یاترا نکالی، یہ یاترا پچیس اکتوبر انیس سو نوے کو شروع ہوئی تھی اور اسے تیس اکتوبر کو گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا ( تلنگانہ کے علاقے ) مدھیہ پردیش، ہریانہ، دہلی، اور بہار ہوتے ہوئے ایودھیا پہونچناتھا، مگر وزیر اعظم وی پی سنگھ ( 25/جون 1931-27/نومبر 2008 )کی ایماء پر وزیر اعلی بہار لالو پرساد یادو نے اڈوانی کو تیئیس اکتوبر کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، اڈوانی کی گرفتاری کے فورا بعد ہی اٹل بہاری واجپائی نے وی پی سنگھ کی حمایت سے دست برداری کا اعلان کردیا، وی پی سنگھ ایک اصول پسند اور نیک دل آدمی تھے۔
ملک کو ایک نیا متبادل دینے کی تلاش میں انہوں نے اس وقت کی غیر کانگریس پارٹیوں سے انیس سو نواسی کے لوک سبھا انتخابات سے قبل یا انتخابات کے بعد اتحاد کیا، ان کو پچاسی سیٹوں والی دائیں بازو والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھی ساتھ ملا اور تقریبا ساٹھ سیٹوں والی بائیں بازو والی کمیونسٹ جماعتوں کا بھی ، لیکن جب اڈوانی کی رتھ یاترا سے ہندوستان کے سیکولرزم کو انہوں نے خطرہ محسوس کیا تو انہوں نے اپنی حکومت کی قربانی دے دی، وہ نتیش کمار کی طرح موقع پرست اور اقتدار پرست دل بدلو نہیں تھے۔
وی پی سنگھ دو دسمبر انیس سو نواسی سے دس نومبر انیس سو نوے تک وزیر اعظم تھے، تیئیس اکتوبر انیس سو نوے کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت واپس لے لینے کی وجہ سے وی پی سنگھ کی سرکار اقلیت میں آگئ تھی مگر وی پی سنگھ نے فورا استعفی نہیں دیا، بلکہ انہوں نے تمام پانچ سو تینتالیس ممبران لوک سبھا سے ضمیر کی آواز پر ان کی حمایت میں ووٹ دینے کے لیے کہا، مگر کسی نے بھی ضمیر کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا سب نے اپنی پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر ووٹ دیا، انہیں واضح اکثریت دو سو بہتر ارکان لوک سبھا کی حمایت حاصل نہ ہوسکی، اور انہیں وزارت عظمی سے استعفی دینا پڑا، ان کی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر چندر شیکھر ( 10/جولائی 1927-8/جولائی 2007) تقریبا ساٹھ ارکان لوک سبھا کے ساتھ الگ ہوگئے اور کانگریس کی حمایت سے دس نومبر انیس سو نوے کو وزیر اعظم مقرر ہوئے مگر جلد ہی کئی مسائل پر کانگریس ان سے ناراض ہوگئی، اور ان کی سرکار بھی اقلیت میں آگئی اور ڈیڑھ سال کے اندر ہی لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کی نوبت آگئی اور چندر شیکھر انتخابات ہونے اور نئے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ (28/جون 1921-23/دسمبر 2004) کے حلف لینے تک یعنی اکیس جون انیس سو اکیانوے تک وزیر اعظم رہے۔
