Baseerat Online News Portal

ہندوستان ،چین  اور مالدیپ کا  دلچسپ مثلث

 

ڈاکٹرسلیم خان

بزدل اور دلیر کے درمیان ایک فرق یہ ہے  کہ اول الذکر اپنے سے کمزور کے سامنے شیر کی مانند شیخی بگھارتا ہے اور طاقتور کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال  ہندوستان کے چین اور مالدیپ کے ساتھ باہمی تعلقات ہیں۔  بی جے پی رہنما سبرانیم سوامی  کے مطابق چین  نے ہندوستان کی چار ہزار چھ سو کلومیٹر زمین پر قبضہ کررکھا ہے لیکن اس کا کوئی ذکر ہی  نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس  مالدیپ نامی ننھے سےجزیروں  پر مشتمل   ملک  جس کا رقبہ اور آبادی  کسی بڑے شہر تو کجا متوسط درجہ کے شہروں سے بھی کم ہے ، خبروں میں رہتا ہے۔ سوشیل میڈیا پر روزآنہ  مالدیپ پر کئی ویڈیوز نمودار ہوکر لاکھوں لوگوں کو خوش کرتی  ہیں جبکہ چین پر نہ کچھ بنتا اورنہ دیکھا جاتا ہے۔  مالدیپ  یہ  ہے کہ  اس نے بھی نتیش کمار کی طرح اپنی وفاداری بدل دی۔  یعنی پہلے ’انڈیا‘ محاذ کے ساتھ تھے اب ’این ڈی اے‘  کے ساتھ ہوگئے۔ نتیش کماراگر ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں  تو مالدیپ بھی  ایک خود مختار ملک ہے ۔وہ  کسی زمانے میں ہندوستان کا حلیف تھا  لیکن اب  اس نے چین کے ساتھ دوستی  کرلی ہے۔ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں مگر جو لوگ کمزور دوست کو اپنا غلام اور خود کو اس کا آقا سمجھتے ہیں ان کو اس سے  پریشانی  ہے۔ 

ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان  تنازع پر مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے نہایت معقول موقف اختیار کرتے ہوئے  بڑی سادگی کے ساتھ یہ اعتراف  کرلیا کہ کوئی  بھی شخص یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا ہے  کہ ہر کوئی ہندوستان  کا ساتھ دے گا۔ انہوں نے یہ بات ناگپورکے اندر  ٹاؤن ہال میٹنگ کے دوران مالدیپ کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں  کہی ۔ وہ بولے ’سیاست سیاست ہے۔ میں اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ ہر ملک میں ہر کوئی ہماری حمایت کرے گا یا ہم سے اتفاق کرے گا‘۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے لیکن اگر کسی ملک کے سارے پڑوسی اس سے ناراض ہوکر یکے بعد دیگرے حریف کی گود  میں جا بیٹھیں تو خود احتسابی کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اگر اسی طرح اعتراف کر لیتے تو اچھا تھا مگر انہوں نے مالدیپ تنازع کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے لکشدیپ کا  دورہ کردیا اور  وہاں سے  اپنی تصویریں ایکس پر شیئر کیں تو ان کے بھگتوں نے مالدیپ کی موت کا جشن منانا شروع کردیا ۔ اس  کے رد عمل میں مالدیپ حکومت  کے اندر ایک نائب وزیر نے مودی پر نازیبا  تنقید کرتے ہوئے  انہیں  ”مسخرہ”  ”دہشت گرد” اور ’’اسرائیل کا کٹھ پتلی‘‘ جیسے القاب سے نواز دیا۔ آگے چل کر  اس پوسٹ کو حذف کر دیا گیا نیز  مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے تحقیقات کا حکم دےکر نتائج آنے تک نائب وزراء کو معطل کر دیا۔

