جشن جمہوریہ میں خواتین کی پریڈ اورایک  جج کی  حالتِ زار

 

ڈاکٹر سلیم خان

یوم جمہوریہ سے قبل 22؍ جنوری کو اس  بارسنگھ پریوار نے رام مندر کے نام پرخوب   ہنگامہ آرائی کرکے عوام کو اتنا تھکا دیا  کہ  26 جنوری کے دن عوام میں  کوئی جوش و خروش ہی نہیں تھا ۔ قومی تعطیل کے دن  چہار جانب ایک غمزدہ سناٹا پسرا  ہوا تھا۔ اس روز  وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر ہوتی تو میڈیا اس کو اچھال کر کچھ جوش دلاتا   لیکن اس کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ مودی جی  نے ماضی کی بہت ساری روایات کوپامال کیا مثلاً وزیر اعظم کا رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنا یا افتتاح کرنا وغیرہ مگر اپنی شدید خواہش کے باوجود یوم جمہوریہ کی پریڈ کو مخاطب کرنے کی روایت شروع نہیں کرسکے  حالانکہ یو مِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے وہ  بڑے طول طویل   خطابات کرکرے اپنا ہی ریکارڈ توڑتے رہے ہیں  ۔اس  ارمان کا پتہ یوں چلتا ہے کہ  جو رہنما مندر کے افتتاحی تقریب میں بھی تقریر کرنے سے نہیں چوکتا اور اپنے سیاسی حریفوں پر رکیک حملے کرجاتا ہے اس کے لیے یوم جمہوریہ کے موقع پر خاموش رہنا ایک بہت بڑی آزمائش  بلکہ صدمہ ہے۔

 وزیر اعظم نے اپنی اس مشکل کا حل یہ نکال لیا ہے  کہ انہوں نے یوم جمہوریہ کےمہمانِ خصوصی یعنی فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کو ایک دن قبل بلا کر اس کے   ساتھ جئے پور میں  پہلے تو ایک روڈ شو کیا اور پھر تقریر فرمادی ۔ ماضی قریب میں  گجرات کے اندر بھی  مودی جی متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن  زائد آل نیہان کے ساتھ روڈ شو کرچکے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے تو خود ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر ایک نئی روایت قائم کی  اور اب  آگے بڑھ کر غیر ملکی  سربراہوں کو اپنے الیکشنی فائدے کے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن اپنے آبائی صوبے میں کسی غیر ملکی رہنما کی مدد لینا خود کے اندر عدم اعتماد کا جیتا  جاگتا ثبوت  ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی سمیت سارے  سربراہان مملکت کی تقریر ان کے سیکریٹری لکھتےہیں ۔ اس میں تڑکا لگانے کام وہ   رہنما ضرور کرتا ہے۔ و زیر اعظم کی تقریر لکھنے والی ٹیم نے  اس بار اپنا مسودہ آقا کے بجائے صدر مملکت کی خدمت میں  پیش کر دیا اور موصوفہ نے من و عن سنا کر اپنا حق نمک ادا کردیا ۔

قومی خطاب میں معاشی محاذ پر سوچے سمجھے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو بھی آگے بڑھانے کاذکر کرنے کے بعد محترمہ مرمو  نے انکشاف کیا کہ :’وبا کے دور میں سماج کے کمزورطبقوں کو مفت خوراک دستیاب کرانے کے لیے شروع کیے گئے  فلاحی منصوبوں کا دائرہ سرکار نے  وسیع کردیا ہے۔ اس پہل کو  وسعت دیتے ہوئے سرکار نے 81کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اگلے پانچ سال تک مفت اناج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘ صدر مملکت  نے اسے ممکنہ طورپر تاریخ میں عوامی فلاح وبہبود کا یہ  منفرد سب سے بڑا منصوبہ قرار تو  دے دیا  لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ عوام کو خود کفیل بنانے کے بجائے اناج دے کر ان پر احسان جتانا  اور اس کےعوض ووٹ لے کر عیش کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کسی ملک  کے 58فیصد لوگوں کا دو قت کی روٹی کے لیے سرکاری امداد پر منحصر ہونا کون سی نیک نامی ہے۔ بھکمری کی فہرست میں جملہ125 ممالک کے اندر ہندوستان کا  111 ؍ واں نمبر اور پھر خوشحالی کے بلند بانگ دعویٰ مضحکہ خیز لگتا ہے۔ فی الحال  نام نہاد مادر جمہوریت کا یہ حال ہے کہ ؎

