بانی جامعہ الہیہ مہیشورم ، حیدر آباد،تلنگانہ، جناب الحاج عبد الرحیم بانعیم مرحوم ایک قابل تقلید انسان

 

مظاہر حسین عماد قاسمی

 

 

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم جناب عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم ایک قابل تقلید انسان تھے، اس لیے ہم ان کی زندگی کے بعض گوشوں پر روشنی ڈالنا مناسب اور ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اس سے قارئین کے اندر قوم و ملت کے لیے کچھ کر گذرنے کا جذبہ موجزن ہو، اور ہر مسلمان کے اندر یقین محکم بھی ہو، عمل پیہم بھی ہو اور محبت فاتح عالم بھی ہو، علامہ اقبال مرحوم نے ان ہی تینوں کو جہاد زندگانی کہا ہے اور بالکل درست کہا ہے،

 

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

 

نام اور خاندان

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم کا پورا نام عبدالرحیم بن سالم بن عمر بن سعید بانعیم ہے، آبائی تعلق یمن کے جنوبی علاقہ حضرت موت کے” بنو تجیب ” کی ایک شاخ سے ہے جس کے قبول اسلام کا ذکر سیرت کی کتابوں میں کتاب الوفود میں آیا ہے،

آپ کے والد سالم بانعیم صاحب یہاں کی مشہور وادی ” وادی عمد” کے ایک معروف صاحب حیثیت شخص تھے جو حیدرآباد کے چھٹے نظام ( 1) میر محبوب علی خاں (2)کے زمانے میں حیدر آباد آئے اور خالص عرب ریجمنٹ جمیعت نظام محبوب ( جے این ایم ) میں بھرتی ہوئے ، پہلے چاؤش (3) اور پھر ترقی کر کے صدر چاؤش کے عہدے پر فائز ہوئے،

 

پیدائش

اس دور میں چونکہ مختلف مواضعات پر عہدہ داروں کے سرکاری تبادلے ہوتے رہتے تھے اس میں کوئی ایک جگہ مستقل سکونت نہیں ہوتی تھی تاہم بانی جامعہ الہیہ کے والد صاحب کا قیام زیادہ تر بیدر شریف مستقر پر رہتا تھا جو آج کل ریاست کرناٹک کا ایک تاریخی شہر ہے، یہیں پر بانی جامعہ الہیہ عبدالرحیم بانعیم صاحب مرحوم کی پیدائش 1933 میں ہوئی ، والدین اور خاندان والے آپ کو "پاشاہ ” پکارتے ، مگر تعلیم قران اور دعوت و تبلیغ سے جڑنے کے بعد ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر” عبدالر حیم بھائی” رہنے لگا،

 

تعلیم

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم کی ابتدائی تعلیم بیدر میں ہوئی آپ کے والد بزرگوار نے ریٹائرمنٹ کے بعد حیدرآباد کے محلے بارکس میں مستقل سکونت اختیار کر لی ، یہاں آپ نے مدرسہ نظامیہ جس میں فوجیوں کے بچوں کی تعلیم کا سرکاری نظم تھا علامہ شیخ صالح باحطاب اور مولوی حمد قرموشی صاحب (خطیب جامع مسجد بارکس ) سے دینیات کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد اپ نے دارالعلوم کالی کمان میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان امتیازی نشانات سے پاس کیا ،

 

تلاش روزگار

1945 تا 1948 رضاکاروں (4)کی تحریک کے زیر اثر آگے کی تعلیم موقوف کر دی , پولیس ایکشن (5)کے بعد حیدر آباد کے عرب یمنی نزاد معاشی پریشانی اور تنگدستی کا بری طرح شکار ہوئے، حصول روزگار کے لیے عرب ممالک جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بانی جامعہ الہیہ عبد الرحیم با نعیم صاحب نے بھی اپنے رفقا کے ساتھ دوحہ قطر کا رخ کیا اس وقت عرب ممالک میں پٹرول کے ذخائر نئے نئے دریافت ہوئے تھے پانچ سال تک آپ نے روزگار معاش کے لیے بڑی جدوجہد کی ، کئی ایک کمپنیوں میں ملازمت کی اور صرف پانچ سال رہ کر ہندوستان آگئے ،