اس تنازع پر مالدیپ کے وزیر خارجہ موسی ضمیر نے کہا  تھا  غیر ملکی رہنماؤں کے خلاف اس طرح کے ریمارکس ”ناقابل قبول” ہیں اور یہ مالدیپ حکومت کے سرکاری موقف کی عکاسی نہیں کرتے۔انہوں نے وضاحت  کی  کہ مالدیپ اپنے تمام شراکت داروں بالخصوص  پڑوسیوں کے ساتھ ”مثبت اور تعمیری بات چیت” کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ہم سایہ ممالک  کے ساتھ ہمارے رشتے، باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی ہیں۔ مودی بھگتوں نے اس خیرسگالی کا مطلب یہ لیا محمد معیزو ڈر گئے ہیں اور ہندوستانی سرکار کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں۔ اپنے مخاطب کی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھنا اور اس پر خیالی پلاو بناکر خوش ہونا مودی بھگتوں کا شعار بن گیا۔ یہ لوگ ہر طرح سے پریشان حال ہیں مگر اس طرح کی جذباتی باتوں سے آسودگی کا سامان کرتے  ہیں اور دشمنوں کو دوست بنانے کے بجائے دوستوں کو دشمن بنادیتے ہیں ۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی سے بھگت تو خوش ہوتے ہیں مگر ملک کے لیے یہ نقصان دہ ہے۔  محمد معیزو  نے  اپنے چین کے  دورےسےبھگتوں کی ساری  خوش فہمی دور  کردی۔

 مالدیپ پر ہندوستانی اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپریل 2022؍ میں مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح نے’انڈیا آؤٹ‘ یا ’بھارت نکل جاؤ‘ نامی عوامی احتجاجی مہم کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دے کر پر پابندی لگا دی تھی ۔ فی الحال ہندوستان کے ساتھ ساتھ صالح بھی آوٹ ہوچکے ہیں کیونکہ وہ لوگ اقتدار میں آگئے جن کا الزام تھا سابق صدرنے مالدیپ کو بھارت کے ہاتھوں ایک طرح سے ’فروخت‘ کر دیا ہے۔محمد  معیزو   نے ہندوستانی فوجیوں کو مالدیپ سے نکلنے کا حکم دینے کے بعد اپنا  پہلا چینی سرکاری دورہ  کیا تھا ۔ اس پر انہوں  نےخوشی  کا اظہار کیا کہ وہ نئے سال  میں چین کے لیے پہلے غیر ملکی سیاسی مہمان ہیں۔مالدیپ کے صدارتی دفتر نے ٹویٹر پر لکھا، "آج دونوں صدور کی موجودگی میں حکومت مالدیپ اور چین کی حکومت کے درمیان 20 بڑے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔‘‘ان معاہدوں میں سیاحتی تعاون کے علاوہ  بلیو اکانومی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ڈیجیٹل اکانومی میں سرمایہ کاری کو مضبوط بنانا شامل ہے۔ اس طرح مالدیپ کا سیاحت کی صنعت پر انحصار کم ہوگا۔

چین نے  مالدیپ کو مزید  امداد فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے  تاہم  اس کی   رقم  ہنوز صیغۂ راز میں ہے۔ مالدیپ میں چین  سڑکوں کے تعمیراتی کاموں کو تیز کرنا چاہتا ہے نیز مکانوں کی تعمیر اور  ماہی گیری کی مصنوعات کی فیکٹریاں بھی لگانا چاہتا ہے تاکہ مالدیپ پوری طرح در آمدات پر  منحصرر ہنے کے بجائے خود کفالت   کی جانب قدم بڑھائے۔ہندوستان کے قدیم حلیف کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے چینی شی جن پنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین مالدیپ کا احترام اور حمایت کرتا ہے اور اس  کے قومی مفاد میں کئے جانے والے ترقیاتی ایجنڈے میں تعاون  کرے گا۔ ہندوستان کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے چینی صدر نے کہا کہ ان کا ملک  قومی خودمختاری، آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی وقار کے تحفظ میں مالدیپ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔چین نہ صرف فوجی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی    ہندوستان سے بڑی طاقت ہے اس  کے باوجود وہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ برادرانہ سلوک کرکے ان کو اپنا ہمنوا بنائے رکھتا ہے۔

