جمعہ نامہ: حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔ اس آیت کےاندر شریعت میں امانت کی اہمیت اور امانتداری کی طریقت کو نہایت جامع انداز پیش کیاگیا ہے۔نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا : ”جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔“۔ رسول اکرم ﷺ نے نفاق کی ایک علامت یہ بتائی کہ جب امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے۔ امانت کے مفہوم کو عام طور پر مال و متاع تک محدود کردیا جاتا ہے حالانکہ آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی تو یہ بھی ہے کہ ” جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔“ یعنی کسی عہدے پر فائز کرنے کی خاطر جب رائے طلب کی جائے تو عدل و انصاف کا پاس و لحاظ لازمی ہے۔ اسی طرح منصب پرفائز ہونے کے بعد معاونین کے تعین میں امانتداری کو ترجیح دی جائے ۔ نبیٔ کریم ﷺ نے تاکیدفرمائی :’’ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہواگر اس نے کوئی عہدہ محض دوستی وتعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے‘‘۔
عصرِ حاضر کے جمہوری حکمراں بھی اہلیت و صلاحیت کے بجائے اقربا پروری ، چاپلوسی اور ذاتی وفاداری کی بنیاد پر تقررات کرتے ہیں۔ حکومت کی تشکیل میں رائے مشورے کے اہتمام کو نظام جمہوریت کی دین سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے وجود میں آجانے سے بہت پہلےدین اسلام میں اس کی تعلیم موجود تھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عثمانِ غنی ؓ کے تقرر سے قبل مشورہ ہوا تھا نیز حضرت عمرؓ کے تعین میں موروثیت نہیں تھی ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے تو اپنے موروثی عہدے سے سبکدوش ہوکر عوام کو باہمی مشورے سے خلیفہ مقرر کرنے کی پیشکش فرمائی تھی ۔ اس وقت وسائل محدود تھے آج کل ان کی فراوانی ہے اس لیے زور و شور سے الیکشن ہوتے ہیں لیکن کیا ان میں عدل و انصاف کا کوئی عنصر پایا جاتا ہے؟ کہنے کو ہر شہری انتخاب لڑ سکتا ہے لیکن کیا کسی عام آدمی کے لیے انتخاب میں کامیابی حاصل کرلینا ممکن ہے؟
موجودہ انتخابی عمل میں دولت کی ریل پیل ، ذرائع ابلاغ کا بے دریغ استعمال ، جھوٹ ،تہمت ، دھوکہ، فریب ، دھونس دھمکی ، نفرت ، عصبیت اور اس کی بنیاد پر قتل وغارگری بلکہ جنگ و جدال تک ایسی کون سے برائی ہے جس کا انتخابی عمل میں استعمال نہیں کیا جاتا اور اسے جائز و ضروری نہیں سمجھا جاتا ؟ خوف و دہشت کا ایسا ماحول پیدا کردیا جاتا ہے کہ اس کسی ووٹر کے لیے ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر عدل و انصاف کے مطابق آزادانہ وغیر جانبدارانہ رائے دینا ناممکن کردیا جاتا ہے ۔ فی زمانہ عوام کی رائے سےحکمراں کے انتخاب پر تو بہت زور دیا جاتا ہے مگر اس کے بعد وہ شتر بے مہار اور رائے دہندگان محتاج محض بن کر رہ جاتے ہیں۔ عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قابض ہونے والے حکمراں اپنی من مانی کرنے لگتے ہیں ۔ اس بابت جو قوانین ان کی مرضی کے آڑے آتے ہیں ان کو اپنی اکثریت کے بل بوتے پرتبدیل کردیاجاتاہے یا ان پر عمل آوری نہیں ہوتی۔حکومت وقت انتظامیہ کا بیجا استعمال کرکے اپنے مخالفین کے ساتھ ان تمام لوگوں کا گلا گھونٹ دیتی ظلم ونانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں یا جن سے کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں اہل ایمان کی جو صفت بتائی گئی ہے :’’اور جو اپنے پروردگار کے حکم کو مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے (تمام) کام باہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس سے خرچ کرتے ہیں‘‘، اس کی روشنی میں جمہوریت کی اصول مبادی کو دیکھا جائے تو یہ فرق سمجھ میں آتا ہے کہ خلافت میں چونکہ حاکمیت اللہ کی ہوگی کوئی حکمراں اپنی مرضی سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکے گا ۔ اس کے بعد حکمراں کے انتخاب سے متعلق رائے مشورہ اور عوام کی فلاح وبہبود کے کام دونوں جگہ مشترک ہیں۔ اللہ کی حاکمیت کو سمجھانے کے لیے زمین و آسمان کی تخلیق و تدبیر کی مثال دینے کے بعد فرمانِ قرآنی ہے :’’ ۰۰۰ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے‘‘۔ اس سے معقول ترین کیا ہوسکتی ہے کہ جس کی خلق اسی کا امر یعنی جو خالق و پردگار ہے وہی حقیقی حاکم و فرمانروا بھی ہو۔
دنیا میں اللہ کے نائب یعنی خلیفہ کا فرض منصبی اپنے اور اپنی رعایہ کے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق حکومت کرنے کی ہے کیونکہ یہ حکم ِعام ہے کہ : ’’اے اہل ایمان ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی، اپنے میں سے اولوالامر کی بھی ‘‘۔ یعنی خلیفہ کی اطاعت اللہ اور رسول کے تابع ہے ایسے میں اگرباہمی یا صاحب اقتدار سے اختلاف ہو جائے تو نزاع کو دور کرنے کا حل یہ نہیں ہے کہ ایوان میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی ہو بلکہ حکم دیا گیا:’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف رائے ہوجائے تو اسے لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف اگر تم واقعتا ًاللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہوتو یہی طریقہ بہتر ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی بہت مفید ہے‘‘۔ حکمرانوں کی من مانی پر لگام لگانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور طریقہ موجود نہیں ہے لیکن اس کے لیے عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے حکومت سازی کے ساتھ عوام کی نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت کے اصول کو تسلیم کرنا ضروری ہے کیونکہ بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؎
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
Comments are closed.