 

نکاح اور اولاد

1956 میں موضوع کوہیر تعلقہ ظہیر آباد کے زمیندار یمنی نزاد جناب علی بن محمد بن حلیس الیافعی کی چھوٹی صاحبزادی سے بانی جامعہ الہیہ عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم نے

نکاح کیا، جس سے آپ کو دو لڑکیاں اور سات لڑکے ہوئے دوسرے نکاح سے آپ کو تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہوئیں،

اس طرح اللہ نے اپ کو جملہ دس لڑکے اور سات لڑکیاں عطا کی جن میں سات حافظ دو عالم فاضل اور ایک مفتی ہیں،

 

بانی جامعہ الہیہ عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم کے صاحب زادگان

1-حافظ مولانا محمد بن عبد الرحیم بانعیم مظاہری صاحب زید مجدہ العالی، آپ نے انیس سو اکیاسی میں جامعہ مظاہر العلوم سہارن پور سے فضیلت سے فراغت حاصل کی،

2-حافظ سالم بن عبد الرحیم بانعیم

صاحب زید مجدہ العالی،

3- حافظ احمد بن عبد الرحیم بانعیم

صاحب زید مجدہ العالی،

4-حافظ مولانا محمود بن عبد الرحیم بانعیم قاسمی صاحب زید مجدہ العالی، آپ نے انیس سو نوے میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سہارن پور سے فضیلت سے فراغت حاصل کی،

 

5- حامد بن عبد الرحیم بانعیم

صاحب زید مجدہ العالی،

6-حافظ مسعود بن عبد الرحیم بانعیم صاحب زید مجدہ العالی،

7-خالد بن عبد الرحیم بانعیم

صاحب زید مجدہ العالی،

8-حافظ و قاری مولانا مفتی عبد اللہ بن عبد الرحیم بانعیم صاحب زید مجدہ العالی، آپ نے انیس سو نوے میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سہارن پور سے فضیلت سے فراغت حاصل کی، اور دار العلوم دیوبند سے ہی دو ہزار میں افتاء کی تکمیل کی،

 

9-حافظ ابوبکر بن عبد الرحیم بانعیم صاحب زید مجدہ العالی،

10- عمر بن عبد الرحیم بانعیم

صاحب زید مجدہ العالی،

 

محبت دین اور اہل اللہ سے تعلق

بانی جامعہ الہیہ عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم کو شروع ہی سے دینی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق اور اہل علم کی مجالس میں شرکت اور استفادے کا شوق تھا اس سلسلے میں کبھی آپ کتب خانہ آصفیہ چلے جاتے اور کبھی محدث دکن حضرت عبداللہ شاہ، بحر العلوم حضرت مولانا عبدالقدیر صدیقی اور مولانا ابوالوفاء افغانی رحمہم اللہ جیسے اکابر کے مجالس میں حاضر رہتے ، شہر کے علمی دینی جلسوں میں نہ صرف شرکت فرما تھے بلکہ علماء کے مواعظ قلم بند فرماتے،

 

حصول روزگار کے لیے اپ نے سائیکل ٹیکسی کی دکان کھولی تاہم اس کے ساتھ ساتھ اشاعت علم کے لیے گشتی کتب خانہ بھی قائم کیا ، جس سے لوگ استفادہ کرتے ،

دعوت و تبلیغ کی مناسبت سے آپ نے ملک کے بے شمار علاقوں کا دعوتی دورہ کیا جس سے آپ کے داعیانہ جذبے کو بڑا حوصلہ ملا بالخصوص آپ نے اپنے بارکس کا رفقاء کے ساتھ چار ماہ کے لیے ایک یادگار تاریخی تبلیغی سفر سائیکلوں پر دہلی اور میوات کا کیا ، جس میں علم و روحانیت کے آفتاب و ماہتاب علماء اور اولیاء حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی، مولانا انعام الحسن کاندھلوی ، مولانا محمد منظور نعمانی ، مولانا عمران خان بھوپالی، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہم اللہ سے خوب از خوب علمی و دعوتی استفادہ کیا ،

 