انیس سو اکیانوے کے انتخابات کے دوران ہی کانگریس کے قائد اور انیس سو چوراسی تا انیس سو نواسی ملک کے وزیر اعظم رہے راجیو گاندھی ( 20/اگست 1944-21/مئی 1991) تمل ناڈو کے شری پیرمبودورمیں ایک تمل خود کش دہشت گرد بمبار کے ہاتھوں مارے گئے، بیس مئی کو ایک مرحلے کا الیکشن ہوچکا تھا، بارہ جون اور پندرہ جون کے دو مرحلے باقی تھے، راجیو گاندھی کی دردناک موت کی وجہ سے آخر کے ان دونوں مرحلوں میں کانگریس کو ہمدردی کا ووٹ ملا، اور اسے سینتالیس سیٹوں کا فائدہ ہوا، اس بار اسے دو سو چوالیس نشستیں حاصل ہوئیں، اور اس نے اپنے پرانے اتحادیوں اور نئے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی،اس بار بھی شمالی ہند کے صوبوں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کافی مقبولیت ملی اتر پردیش کی کل چوراسی میں سے اکیاون سیٹیں گجرات کی کل پچیس میں سے بیس سیٹیں حاصل کرکے ان صوبوں کی اکثر سیٹیں اس نے جیت لیں، بہار کی کل چون سیٹوں میں سے صرف پانچ سیٹیں اسے ملی تھیں اور وہ پانچوں موجودہ جھارکھنڈ کے جنوبی قبائلی علاقوں سے تھیں، اسے کل ایک سو بیس سیٹیں ملی تھیں، اور وہ کانگریس کے بعد دوسری بڑی پارٹی بننے کا شرف حاصل کرچکی تھی، جنتا دل کو کافی نقصان ہوا تھا اسے صرف انسٹھ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں جن میں سے پچاس فیصد سے زائد کل اکتیس سیٹیں بہار سے تھیں اور بائیس سیٹیں اتر پردیش سے تھیں، اور چھ سیٹیں اڑیسہ سے تھیں۔
نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ کیوں ؟
جنتا دل کی تقسیم در تقسیم کا بھارتیہ جنتا پارٹی کو بہت فائدہ ہوا، کانگریس مخالف بہت سارے جنتا دلی لیڈران بھارتیہ جنتا پارٹی میں چلے گئے، راجستھان اور گجرات میں تو انیس سو پچانوے تک جنتادل کا وجود بالکلیہ ختم ہوگیا، مارچ انیس سو نوے میں ایک سو بیاسی رکنی گجرات اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے، اس میں نئی پارٹی جنتادل کو ستر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو سڑسٹھ نشستیں حاصل ہوئی تھیں، کانگریس چھوڑ کر آئے جنتادل کے لیڈر چمن بھائی پٹیل وزیر اعلی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کیشو بھائی پٹیل نائب وزیر اعلی مقرر ہوئے، ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد چار جون انیس سو نوے سے پچیس اکتوبر انیس سو نوے تک ہی چلا، اس کے بعد چمن بھائی پٹیل نے دیگر پارٹیوں کی مدد سے سر کار چلائی، اور اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل ہونے سے قبل ہی سترہ فروری انیس سو چورانوے کو وفات پا گئے، ان کی وفات کے بعد جنتادل کے لیڈران کانگریس یا بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے، انیس سو پچانوے کے گجرات اسمبلی میں جنتادل کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی اور ووٹ فیصد بھی تین فیصد سے کم تھا، بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیٹیں سڑسٹھ سے بڑھ کر ایک سو اکیس ہوگئیں، اور انیس سو پچانوے سے بلاشرکت غیرے وہاں اب تک یعنی جنوری دو ہزار چوبیس تک راج کر رہی ہے۔
فروی انیس سو نوے میں راجستھان اسمبلی کے کے انتخابات ہوئے اس میں دو سو رکنی اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کل پچاسی سیٹیں ملیں اور اسے ترسٹھ سیٹوں کا فائدہ ہوا، جنتا دل کو کل پچپن سیٹیں ملیں اور اسے پینتالیس سیٹوں کا فائدہ ہوا دراصل 1985 میں جنتا پارٹی کو دس سیٹوں کا فائدہ ہوا، بھیروں سنگھ شیخاوت وزیر اعلی مقرر ہوئے، اور وہ بی جے پی کے پورے ملک میں پہلے وزیر اعلی تھے، انیس سو ترانوے میں ہوئے وسط