انسان بحیثیت نائب وخلیفہ

مسلم محمود
مسقط (عمان)
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی کہ میں زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ بنانے جارہا ہوں تو اس وقت فرشتوں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے کہا کہ آپ کی عبادت کے لیے ہم حاضر ہیں، انسان دنیامیں فساد برپاکرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاجو میں جانتاہوں وہ تم نہیں جانتے ۔ اس کے بعد فرشتوں اور ابلیس کو حکم دیاکہ اس کو سجدہ کرو۔ یہ انسان کی اہمیت اور اس کے اعلیٰ مقام کا عملی اعلان تھا۔ ابلیس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں آگ سے بنا ہوں اوریہ مٹی سے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ کے لیے دھتکار دیا گیا۔ ابلیس نے مہلت مانگی کہ یا اللہ مجھ کو قیامت تک مہلت دیجیے کہ میں ثابت کروں کہ یہ انسان اس مقام ومنزلت کا مستحق نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دے دی اور اعلان کردیا کہ تیرے مطیع جہنم کا ایندھن بنیں گے اور میرے مطیع میری جنتوں کے مہمان بنیں گے۔ قیامت تک شیطان خود کو صحیح ثابت کرنے کی جنگ میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ وہ انسان کے دائیں بائیں ، سامنے اور پیچھے سے اس پر وار کرتا ہے۔ ہر طریقہ سے کوشش کرتا ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت سے پھر جائے اور وہ صحیح ثابت ہوجائے۔ زندگی کے اس امتحان میں انسان جب بھی شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنی ذمہ داری اور عمل صالح میں کوتاہی کرتاہے،بلا ارادہ شیطان کا ساتھی اور اللہ کا نافرمان بن جاتاہے ۔ یعنی ایک طرح سے شیطان کی اس کے مشن کی کامیابی میں مدد کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ قیامت کے دن یہی شیطان خود کو یہ کہہ کر بے قصور ثابت کرے گاکہ میں نے تو صرف بہکایا تھا ، عمل تو انسان نے خود کیا تھا، اپنے پیروں پر چل کر یا اپنے ہاتھو ںکی طاقت سے یا دوسری جسمانی وذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،یعنی اپنی تمام مخلوق جس میں چرند پرند ، زمین و آسمان اور کائنات کی ہرچیز شامل ہے۔ انسان کوان پر فوقیت دی اور اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا، اپنے خلیفہ کا درجہ دیا اور کائنات کی ہر شئے کوانسان کے تصرف اور فائدہ کے لیے فراہم کیا۔اللہ تعالیٰ نے انسان کوسیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کی جو دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔اس نے انسان و جن کو صرف اپنی عبادت کا حکم دیاہے۔ہمارا یہ مقام و مرتبہ ہے کہ ہمارا سر دنیا کے کسی اور شئے کے سامنے نہ جھکے، ہم مانگیں تو صرف اللہ سے اور اپنی جھولی پھیلائیں تو صرف اللہ کے سامنے۔ اللہ کی مخلوق کے سامنے اپنے مقام کونہ گرائیں۔
بحیثیت خلیفہ انسان کا انسان کے ساتھ حسن سلوک اور بدسلوکی پر اللہ تعالیٰ خوش اور ناراض ہوتا ہے۔ ہم دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں ایسے انسان کو رسوا نہیں ہونے دے گا ۔ ہم انسانوں کے عیبوں پر پردہ رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے عیبوں پر پردہ رکھے گا۔ ہم انسانوں کی مددکریں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ کے انعام و اکرام کا دارومدار ذاتی عبادتوں اور فرائض کی ادائیگی کے علاوہ سارے انسان یعنی اللہ کے خلیفہ کے ساتھ رویہ پر مبنی ہوگا۔ اس لیے بحیثیت پڑوسی ،رشتہ دار ، ہم پیشہ ، ہم شہر اور ہم وطن کے ساتھ عدل وانصاف، محبت وخیرخواہی اورایثار و قربانی سے کام لیں۔ کسی کو ہم سے اذیت نہ پہنچے ، ہم دوسروں کے لیے بھلائی،امن اور حسن سلوک کی چلتی پھرتی ہوئی تصویر ہوں۔ ہمارے رویے، ہماری زبان اور ہمارے ہاتھ سے ہر انسان محفوظ رہے۔ کیوں کہ ہمارا اپنا مقام اللہ کے خلیفہ کا ہے، دوسرے انسان بھی اللہ کے خلیفہ ہیں۔ لہٰذا خلیفہ کاخلیفہ سے تعلق برابری کا ہونا چاہیے۔ ہم اپنے معیار سے نہ گریں اور نہ دوسرے کو گرائیں۔ اسی سے ہم اپنے رب کو راضی کرسکیں گے اور قیامت کے دن سرخرو ہوسکیں گے۔
