گیان واپی مسجد کافیصلہ ناقابلِ قبول !

 

 

شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

 

مسلم پرسنل لابورڈ کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے کہ وارانسی کی گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاتھ کی اجازت دینے کا وارانسی کے ضلع جج کا فیصلہ ملک بھر کے مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ اور کیوں ضلع جج ڈاکٹر اجئے کمار ویشویش کا فیصلہ قبول کیا جائے ؟ یہ فیصلہ غلط اور متنازعہ تو ہے ہی ، یہ فیصلہ اس ملک کو مزید انتشار میں ڈالنے اور ملک بھر میں بدامنی پھیلانے والابھی ہے ۔ اور سیدھی بات یہ ہے کہ فیصلہ ’ انصاف ‘پر مبنی نہیں ہے ۔ ضلع جج نے جس طرح سے یہ فیصلہ سنایا ہے اس پر غور کیا جائے تو یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ وہ پہلے ہی سے جیسے طے کیے ہوئے تھے کہ فیصلہ کچھ ایسا ہی دیں گے ۔ ان کے فیصلے کو ناقابل ِ قبول کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ریٹائرمنٹ سے چند گھنٹے قبل یہ فیصلہ سنایا ۔ لیکن اس کے علاوہ مزید وجوہ ہیں ، مثلاً اس ملک میں ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کے تحت قدیم عبادت گاہوں کو ، وہ چاہے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی ہوں ، تحفظ حاصل ہے ، اور اس ایکٹ کے تحت ’ انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی‘ نے ضلع عدالت میں یہ درخواست کی تھی کہ گیان واپی مسجد کو تحفظ حاصل ہے لہٰذا اس مسجد کو مندر قرار دینے کی جودرخواست عدالت کے سامنے پیش کی گئی ہے ، وہ خارج کی جائے ، لیکن ضلع جج نے یہ کہتے ہوئے کہ گیان واپی مسجد کو نہ ’ پلیس آف مسجد کمیٹی‘ کے تحت تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی ’ وقف ایکٹ ‘ کے تحت مسجد کمیٹی کی درخواست ردکردی ! حالانکہ وارانسی کی یہ مسجد ملک کی قدیم ترین مسجدوں میںسے ایک ہے اور مذکورہ ایکٹ ملک بھر میں تمام عبادت گاہوں کو بشمول مسجدوں کو ان کی قدامت کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں ۱۷؍ جنوری کو عدالت کے حکم پر ضلع انتظامیہ نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے کا ، جسے ہندو فریق ’ ویاس جی کا تہہ خانہ ‘قرار دیتا ہے ، انتظام سنبھال لیا تھا۔مسجد کا سروے کرانا ، حوض کے فوارہ کو شیولنگ مان لینا ، محکمہ آثار قدیمہ کو مسجد کے تہہ خانے کے سروے کا حکم دینا اور اس کی رپورٹ میں مسجد کے تہہ خانہ میں ایک قدیم مندر کےآ ثار دریافت کرنا ، یوں لگتا ہے جیسے کہ ایک اسکرپٹ کے تحت یہ سب ہورہا تھا۔ فوارہ کو شیولنگ قرار دینا ، اور تہہ خانے کا سروے کرواکر وہاں ایک مندر کے آثار پانے کا دعویٰ کرنا ، ضلع جج کے لیے تہہ خانے میں پوجا پاٹھ کی اجازت دینے کا بہانہ بن گیے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں یہ حکم دے رکھا ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ یہ مقدمہ 1991ء کے قانون کے تحت چل سکتا ہے یا نہیں ، لیکن عدالت عظمیٰ کے اس حکم کو بھی ضلع جج نے نظرانداز کردیا ، وہ ہندو فریق کے ہر وہ مطالبے یا درخواست مانتے رہے جن کی بنیاد پر آج ، ۳۱؍ جنوری کا فیصلہ سنانا ان کے لیے آسان ہوگیا ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ملک کی عدالتیں متعصب ججوں سے پٹی پڑی ہیں ، اور وہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف آنکھیں بند کرکے ، اعلیٰ عدالتوں کی ہدایات کو نظرانداز کرکے اور حقائق کو اندیکھا کرکے ، فیصلے کرتی رہتی ہیں ۔ نچلی عدالتوں کی جانے دیں سپریم کورٹ تک نے بابری مسجد کے معاملے میں تمام حقائق کو نظرانداز کرکے فیصلہ کیا ہے ۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے نیچے کوئی مندر نہیں ملا اس کے باوجود وہ جگہ رام مندر کے لیے دے دی گئی، اور وارانسی کی گیان واپی مسجد کے نیچے مندر کے ـ آثار پائے جانے کا دعویٰ ہے ، لہٰذا یہ جگہ بھی مندر کے لیے دے دی جائے گی ، لگتا یہی ہے ۔ یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی میری ۔۔۔ لیکن ضلع جج نے بھلےپوجا پاٹھ کرانے کا یہ فیصلہ کرلیا ہو ، مسلمانوں کو یہ فیصلہ کسی طور بھی قبول نہیں کرنا چاہئیے ۔

Comments are closed.