مدتی اسمبلی انتخابات میں جنتادل کو راجستھان اسمبلی کی صرف چھ سیٹیں ملی تھیں، اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو کل پچانوے سیٹیں ملی تھیں اسے دس سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا، کانگریس کو چھہتر سیٹیں ملی تھیں اور اسے چھبیس سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا، بھیروں سنگھ شیخاوت دیگر پارٹیوں کی مدد سے کل ساڑھے آٹھ سال راجستھان کے وزیر اعلی رہے، انیس نوے میں جنتادل کی کمان موجودہ نائب صدر جگدیپ دھنکر ( پیدائش : 18/مئی 1951)کے ہاتھ تھی وہ چندر شیکھر کی سات ماہ والی سرکار میں وزیر پارلیمانی امور تھے، وہ انیس سو اکیانوے میں کانگریس میں شامل ہوگئے اور پھر دو ہزار تین میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا دامن تھام لیا ہے۔
اس طرح انیس سو پچانوے تک آتے اتے اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بن گئی، مگر بہار میں اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پارہی تھی اور وہ اب کسی اتحادی کی تلاش میں تھی۔
دوسری طرف سماج وادی لیڈر، جے پرکاش نارائن اور کر پوری ٹھاکر کے شاگرد اور لالو پرساد کے طالب علمی کے دوست نتیش کمار اور جارج فرنانڈیز ( 3/جون 1930-29/جنوری 2019)وغیرہ نے انیس سو چورانوے میں جنتا دل سے الگ ہوکر سمتا پارٹی بنائی، نتیش کمار کی سمتا پارٹی نے انیس سو پچانوے کے بہار اسمبلی انتخابات میں بہار کی تین سو چوبیس رکنی اسمبلی میں تین سو دس امیدوار اتارے۔مگر اسے صرف سات سیٹیں اور سات اعشاریہ دس ( 7.10) فیصد ووٹ ملے، بھارتیہ جنتا پارٹی کو کل تیرہ فیصد ووٹ ملے تھے، اور اکتالیس سیٹیں ملی تھیں، اسے دو سیٹوں کا فائدہ ضرور ہوا تھا۔
بہار کے وزیر اعلی لالو پرساد کی مقبولیت بڑھی تھی، اور ان کی پارٹی جنتادل کو پینتالیس سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا، انیس سو نوے میں جنتادل کو بہار اسمبلی کی صرف ایک سو بائیس نشستیں ملی تھیں، مگر انیس سو پچانوے میں ایک سو سرسٹھ ۔
نتیش کمار پہلی بار زعفرانی کیوں بنے ؟
نیس سو پچانوے کے بہار اسمبلی انتخابات نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور سمتا پارٹی پر یہ واضح کردیا کہ اتحاد کیے بغیر بہار سے لالو کو ہٹانا ممکن نہیں ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی تو اتحاد کی تلاش میں تھی۔
سماج واد کے علم بردار جارج فرنانڈیز اور نتیش کمار نے لالو دشمنی اور کسی بھی طرح اقتدار کے حصول کی خواہش نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد پر مجبور کردیا، اور یہ اتحاد انیس سو چھیانوے سے دو ہزار تیرہ تک چلا، اس درمیان میں انیس سو چھیانوے، انیس سو اٹھانوے، انیس سو ننانوے، دو ہزار چار، اور دو ہزار نو کے لوک سبھا انتخابات، اور اسی طرح دو ہزار، فروی دو ہزار پانچ، اکتوبر دو ہزار پانچ، اکتوبر دو ہزار دس، کے بہار اسمبلی انتخابات نتیش کمار نے بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر لڑے، لوک سبھا انتخابات میں زیادہ سیٹیں بی جے پی کو دی جاتی تھیں اور اسمبلی انتخابات میں نتیش کی پارٹی جنتادل متحدہ کو۔