حقوق العباد میںکوتاہی کے مرتکب نہ ہوں،کیوں کہ حقوق العباد کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ میں اپنی شان میں کمی بیشی معاف کرسکتاہوں لیکن حقوق العباد میں حقدار کواس کا حق دلوائے بغیر انصاف کا تقاضا پورا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا لوگوں کے ساتھ اپنے سلوک میں اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ کوئی مظلوم یا ہم سے کسی حق کا طلب گار قیامت میںہمارا راستہ جنت میں جانے سے روک سکتاہے۔ حدیث رسول ؐکے مطابق کسی حقدار کے حق کی ادائیگی کے لیے اس کے نیک اعمال اس کودے دیے جائیں گے اور جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور حقوق باقی رہیں گے تو حقدار کے گناہ اس کی جھولی میں ڈال دیے جائیں گے اور اچھا خاصاجنت کا مستحق شخص جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ ایسے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوالیہ لقب سے تشبیہ دی ہے۔ اللہ ہم پررحم فرمائے ، ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے سے بچائے، ہمیں حقوق العباد میں کوتاہیوں سے بچائے اور بحیثیت خلیفہ ہمیں فرائض منصبی میں کوتاہی سے محفوظ رکھے۔ شیطان کی سازشوں اور حملوں سے ہماری حفاظت کرے جو کہ ہمارا صریح دشمن ہے، وہ ہمیں بہلا پھسلاکر جہنم میں داخل کرانا چاہتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے تصرف کے لیے دنیا کی ہر شئے مسخر کردی اور بہترین طاقت اور صلاحیت سے نوازا کہ انسان سمندروں کے سینے پر پانی کے جہاز دوڑاتا ہے اور آسمانوں میں ہوائی جہاز ۔ عام جسامت کا انسان بھاری بھرکم ہوائی جہاز فضا میں اڑاتا ہے، جس میں ایک بارات کے برابر اشخاص بیک وقت سفر کرتے ہیں، جن کی تعداد100 سے 800 تک ہوتی ہے۔ دنیا کاسب سے بڑاجہاز 110 ٹن کاکارگوآسمان کی بلندی پر دنوں کا سفر گھنٹوں میں مکمل کرلیتا ہے۔انسان کی سائنسی ایجادات،الیکٹرانکس اور مہارتوں پر غور کیجیے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
انسان اپنے سے کئی گنا بڑی اشیا کو کنٹرول کرتاہے، جنگلی خوفناک جانوروں، حتی کہ سمندر کی دیوہیکل مچھلیوں کو زیر کرلیتا ہے۔زمین سے آسمانوں کا سفر اور مصنوعی سیاروں کا خلا تک پہنچاناممکن بنا چکا ہے۔ مہینوں میںپہنچنے والے پیغامات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر سیکنڈوں میں پہنچاجانا ایک عام بات ہے۔ بلند وبا لا عمارتیں اور ان میں سیکنڈوں میں دوڑتی ہوئی لفٹس وغیرہ۔ ساری دنیا ایک عالمی گاؤں بن کر رہ گئی ہے ،اب دوری کوئی دوری نہیں رہی۔
جسم کے نظام پر بھی ہم غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں صلاحیتیں اس جسم میں عطا فرمادی ہیں ۔ مکمل 24 گھنٹے چلنے وا لانظام ہر وقت متحرک رہتاہے، چاہے ہم سوئیں یاجاگیں ہمارے اعضائے رئیسہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ کوئی ذرا سی چیز بھی متاثر ہوجائے تو اس کا نعم البدل دنیامیں کسی بھی قیمت پر میسر نہیں ، جیسے آنکھیں، کان، ناک، زبان، گردے، جگر، پھیپھڑے، دل و دماغ اور بہترین ساخت پر مبنی ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء۔ اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
ان سب نعمتوں کے بدلے اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں صرف اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں، اس کے بندے بن کر رہیں، شرک سے اجتناب کریں، اللہ پر کسی کو ترجیح نہ دیں ۔ پھر اس شرط کو پورا کرنے پر بہترین انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے۔بیش بہا انعامات سے پُرایک ایسا عالم جس کا نہ کسی دماغ نے تصور کیا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھاہے، جس کے مقابلہ میں دنیا اور اس کی آسائشیں سمندر کے ایک قطرے کے برابر بھی نہیں ہیں۔
٭٭٭
Comments are closed.