بھوک سے مجبور ہو کر مہماں کے سامنےٍ                        مانگتے ہیں بچے جب روٹی تو شرماتی ہے ماں

یوم جمہوریہ کی پریڈ میں اس بار خواتین کو خوب پروجیکٹ کیا گیا اور صدر مملکت نے ایوان  پارلیمان میں  خواتین کے ریزرویشن سےمتعلق تاریخی بل  کی منظوری کا ذکر کیا مگر مہوا موئترا کے ساتھ اسی ایوان میں  بے مثال  بدسلوکی کی گئی اوربیجا  الزامات لگا کرا نہیں   نکال کر   گھرتل  خالی کروانا اس ڈھول کا پول کھول دیتا ہے۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد جب صدر مملکت کی زبانی  :’ اس قانون  سے ہمارا ملک مردوخواتین کے درمیان مساوات کے اصول پر آگے بڑھا اور یہ  خواتین کو بااختیار بنانے کا ایک انقلابی وسیلہ ثابت ہوگا‘والا جملہ مضحکہ خیز لگتا ہے۔ بی جے پی کے رمیش بھدوڑی کے سنگین جرم پر صرف تنبیہ اورمہوا موئترا کو سخت سزا کیا مساوات ہے۔ برسوں سےدہلی کے اندر سرکاری مکانات پر قبضہ  خالی نہ کرانا جانا  اور حکومت  کے خلاف آواز بلند کرنے والی دلیر رکن کا گلا گھونٹ دینا کیا ناری شکتی کی وندنا  ہے؟اس بیچ ملک کے اندر خواتین کی دگر گوں صورتحال کو پیش کرنے والا یہ ایک درد انگیز واقعہ وزیر اعظم کی کرم بھومی  اترپردیش میں سامنے آیا جہاں کی ڈبل انجن سرکار اپنے بلڈوزر پر فخر کرتی ہے۔

 اتر پردیش کی ایک خاتون جج نےرضاکارانہ موت کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک  خط سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ  کو لکھ دیا۔ اس  پر کارروائی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل اتل ایم کورہیکر کو الہ آباد ہائی کورٹ انتظامیہ سے اسٹیٹس رپورٹ طلب کرنے کا حکم دیا اور تمام شکایات کے بارے میں جانکاری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے داخلی شکایات کمیٹی کے سامنے پیش شکایت پر کارروائی کی صورتحال کے بارے میں بھی پوچھا  ۔ باندہ ضلع کے اندر تعینات ایک خاتون جج نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی پوسٹنگ کے دوران ڈسٹرکٹ جج اور ان کے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا نیز  ڈسٹرکٹ جج نے رات کو ان سے ملنے کے لیے دباؤ ڈالا۔سوال یہ ہے کہ جس سماج میں  ایک خاتون جج کے ساتھ  ایسی بد سلوکی  ہو وہاں کی عام خواتین کس قدر غیر محفوظ ہوں گی؟

خاتون جج کے مطابق  وہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ جج کے امتحان میں شریک ہونے کے بعد جوڈیشل سروس میں داخل ہوئی تھیں لیکن انہیں بھری عدالت میں بدسلوکی کا شکار بنایا گیا۔ موصوفہ  نے اپنے  خط میں  تمام زیر ملازمت  خواتین  کو مخاطب کرکے  کہا کہ وہ جنسی ہراسانی کے ساتھ جینا سیکھیں۔ کیا کسی مہذب سماج میں اس کا تصور کیا جاسکتا ہے؟  وہ انتہائی افسوس کے ساتھ لکھتی ہیں  کہ جج ہونے کے باوجود وہ اپنے لیے انصاف نہیں حاصل کر پائیں۔  ایک  خاتون اپنی محنت و مشقت سے  دوسروں کو انصاف دلانے کی خاطر ایک اہم عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی اگر ناانصافی کا شکار ہوجائے توایوان میں بننے والے قوانین سے کیا توقع کی جائے؟  جج صاحبہ اپنی حالت بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں  ’ مجھے بہت جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔ میرے ساتھ کچرے کی طرح برتاؤ کیا گیا ہے۔ میں ایک ناپسندیدہ کیڑے کی طرح محسوس کرتی ہوں جبکہ مجھے امید تھی کہ میں دوسروں کو انصاف فراہم کروں گی۔ ‘‘ لیکن سارے خواب ٹوٹ کر بکھر گئے۔