محمد معیزونے چینی دورے سے واپسی کے بعد  ایک چینی سمندری تحقیقاتی جہاز ژیانگ یانگ ہونگ 03 کو جزیرہ نما میں لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی ۔مالدیپ کی وزارت خارجہ نے  کہا کہ اسے بیجنگ کی جانب سے اپنے ایک جہاز کو ساحل پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دینے کے حوالے سے "سفارتی درخواست” موصول ہوئی تھی۔ حکومتِ ہند  پہلے ہی بحیرہ ہند میں چین کی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے حوالے سے مالدیپ کو خبر دار کر چکا ہے لیکن فی الحال   اس اعلان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا  تاہم ذرائع کے مطابق  نئی دہلی صورت حال پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ مالدیپ کو حکومتِ ہند  ہمیشہ اپناحلیف سمجھتی رہی  ہے اس لیے ، بیجنگ کی جانب سے مالے کی طرف اس پیش قدمی نے اسے سخت برہم  کردیا ہے۔ بیجنگ  کے ذریعہ مالدیپ کو  اپنے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی)میں ایک کلیدی شراکت دار کے طورپر شامل کر نے کو  نئی دہلی اپنے لیے  ایک طرح کاچیلنج سمجھتا  ہے۔

 نئی دہلی کے مطابق  چین کی  بحیرہ ہند میں  بحری سرگرمیاں  سمندری تحقیقات کی آڑ میں عسکری نوعیت کی ہوسکتی ہیں۔اس کے برعکس بیجنگ  اس کے جہازوں سے کسی کے لیے کوئی خطرہ لاحق  ہونے کا منکر  ہے۔ اس معاملے میں مرکزی فریق مالدیپ کے صدر معیزو  چین  علاقائی سالمیت کا احترام کرنے والا ملک بتا کر ہندوستان پر چھوٹے جزائر والے اس ملک کو دھونس دینے کا الزام لگاتے ہیں ۔ ہندوستان کے ذریعہ نگرانی کرنے والے فوجیوں کو اپس بھیجنے کے بعد مالدیپ کے صدر نے ترکیہ کے ساتھ 37 ملین ڈالر کے فوجی ڈرون خریدنے کے معاہدے پر دستخط کردیئے تاکہ ان کے ذریعہ  گہرے سمندروں میں فضائی نگرانی کرسکیں۔  اس طرح  دفاعی افواج کے لیے  ہندوستانی  شراکت داری کا متبادل تلاش کرلیا گیا ہے یعنی پہلے  مالدیپ کی فوج کی جانب سے مشکوک بحری جہازوں، اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جاسوسی  کا جو کام ہندوستانی فوج کرتی تھی اب وہ خود  ترک ڈرونز کے ذریعہ کریں گے۔ مالدیپ کی یہ خود کفالت ہندوستانی خارجہ پالیسی کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی ایسے ممالک سے قربت بڑھ رہی جو ہندوستان کے دوست نہیں ہیں۔ 

مودی سرکار کی رعونت آمیز خارجہ پالیسی نے ہم سایہ ممالک کو  نالاں کررکھا  ۔ ان میں سابق ہندو راشٹر نیپال سے لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان تک سبھی شامل ہیں ۔ بنگلادیش، نیپال، میانمار  اور سری لنکا بھی ہندوستان کے مقابلے چین سے زیادہ قریب ہیں۔ مالدیپ   کے ہندوستان سے قریبی تعلقات تھے مگر وہ بھی  اب چین کے ساتھ چلا گیا۔  ہندوستان اورمالدیپ کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی کے سبب  چینی صدر شی جن پنگ نے  صدر محمد معیزو  کا سرخ قالین پر خیر مقدم کیا اور انہیں  توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس کے لیے انہیں مودی سرکار کا شکر گزار ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر مالدیپ کے ہندوستان سے اچھے تعلقات ہوتے تو محمد معیزو کی چین میں ایسی آو بھگت نہیں ہوتی۔ خیرمودی جی  نادانستہ طور پراپنے دشمنوں  کا  بھلا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے  لداخ میں کوئی نہیں آیا کہہ کر چین کا بھلا کرکے بھگتوں کا اس  نعرے کو درست ثابت کردیا تھا کہ ’مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے‘۔

 

Comments are closed.