بانی جامعہ الہیہ کی دعوت سے چالیس خاندانوں کا قبول اسلام

انیس سو اسی میں بانی جامعہ الہیہ عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم نے تائیوان اور تائی پائی کا تبلیغی سفر کیا جہاں اپ کے ہاتھ پر چالیس خاندانوں نے اسلام قبول کیا دعوت تبلیغ کے حلقہ احباب میں اپ کی امارت اور اسلامی تربیت بہت مشہور ہے ،

 

صد سالہ میں شرکت

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم نے تین،چار، پانچ جمادی الاولی چودہ سو ہجری مطابق اکیس ،بائیس،تیئیس مارچ انیس سو اسی میں دارالعلوم دیوبند میں منعقدہ صد سالہ کانفرنس میں شرکت کی ،

 

حج بیت اللہ

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم نےانیس سو تراسی میں حج بیت اللہ ادا کیا ،

 

مدرسہ الہیہ بارکس کا آغاز

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم نے حیدرآباد کے بارکس کے یمنی نزاد نونہالوں کو زیور علم و اخلاق سے آشنا کرنے اور ان کی نئی نسلوں میں عقیدہ و عمل کا شعور پیدا کرنے کے لیے 28 اپریل 1974 کو مسجد نورین بارکس کے قریب کرائے کے ایک کمرے میں ایک مکتب کا اغاز کیا ،

دکن کے مشہور سلسلۂ عالیہ قادریہ کمالیہ کے صاحب نسبت بزرگ حضرت صوفی غلام محمد رحمۃ اللہ علیہ (جن کے ساتھ مختلف دعوتی اسفار میں آپ نے خود استفادہ کیا) کے بیان کردہ کلمہ طیبہ کے اعتبارات ، الوہیت الہیہ کی رعایت میں اس کا نام مدرسہ الہیہ رکھا، ابتدائی چند سالوں میں طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مستقل عمارت کے لیے مہیشورم کے ایک زمیندار جناب شرف الدین صاحب مرحوم کی نسبتی برادر جناب حسن قریشی صاحب مرحوم نے اپنی موروثی جائیداد میں سے ایک قطعۂ پلاٹ بلاقیمت حسبتا للہ وقف کیا ، جس پر بعض اہل خیر حضرات کے مال و تعاون سے سہ منزلہ عمارت بنائی گئی اور جہاں تقریبا پچاس سالوں سے مدرسہ الہیہ اپنی خاموش خدمات انجام دے رہا ہے ، جہاں سے اب تک کئی طلبہ و طالبات نے تکمیل حفظ کیا ہے ، یہاں کے شعبہ عالمیت بنات میں دورۂ حدیث تک تعلیم ہے، ہر سال اوسطا بارہ تا پندرہ مقامی طالبات ہوتی ہیں، پچھلے دس سالوں میں طالبات کی خاصی تعداد فارغ ہوئی ہے،

 

جامعہ الہیہ مہیشورم کا آغاز

طلبہ کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تربیت کے لیے بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم نے انیس سو تراسی میں کئے گئے اپنے سفر حج میں ایک اقامتی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کر لیا اور اس کے لیے خوب دعائیں مانگیں اس ارادہ کو اپ نے اپنے چچا زاد بھائی اور معروف صاحب خیر محترم الحاج احمد محمد بانعیم زادہ اللہ صحۃ کے سامنے رکھا تو انہوں نے ایک گراں قدر تعاون عنایت کیا چنانچہ اپ نے حج سے واپس آتے ہی اس پر کام شروع کر دیا ، اور 1984 میں اس جگہ جہاں آج جامعہ الہیہ قائم ہے، وہاں زمین خریدی اور پھر جیسے ہی یہاں قیام وطعام کی سہولت ہوئی طلبہ کو جمع کر کے باضابطہ تعلیم کا آغاز کر دیا،

 