انیس سو چورانوے سے دو ہزار پانچ تک مسلسل گیارہ سالوں تک اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے مل کر انیس سو چھیانوے سے دو ہزار پانچ تک مسلسل نوسالوں تک لالو پرساد کے خلاف نتیش کمار ہنگامہ کرتے رہے، اور بالآخر اکتوبر دو ہزار پانچ میں وہ بہار کے وزیر اعلی بننے میں کامیاب ہوگئے۔
دو ہزار تیرہ میں نتیش کمار نے زعفرانی چولا چھوڑا
نتیش کمار نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ ان کی سیکولر پہچان باقی رہے ، وہ ہمیشہ درگاہوں کی زیارت کرتے ہیں، رمضان میں افطار کا اہتمام کرتے ہیں اور افطار کے وقت ٹوپی اور عربی رومال زیب تن فرماتے ہیں، چوں کہ نتیش کمار نے واجپئی جی کو وزیر اعظم بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ان کو اس کا بدلہ ملے، اور نیشنل ڈیمو کریٹک کی طرف سے واجپائی جیسا کوئی نرم چہرہ وزارت عظمی کا امیدوار ہو، چوں کہ نتیش کمار کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے میں بہت چھوٹی پارٹی ہے، اس لیے وہ کھل کر نہیں بولتے تھے، مگر وہ چاہتے تھے کہ نیشنل ڈیمو کریٹک کی طرف سے ان کو امیدوار بنایا جائے، مگر جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے سخت لیڈر نریندر مودی کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا تب نتیش کمار نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحاد نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس سے الگ کرلیا، دو سو تینتالیس رکنی بہار اسمبلی میں نتیش کی پارٹی جنتادل یونائیٹیڈ کے کل ایک سو پندرہ ارکان اسمبلی تھے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانوے، حکومت کو باقی رکھنے کے لیے مزید سات ارکان اسمبلی کی ضرورت تھی، لالو پرساد نے فورا حمایت کا اعلان کردیا، اس وقت راشٹریہ جنتادل کے بائیس ارکان تھے۔
لالو نتیش گٹھ بندھن
دو ہزار چودہ کا لوک سبھا انتخاب نتیش کمار نے اکیلے ہی لڑا، مگر ان کے صرف دو امیدوار ہی کامیاب ہوئے، ان کو اٹھارہ لوک سبھا سیٹوں کا نقصان ہوا،بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر انہوں نے انیس سو چھیانوے میں چھ، اٹھانوے میں بہار میں دس اور اتر پردیش میں دو کل بارہ سیٹیں حاصل کی تھیں اور یہ سیٹیں سمتا پارٹی کے ٹکٹ پر جیتی گئی تھیں، ننانوے میں سمتا پارٹی کے بانیان نتیش کمار اور جارج فرنانڈیز نے جنتادل کے ٹکٹ پر لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت جنتادل تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی تھی، جنتادل کی کمان شرد یادو کے ہاتھ تھی، نتیش اور جارج نے شرد یادو کو بھی بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہاتھ ملانے پر راضی کر لیا تھا، جنتادل کو کل اکیس سیٹیں ملی تھیں جن میں سے اٹھارہ صرف بہار سے تھیں، دو ہزار تین میں سمتا پارٹی جنتادل میں ضم ہوگئی اور جنتادل کا نام جنتادل متحدہ یا جنتادل یونائیٹیڈ رکھا گیا ، دو ہزار چار میں جنتادل یونائیٹیڈ کو صرف چھ سیٹیں ملی تھیں اور یہ تمام بہار سے تھیں، دو ہزار نو میں اسے بیس سیٹیں ملی تھیں اور اس کی اتحادی بی جے پی کو بارہ سیٹیں ملی تھیں، دو ہزار پانچ میں وزیر اعلی بننے کے بعد نتیش کمار نے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی تھی، اور لوک سبھا کی سیٹ شیئرنگ میں بھی بہار میں جنتادل متحدہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے آگے کردیا تھا۔
