بنگلوروکے سموسے

مدثراحمد
شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
سوشیل میڈیا میں ایک ویڈیو تیزی کے ساتھ وائرل ہورہی ہے،جس میں ایک صاحب علم کہہ رہے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں مسلمان ہر دن افطارکے موقع پر5 کروڑ روپیوں کے سموسے نوش کرتےہیں اور پورے رمضان میںاوسطاً150 کروڑ روپیوں کے سموسے چٹ کرجاتےہیں۔اس ویڈیومیں کہاگیاہے کہ مسلمان صرف ایک مہینے میں 150 کروڑ روپیوں کے سموسوں کا استعمال کرتے ہیں یہ ایک طرح سے اصراف ہے۔یقیناً150 کروڑ روپئے کوئی معمولی رقم نہیں ہے، مگر سموسوں کو لیکر جس طرح سے اُمت مسلمہ کے مسائل اورسموسوں کوجوڑاگیاہے یہ بات سموسوں سے زیادہ ہضم نہیں ہوئی ہے۔صاحب علم نے سموسوں کو کیوں نشانہ بنایا اس کی اصل وجہ معلوم نہیں،البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ رمضان کے مہینے میں جہاں روزے دار سموسوں کا استعمال کرتےہیں وہیں یہ سموسے بنانے اور فروخت کرنےوالوں کیلئے یہ مہینہ برکتوں کاہے،اس مہینے میں کئی مسلم تاجران سموسوں کا کاروبارکرتے ہیں ،جس سے وہ کم ازکم کچھ مہینوں کیلئے اپنی روزی کا انتظام کرلیتے ہیں۔واقعی میں اگر مسلمانوں کے اصراف خرچ اور بچت کے تعلق سے رپورٹ بنائی جائے تو ایسے کئی معاملات ہیں جس میں مسلمان سالانہ ہزاروں کروڑ وں روپئے فضول خرچی کررہے ہیں۔عام طورپرجو سموسوں کی خریدوفروخت کرتے ہیں وہ متوسط اور غریب گھرانوں کے لوگ ہیں،جبکہ مالداروں کے شوق تو پیز ا،برگر،شورمے اور یگر لذیذ پکوانوں کے ہوتے ہیں۔آخر ہر معاملے میں غریبوں کوہی قربانی دینے کیلئے کیوں کہاجاتاہے۔مسلمانوں کے درمیان آج جو رسم ورواج کا چلن عام ہوتاجارہاہے،اُس میں تو ہزاروں کروڑ روپئےسالانہ فضول خرچ ہوتے ہیں،ایک شادی کی ہی بات لیں،نکاح وولیمہ کے علاوہ ہلدی کارسم،شکرانہ ،منجا،مہندی کی رسم،سالی کا رسم،جلوہ سے لیکر منہ دکھائی کی رسم تک ہوتی ہے،جبکہ یہ تمام رسمیں فضول خرچی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے آگے بڑھتے ہیں تو پہلے بچے کی پیدائش پر صرف عقیقہ کیاکرتے تھے،لیکن اب ستواسا،چلّہ،ختنہ کارسم ،بیبی شائوروغیرہ کرتے ہوئے لاکھوں ہزاروں روپیوں کااصراف کیاجاتاہے اورآگے بڑھتے ہیں تو پہلا برتھ ڈے کم ازکم پچاس ہزارروپئے غریبی حال سے اور امیری حال سے بات کریں تو ایک دولاکھ روپئے کے فنکشن سے مکمل کیاجاتاہے یہ بھی تو اصراف چیزیں ہی ہیں۔ضرور ت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں ضرورتمند لوگوں کے تعائون کیلئے جو ممکن ہوسکے اُس کیلئے تعائون کیاجائے اور جوغیر ضروری چیزیں ہیں اُن چیزوں سے اجتناب کیاجائے۔اب بنگلوروکے سموسوں کی بات کی جائے تو بنگلورومیں پانچ کروڑ روپئے کے سموسے اگر روزانہ کہیں فروخت ہوتے بھی ہیں تو اس سے مسلمانوں کی ہی معاشی حالت بہترہوگی،چونکہ رمضان میں سموسوں کے کاروبار سے منسلک لوگ مسلمان ہی ہیں،اس میں دو رائے نہیں ہے۔خوامخوہ اس طرح کے ویڈیوز کے ذریعےسے ٹی آرپی تو بڑھتی ہی ہے ،لیکن مسائل حل نہیں ہوتے۔اگر واقعی میں کالج ویونیورسٹی بنانی ہےتو مالداروں کو چاہیے کہ وہ ہر گلی محلے میں ایک اقامتی مدرسہ اور ہر پچاس گھروں کیلئے مسجد بنانے کے بجائے دوسرے علوم کے ادارے بنانے کیلئے خرچ کریں،یہاں بات سموسوں کی ہورہی ہے،اصل بچت تو مسلمانوں کا زکوٰۃ سے نکلتاہے،جو کہ سالانہ30سے40 ہزار کروڑ روپیوں کااوسط زکوٰۃ ہے،سموسے تو150 کروڑ کے ہیں،یہ30سے40 ہزار کروڑ روپیوں کا زکوٰۃ کون کھائے جارہاہے؟۔اصل گرفت تو30 ہزار کروڑ کے زکوٰۃ پر ہونی چاہیے،نہ کہ بڑے کی بریانی اور سموسوں پر ہمارا نشانہ ہوناچاہیے۔جب40-30 ہزار کروڑ روپیوں کا زکوٰۃ صحیح طریقے سے ہونے لگے گا تویقیناً مسلمانوں کے تعلیمی ادارے و معاشی حالات بہتر سے بہتر ہونے لگے گی۔

Comments are closed.