بانی جامعہ الہیہ کی صلاحیت و صالحیت

بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم

نہایت اصول پسند ، حق گو، سادہ مزاج، اور باہمت انسان تھے عمدہ تعلیم و اعلی تربیت کا بہت خیال فرماتے ، آپ کی تحریر نہایت شستہ ہوتی ، عربی سے اردو ترجمہ بلا تکلف فرماتے، اس طرح عربی میں خطوط و مضامین لکھ لیتے، اعانۃ المبتدین کا آپ نے اردو ترجمہ کیا تھا اور اسی ترجمہ کی مدد سے آپ طلبہ کو فقہ شافعی پڑھایا کرتے تھے، مسجد حسینی بارکس میں فضائل کے ساتھ آپ مسائل کی تعلیم بھی فرماتے، آپ کا درس کافی مقبول تھا ،

 

بانی جامعہ الہیہ کی وفات

الغرض قوم ملت کے بے لوث اور مخلصانہ خدمت کر کے 20 جولائی 2003 بروز اتوار بوقت اذان فجر بانی جامعہ الہیہ مہیشورم عبد الرحیم با نعیم صاحب مرحوم انتقال فرما گئے،

اللہ تعالی ان کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے تمام بچوں کے ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

( مستفاد از خطبۂ استقبالیہ بموقع مجمع الامام الشافعی العالمی کا چوتھا فقہی سیمینار حیدر آباد،تلنگانہ، منعقدہ بائیس تا چوبیس جمادی الآخر 1445ہجری مطابق پانچ تا سات جنوری 2024 بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار )

_________________

حواشی

( 1) مغلیہ دور میں ایک بڑے صوبہ کے گورنر کو نظام کہا جاتا تھا،

نظام الملک حیدرآباد جنہیں عموماً نظام حیدرآباد کے نام سے جانا جاتا تھا، 1724ء سے 1948ء تک قائم ریاست حیدرآباد کے حاکموں کو کہا جاتا تھا۔ یہ خطاب مملکت آصفیہ کے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سطح مرتفع دکن میں یہ حکومت مغلوں کے زیر اثر مقامی نواب میر قمر الدین صدیقی نے قائم کی تھی جنھوں نے 1724ء میں آصف جاہ کا لقب اختیار کیا اور خود مختار ہو گئے۔ مگر ہمیشہ مغلیہ حکومت کے وفادار رہے،

1798ء کے بعد سے ریاست حیدرآباد برطانوی ہند کے زیر اثر ریاستوں میں سے ایک تھی تاہم نظام داخلی امور خود حل کرتے تھے،

 

1947ء میں تقسیم ہند تک دو صدیوں میں سات نظاموں نے حیدرآباد پر حکومت کی۔ تقریباً یہ تمام ہی آصف جاہی حکمران ادب، فن، طرز تعمیر، ثقافت، زیورات و جواہر کے بہت بڑے سرپرست و دلدادہ تھے۔

 

نظام حیدرآباد کی یہ حکومت 17 ستمبر 1948ء کو بھارت کی عسکری مہم کے خاتمے تک قائم رہی۔ اس کے نتیجے میں نظام کو بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اقوام متحدہ اور لندن میں حکومت برطانیہ کو بھیجے گئے وفد میں تاخیر کے باعث بھارت کی سرزمین پر اس آزاد ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندی اتحاد میں شامل کیا گیا اور 1956ء میں لسانی بنیادوں پر توڑ کر پڑوسی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں تقسیم کر کے ختم کر دیا گیا۔ دو ہزار چودہ میں آندھرا پردیش سے الگ ہوکر "تلنگانہ ” نام سے بننے والی مکمل ریاست، ریاست حیدر آباد کا حصہ تھی، ہندوستان سے الحاق کے وقت ریاست حیدر آباد کا رقبہ دولاکھ پندرہ ہزار تین سو انچالیس کلومیٹر پر محیط تھا،

جب کہ تلنگانہ کا رقبہ صرف ایک لاکھ چودہ ہزار آٹھ سو چالیس کیلو میٹر ہے،

مغلیہ سلطنت مکمل طور سے ختم ہوجانے اور مکمل طور سے آزاد ہونے کے باوجود ریاست حیدر آباد کے حکمرانوں نے خود کو بادشاہ، یا نواب نہیں کہلوایا، جب تک مغلیہ سلطنت باقی رہے اس کے وفادار رہے، اور جب انگریزوں کا ہندوستان میں غلبہ ہوا تو ٹیپو سلطان کی طرح انگریزوں سے لڑنے کے بجائے انگریزوں سے دوستی میں ہی عافیت سمجھی اور اس طرح خود کو بھی بچایا اور حتی المقدور ہندوستان کے علماء و ادباء کو پناہ دی، علم کی شمعیں روشن کیں، آخری نظام میر عثمان مرحوم نے انیس سو گیارہ سے انیس سو اڑتالیس تک کے اپنے دور اقتدار میں عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی،اور دار الترجمہ قائم کیا،