دو ہزار چودہ میں ان کو امید تھی کہ کسی پارٹی کے مدد کے بغیر بھی ان کی پارٹی کامیاب ہو سکتی ہے، اس لیے انہوں نے راشٹریہ جنتادل سے بھی اتحاد نہیں کیا، مگر جب ان کو دو صرف لوک سبھا سیٹیں ہی ملیں تب انہیں دو ہزار پندرہ میں لالو پرساد کی ضرورت محسوس ہوئی اور دوسری طرف لالو کی پارٹی بھی مسلسل زوال کا شکار تھی، ووٹ تو بیس فیصد سے زائد ملتے تھے مگر سیٹیں زیادہ نہیں ملتی ، دو ہزار پانچ فروری میں اسے پچھتر، دو ہزار پانچ اکتوبر میں اسے چون اور دو ہزار دس میں صرف بائیس سیٹیں ملی تھیں، دو نوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی، اس لیے دو ہزار پندرہ کے بہار اسمبلی انتخابات کے وقت مہاگٹھ بندھن بنایا گیا، جس میں جنتادل یونائیٹیڈ، راشٹریہ جنتادل اور کانگریس شامل تھیں، دو سو تینتالیس میں سے ایک سو ایک ایک سو ایک سیٹوں پر جنتادل یونائیٹیڈ، اور راشٹریہ جنتادل نے امیدوار اتارے اور اکتالیس پر کانگریس نے امیدوار اتارے، جنتادل یونائیٹیڈ کو اکہتر، راشٹریہ جنتادل کو اسی اور کانگریس کو ستائیس نشستیں ملیں، اس اتحاد کی حکومت بنی اور یہ حکومت بیس نومبر دو ہزار پندرہ سے چھبیس جولائی دو ہزار سترہ تک تقریبا بیس ماہ چلی ۔
نتیش کمار پھر زعفرانی رنگ میں
نتیش کمار کبھی یہ نہیں چاہتے کہ ان کی پارٹی کمزور ہو، وہ مودی کو پسند نہیں کرتے، مگر مودی وزیر اعظم ہیں، ان کی پارٹی اگر چہ بہار میں کچھ کمزور ہو مگر شمالی ہند کے دوسرے صوبوں میں وہ بہت مضبوط ہے، لالو کے ساتھ رہنے میں انہیں اپنی اور اپنی پارٹی کا نقصان سمجھ میں آیا،اس لیے تقریبا چار سال کے وقفے کے بعد وہ دو بارہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوست بن گئے،نتیش کمار کا مزاج لالو پرساد کی طرح حق گوئی اور اصول پسندی کا نہیں ہے، ان کا اصول یہ ہے کہ بلا ضرورت نہ بولو، خاموش رہو، اور اپنے مطلب کا کام کیے جاؤ۔

نتیش کمار نے دوبارہ زعفرانی رنگ کا چولا بدلا ، پھر اتارا اور پھر پہنا
نتیش کمار نے چھبیس جولائی دو ہزار سترہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کا دامن تھاما، اس درمیان انہوں نے دو ہزار انیس کا لوک سبھا الیکشن اور دو ہزار پندرہ کا اسمبلی الیکشن ساتھ لڑا اور اپنی شر چوں پر لڑا، دو ہزار چودہ میں انہیں صرف دو لوک سبھا سیٹیں ملی تھیں مگر انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مجبور کیا کہ وہ اور ان کی پارٹی سترہ سترہ سیٹوں پر الیکشن لڑے اور بقیہ چھ پر رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی، بی جے پی کو دو ہزار چودہ میں بہار سے چودہ سیٹیں ملی تھیں۔