اس  خاتون جج نے اس  معاملے کی شکایت الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر متعلقہ حکام سے کی لیکن کسی نے ایک بار بھی  نہیں پوچھا کہ کیا ہوا ؟  کیا یہ بے حسی کی انتہا نہیں ہے؟؟  2022 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور انتظامی جج  نے  ان شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی ۔  جولائی 2023 میں انہوں نے ہائی کورٹ کی اندرونی شکایات کمیٹی میں شکایت درج کرائی لیکن وہ کوشش بھی بے سود رہی۔ان کے مطابق تفتیش کےشروع کرنے میں چھ ماہ اور ایک ہزار ای میلز لگ گئے اور مجوزہ تحقیقات بھی محض ایک ڈھونگ ہے۔ شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا ’’تفتیش میں گواہ ڈسٹرکٹ جج کے فوری طور پر ماتحت ہیں۔ کمیٹی کیسے توقع کرتی ہے کہ گواہ اپنے آقاکے خلاف گواہی دیں گے؟ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘خاتون جج کا الزام ہے کہ انہوں نے تحقیقات کے التوا کے دوران متعلقہ ڈسٹرکٹ جج کے تبادلے کی درخواست کی تھی تاکہ حقائق کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن ہوسکے، لیکن ان کی درخواست مسترد کردیا گیا اب اگر وہ جینا نہیں چاہتی تو اس میں کون قصور وار ہے؟اس دنیا میں  زندہ رہنے کے لیے صرف پانچ کلو اناج کافی نہیں ہے بلکہ  ہر  انسان  عزت و وقار کے ساتھ جینا چاہتا ہے  ۔ اس کی گارنٹی نہیں ملتی تو ایودھیا کا پران پرتشٹھان اور دہلی میں یوم جمہوریہ کی پریڈ سب بیکار ہے۔

صدر دروپدی  مرمو  نے یومِ جمہوریہ  موقع پر  آئین کا جشن  مناتے ہوئے   تمہید میں درج  ’’ہم، بھارت کے لوگ‘‘ کے ابتدائی  الفاظ کا ذکر کرکےسب کو چونکا دیا  کیونکہ فی الحال قومی بیانیہ  ’ہم‘ کو ’میں‘ سے بدل دیا گیا ہے اور وزیر اعظم سمیت سارا حزب اقتدار ’مودی کی گارنٹی‘  کا ورد کرتا رہتا ہے۔ وزیر اعظم کی نرگسیت کو چار چاند لگاتے ہوئے   چمپت رائے جیسے  چاپلوس لوگ  انہیں وشنو کا اوتارکہنے میں بھی نہیں شرماتے  اور مودی خود اپنے اندر مافوق الفطرت قوتوں  کے احساس  کا دعویٰ کرکے ان کی تائید کرتے  ہیں    ۔ صدر جمہوریہ نے  مرکزی حکومت کی کامیابیوں  مثلاً دلی میں جی 20 سربراہ کانفرنس کے انعقاد کو  بے مثال حصولیابی  کر صدارتی خطاب میں سراہا گیا حالانکہ  وہ تو ایک  لگے بندھے ضابطے کے تحت  ازخود ہندوستان کے حصے میں آئی  تھی اور پھر چلی  گئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بعد وطن عزیز کے نہ صرف کینیڈا بلکہ امریکہ سے بھی تعلقات خراب ہوگئے۔  صدر جمہوریہ  نے اسرو کے ذریعہ چاند اور سورج  کی مہمات پر فخر کا اظہار تو کردیا لیکن عوام کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرکے چاند ستاروں کا سفر کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتا کیونکہ  علامہ اقبال نےکیا خوب  کہا تھا ؎

جس نے سورج کی شُعاعوں کو گرفتار کیا                زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا!

 

 

Comments are closed.