جامعہ عثمانیہ

1918 میں ریاست حیدرآباد کے ساتویں نظام فتح جنگ نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ ہفتم نے سنگ بنیاد رکھی۔ یہ بھارت کی ساتویں اور جنوبی ہند کی تیسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے اور ریاست حیدرآباد کی پہلی یونیورسٹی ہے۔

 

تبدیلی ذریعہ تعلیم

1948ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے اندر موجود اردو کے بیش بہا ذخیرے کو نذرآتش کر دیا گیا۔ دسمبر سنہ 1948ء کے بعد سے دیڑھ دو سال تک جامعہ ہنگامی و غیر یقینی حالات سے دوچار رہا۔ ذریعہ تعلیم کے مسئلہ پر مختلف قسم کی کمیٹیاں بنتی رہیں اور نئی نئی تجویزیں پیش ہوتی رہیں۔ اکثراساتذہ عاجلانہ فیصلوں اور کام کے طریقہ کار سے مطمئن نہ تھے۔

 

ہندی کو ملک کی قومی زبان بنانے کے فیصلے کے ساتھ ہی ہندوستانی زبان کا تصور بھی ختم ہو گیا۔ ارباب جامعہ دو سال کے تجربے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندی کو ذریعہ تعلیم بنانا ممکن نہیں۔ سابقہ فیصلے کی روشنی میں پروفیشنل کورسز میں انگریزی کے ذریعہ تعلیم کا زور و شور کے ساتھ آغاز ہوچکا تھا۔ آرٹس و سائنس کی شعبوں کے لیے بھی تعلیمی سال 1951-52ء سے انگریزی ذریعہ تعلیم بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس طرح ایک ہندوستانی زبان کے ذریعہ تعلیم دینے والی ملک کی پہلی منفرد جامعہ کا کردار تبدیل ہو گیا۔

 

دار الترجمہ حیدر آباد

جامعہ عثمانیہ کے قیام سے تقریباً ایک سال قبل ایک شاہی فرمان کی روشنی میں جو 14 اگست  1917 ء کو جاری ہوا تھا، 16 ستمبر 1917 ء کو دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا جس کے ناظم اول کی حیثیت سے بابائے اردو مولوی عبدالحق مقرر ہوئے ۔ مولوی عبدالحق کے بعد جن نامی گرامی شخصیتوں کا انتخاب عمل میں آیا ان میں سید محی الدین ، حمید احمد انصاری ، محمد عنایت اللہ ، محمدالیاس برنی اور ڈاکٹر ایشورناتھ ٹویا (رجسٹرار عثمانیہ یونیورسٹی) شامل ہیں ۔ دارالترجمہ کے ناظم ادبی کی حیثیت سے علامہ نظم طبا طبائی اور پھر مابعد شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اور ناظم مذہبی کی حیثیت سے مولوی صفی ا لدین اور عبداللہ عمادی مقرر کئے گئے۔ مختلف اور متعدد علوم جدیدہ و قدیمہ کے چار سو سے زائد عربی اور انگریزی اور دیگر زبانوں کی کتابوں کے اردو ترجمے ہوئے، حیدر آباد کے بعض حکمرانوں سے بعض غلطیاں ہوئی ہیں مگر مجموعی طور سے ان کے اقدامات بہت اچھے تھے، وہ علم دوست، ادب نواز اور دین سے محبت کرنے والے تھے، انہوں نے انگریزوں سے دوستی کی مگر ان کی چاپلوسی نہیں کی، آج عرب ممالک میں سے قطر وہی کردار ادا کررہا ہے جو کردار انیس ویں صدی کے نصف اخیر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں ریاست حیدر آباد کے حکمرانوں نے کی تھی، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی سیئات کو معاف فرمائے اور ان کے حسنات کو قبول فرماکر انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے خاندان کے زندہ لوگوں کو عزت کی زندگی نصیب فرمائے اور دین و ملت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین

( 2) نظام سادس محبوب علی خان 1866ء میں پیدا ہوئے۔انھیں 1869ء میں صرف دو سال کی عمر میں مکمل اختیارات کے ساتھ قلمرو آصفی کا حضور نظام تسلیم کر لیا گیا۔حیدرآباد میں سرکاری زبان انھیں کے دور 1884 ء میں فارسی سے اردو کر دی گئی۔​وہ اردو کے بہترین شاعر تھے لیکن فارسی ، عربی اور انگریزی پر بھی عبور کھتے تھے۔فرہنگ آصفیہ ان ہی کی سرپرستی کا نتیجہ تھا۔۔مولوی عبدالحق مصنف تفسیر حقانی،قدر بلگرامی،مولانا شبلی نعمانی ، الطاف حسین حالی،پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا عبد الحلیم شرر جیسے ان گنت ارباب علم نے ان کی سرپرستی میں ساری زندگی کسب معاش سے بے نیاز ہو کرآرام سے گزار دی۔ مشہور شاعر داغ دہلوی کا سرکار آصفیہ سے پندرہ سو روپیہ وظیفہ مقرر تھا۔ان کی علمی سرپرستی کی وجہ سے انھیں شاہ العلوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔​

 

(3) چاؤش کے معنی لشکر، قافلے یا سلاطین و امرا کی سواری کے آگے آگے مقررہ نعرے لگاتا ہوا چلنے والا، چوبدار،

نقیب، محافظ، پیغامبر، چاؤش شاید آج کل کے نائک کے عہدے کے برابر ہوتا تھا، موجودہ زمانے میں فوج میں سب سے نیچے سپاہی اس کے اوپر لاس نائک اور اس کے اوپر نائک ہوتا ہے،

مفتی عبد اللہ با نعیم قاسمی صاحب مدظلہ العالی ناظم جامعہ الہیہ مہیشورم نے بتایا کہ "صدر چاؤش کے تحت چالیس چاؤش ہوتے تھے، ” گویا صدر چاؤش کمانڈر کے درجے کے ہواکرتے تھے،

(4) رضاکار کے معنی والینٹیئر ہے، اپنی ریاست حیدرآباد کے دفاع کے لیے تقریبا دو لاکھ نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر بلا تنخواہ کے بھارتی فوج سے لڑنے کا عزم کیا تھا، اور وہ لڑے بھی تھے اور ان میں سے تقریبا دو ہزار رضا کار شہید بھی ہوئے تھے، یہاں وہی رضاکار مراد ہے،

 

(5)”پولیس ایکشن” تیرہ تا اٹھارہ ستمبر 1948ء میں بھارتی افواج کا ایک ملٹری ایکشن تھا جس کا مقصد آصف جاہی سلطنت کو ختم کرکے حیدرآباد ریاست کو “انڈین یونین “ میں شامل کرنا تھا۔ انڈین فوج کامیاب ہوئی اور اس کے نتیجے میں عزیز ذلیل ہوئے اور ذلیل عزیز ہوئے،

اس پولس ایکشن میں بھارتی افواج کی تعداد پینتیس ہزار تھی، اور ریاست حیدرآباد کی افواج بائیس ہزار تھی، اور تقریبا دو لاکھ رضا کار تھے،

بھارتی فوج کے بتیس جوان شہید ہوئے اور ستانوے زخمی ہوئے،

ریاست حیدرآباد کی فوج کے آٹھ سو سات فوجی شہید ہوئے، زخمیوں کی تعداد معلوم نہیں، سولہ سو سینتالیس قید ہوئے،

تیرہ سو تہتر رضا کار بھی شہید ہوئے، اور انیس سو گیارہ گرفتار ہوئے،

سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے

ستائیس تا چالیس ہزار شہری ہلاک ہوئے، اور عام اندازہ یہ ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے،،

 

اس وقت ریاست حیدر آباد کا رقبہ دولاکھ پندرہ ہزار تین سو انچالیس کلومیٹر پر محیط تھا،

Comments are closed.