دو ہزار پندرہ کے اسمبلی الیکشن میں بھی دو سو تیئیس رکنی اسمبلی میں سے ایک سو بائیس پر جنتادل متحدہ نے اور ایک سو اکیس پر بی جے پی نے امیدوار اتارے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے کوٹے کی گیارہ سیٹیں وکاس شیل انسان پارٹی کو دیں اور جنتادل متحدہ نے اپنے کوٹے کی سات سیٹیں ہندوستان عوام مورچہ کو دیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو چوہتر، اور نتیش کمار کی جنتادل متحدہ کو صرف تینتالیس نشستیں ملیں، وکاس شیل انسان پارٹی اور ہندوستان عوام مورچہ کو چار چار سیٹیں ملیں، اب تک بہار میں جنتادل متحدہ بڑی پارٹی تھی اور بی جے پی چھوٹی، مگر اب بی جے پی بڑی ہوگئی تھیں، اور اب نتیش کی عزت کم ہوگئی تھی، اس لیے انہوں نے ایک اور داؤ چلنے کا ارادہ کیا اور وہ یہ تھا کہ بی جے پی کو سبق سکھایا جائے ، اس لیے انہوں نے دس اگست دو ہزار بائیس کو دوبارہ لالو کے ساتھ اتحاد کیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس جتنی وزارتیں تھیں اب اتنی وزارتیں راشٹریہ جنتادل کے پاس آگئیں، نتیش کمار نے مودی کو ہٹانے کی مہم چلائی، انڈیا اتحاد کی تاسیس میں اہم کردار ادا کیا، شاید وہ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ چونکہ وہ بہتر سال کے تجربہ کار بھی ہیں، اٹھارہ سالوں سے بہار جیسی اہم ریاست کے وزیر اعلی بھی ہیں، کانگریس کے پاس کوئی جادو ئی شخصیت نہیں ہے، اس لیے کانگریس انہیں دو ہزار چوبیس کے لیے انڈیا اتحاد کے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرے گی، مگر کانگریس نے خاموشی اختیار کی، کانگریس کا اپنا موقف یہ ہے کہ چوں کہ ہمارے پاس نہرو اور اندرا کی طرح کوئی جادوئی اور مقبول شخصیت نہیں ہے، اس لیے کسی کو بھی وزیر اعظم کے طور پر پیش نہیں کرنا ہے، اور وہ دوسری جماعت کے کسی بھی لیڈر کو وزارت عظمی کا امیدوار نہیں بناسکتی، اس کا یہ عمل اپنے پیر پر کلہاری مارنے کے مترادف ہوگا۔
ساڑھے سولہ ماہ کی مدت میں انہیں احساس ہوگیا کہ کانگریس انہیں زیادہ اہمیت نہیں دے گی، دوسری طرف لالو پرساد اور ان کا پورا خاندان سچے اور جھوٹے کرپشن میں ملوث ہے، آئے دن ای ڈی اور سی آئی ڈی کے چھاپے پڑتے رہتے ہیں، لالو کا بچاؤ کرنا ان کے لیے مشکل ہورہا تھا ، شاید انہیں بھی یہ ڈر لگ گیا ہو کہ اگر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ نہیں گئے تو ان کی عزت بھی کرپشن یا کسی اور الزام کے خاردار تاروں سے تار تار ہوسکتی ہے۔
پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ نتیش کمار لالو کے ازلی دشمن، اقتدار پرست ، موقع پرست اور بزدل انسان ہیں، چونکہ مرکز میں بی جے پی کا اقتدار ہے، اس لیے ان صفات کے حاملین کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ رہنا ہی سود مند ہے، نتیش کمار انیس سو چھیانوے سے دو ہزار تیرہ تک کل سترہ سال بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ تھے، پھر وہ دوبارہ چھبیس جولائی دو ہزار سترہ سے دس اگست دو ہزار بائیس تک کل پانچ سال پندرہ دن بی جے پی کے ساتھ تھے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ان کا تیسرا ملن پرسوں اٹھائیس جنوری دو ہزار چوبیس کو شروع ہوا، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب سہ بارہ انہیں توبہ کی توفیق ملتی ہے۔
نتیش کمار کا حال وہی ہے جسے فلسفی شاعر اسد اللہ خاں غالب نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے

Comments are closed.