’اسلام تلوار کے زور نہیں بلکہ صحابہ ؓکے عالی اخلاق وکردار سے پھیلا ‘

انجمن اہل السنہ والجماعہ کا سہ روزہ اجلاس کے آخری دن مولانا عمرین محفوظ رحمانی، مفتی معصوم ثاقب کا خصوصی خطاب
ممبئی۔۴؍ فروری:(نمائندہ خصوصی) اتوار کو وائی ایم سی اے گرائونڈ میں انجمن اہل السنہ والجماعۃ کے تحفظ ختم نبوت وعظمت صحابہ کانفرنس کا آخری دن تھا۔ اتوار کی وجہ سے بڑی تعداد میں شہرومضافات کے افراد جمع تھے، گرائونڈ میں علماء کی جماعت سے ایک روح پرور منظر تھا۔ اجلاس کے آخری دن آل انڈیا مسلم پرسن لا بورڈ کے سکریٹری مولانا محفوظ رحمانی نے اپنے طویل خطاب میں صحابہ کی عظمت وبزرگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’روئے زمین پر انبیاء علیہم الصلوٰ ۃ والسلام کے بعد سب سے مبارک، سب سے مقدس، سب سے زیادہ ایمانی صفات سے لبریز جماعت کا نام ہے صحابہ کی جماعت، حضرت امام مالک ؒ کا یہ ارشاد کس قدر قیمتی ہے کہ اس روئے زمین پر انبیاء کے بعد ساری کائنات بصری، سب سے زیادہ بہترین، مبارک اور مقدس افراد اگر کوئی ہے تو وہ صحابہ ہیں، ان کے دلوں کی پاکیزگی کی تھی کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کی رفاقت کےلیے ، صحبت کےلیے انہیں چنا،حضرت عبداللہ ابن مسعود ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ نے ساری کائنات انسانی کے افراد کے دلوں پر نظر ڈالی، سب سے مقدس، سب سے مبارک، سب سے پاکیزہ دل حضور ﷺ کا پایا تو اللہ نے آپ کو اپنی نبوت ورسالت کےلیے ، پیغام رسانی کےلیے چن لیا‘‘۔ حضورﷺ کا دل سب سے پاکیزہ ہے، آپ کے قلب سے مبارک قلب کس کا ہوگا؟ دنیا کے انسانوں میں سے کسی کے دل میں دس بیس افراد کی گنجائش ہوتی ہے، کسی کے دل میں ۱۰۰ دو سو افراد کی گنجائش ہوتی ہے تو کوئی بہت دل والا ہے تو ہزار دو ہزار کی گنجائش ہوتی ہے،لیکن اس کائنات میں صرف ایک دل ایسا ہے کہ اگر ساری کائنات سما جائے تو اس کی وسعت کم نہیں ہونے والی، اس قلب کا نام قلب محمدیﷺ ہے۔ حضورﷺ کا دل ساری کائنات انسانی کے درد سے بھرا
ہوا ہے۔ آپ کا قلب اطہر کائنات میں سب سے پاکیزہ ہے ۔ حضورﷺ کے بعد سب سے پاکیزہ دل صحابہ ؓ کے ہیں، اس لیے ان کا انتخاب حضورﷺ کی صحبت ورفاقت کےلیے ہوا، ان کے سروں پر رضائے الہیٰ کا تاج سجایا گیا، اور انہیں ایمانی صفات کی معراج قرار دیا گیا۔ قرآن پاک میں کہیں ان کے ایمان کا تذکرہ ہے، کہیں ان کے اولیت کا تذکرہ، کہیں ایمان کی راہ میں سبقت کا ذکر، کہیں ان کی قربانیاں اور مجاہدات، کہیں ان کا ایثار، کہیں ان کی جفاکشی اورمحنت اور کہیں ان کی نصرت وہجرت سب بیان قرآن پاک میں اس لیے آرہا ہے کہ تاکہ ساری دنیا کے انسان سمجھ لیں کہ صحابہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، وہ بہت اونچے ہیں، اعلیٰ کردار کے حامل ہیں، اور انہیں صحبت نبویﷺ کا شرف ملا جس کے آگے ہر شرف وبزرگی ہیچ ہے۔ صحابہ پوری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا، ’’دی اذانیں کبھی یوروپ کے کلیسیائوں میں، کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں، نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے، زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے‘‘،اس شان کے ساتھ دنیا میں گئے کہ جس علاقے میں گئے اپنی خوشبو بکھیر دی، اخلاص کے پھول کھلادئے، اپنے جذبہ خدمت خلق کی وجہ سے اور عالی اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیا، متعصب لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ، ہم کہتے ہیں کہ تمہارا کہنا سچ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، لیکن سن لو جس تلوار کی زور سے اسلام پھیلا ہے وہ لوہے کی تلوار نہیں تھی، وہ اعلیٰ اخلاق وکردار کی تلوار تھی، اسلام اگر پھیلا ہے تو اخلاق وکردار کی تلوار سے پھیلا ہے، صحابہ نے اپنے اخلاق سے لوگوں کا دل جیتا‘‘۔ قبل ازیں مفتی معصوم ثاقب (جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ) نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، یہ مادی زمانہ کہلاتا ہے، عقل پسندی کا زمانہ کہلاتا ہے، ایک مرتبہ
سرسید احمد خان نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ کو ایک مکتوب میں لکھا کہ ’’مولانا شریعت کی کوئی چیز عقل کے خلاف نہیں ہونی چاہئے، کیوں کہ عقل بھی اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور شریعت بھی اللہ کی نازل کی ہوئی ہے، اگر شریعت واقعی شریعت ہے ، تو اس کا کوئی بھی حکم خلاف عقل نہیں ہوناچاہئے، مولانا نانوتوی نے جواب میںلکھا کہ آپ نے تو معاملہ بالکل الٹا کردیا، کیوں کہ آپ نے عقل کو معیار بنادیا، شریعت کو اس کے تابع کردیا، کسوٹی عقل کو بنادیا ، اور دین کو اس پر پرکھنے کےلیے سونا، چاندی یا مادہ بنادیا، بات اصل یہ ہے کہ عقل کی کوئی بات شریعت کے خلاف نہیں ہونی چاہئے‘‘، اگر عقل کہیں شریعت کے خلاف کچھ بات کہہ دی ہے تو ضروردال میں کالا ہے، جہاں عقل کی تمام پرواز ختم ہوتی ہے ، چونکہ عقل ہر انسان کی مختلف ہے، اور شریعت اللہ کی نازل کردہ ہے، اور وہ صحیح واسطوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ مجدد الف ثانی فرماتے ہیں، احکام اسلام مخالف عقل نہیں ہے۔ ماورائے عقل ہے۔ مخالف اور ماوریٰ میں فرق ہے، عقل کی ایک حد ہے، اس کی مثال سنار کے پاس جو ترازو ہے اس میں ایک تولہ، دو تولہ، تین تولہ وغیرہ تولا جاسکتا ہے، سو کلو کا شکر کا تھیلا نہیں تول سکتے، کیوں کہ اس کی کیپسٹی، قوت ختم ہوجاتی ہے،تو عقل اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر عقل نہ ہوتی تو ہم سردی، گرمی کو نہیں پہنچان سکتے تھے، اچھائی برائی کو نہیں پہچان سکتے تھے، عقل کی وجہ سے ہی ہمیں خدا نے مکلف بنایا ہے۔ آپ علماء سے پوچھیں نماز کس پر فرض ہے، عاقل، بالغ، اور مسلم اسی پر نماز فرض نہیں ہے، اگر ایک آدمی کلمہ نہیں پڑھتا اس پر نماز ہی نہیں فرض ہے، کبھی کبھی لوگ جوش تبلیغ میں جوش ہمدردی میں حدود کو سمجھتے ہی نہیں۔ اجلاس سے دینیات کے مدرس مفتی جنید نے بھی خطاب کیا۔پروگرام کی ابتداء قاری نفیس احمد(استاذ دارالاسلامیہ اندھیری)، نعت نبی کا نذرانہ
حافظ صغیر احمد(استاذ مدرسہ ریاض العلوم فرقانیہ، گوونڈی ) نے پیش کیا۔ نظامت مفتی سعید الرحمان فاروقی (صدر مفتی دارالعلوم امدادیہ ممبئی) نے کی۔ اجلاس کی کارروائی بصیرت آن لائن کے آفیشل یوٹیوب چینل پر لائیو نشر کی گئی۔ پروگرام کا اختتام شیخ طریقت حضرت مولانا قمرالزماں الہ آبادی مدظلہ العالی کی دعا پر ہوا۔اسٹیج پر موجود شہر کے علماء میں مولانا رشید ندوی (کنوینر انجمن اہل السنہ والجماعۃ) مولانا محمود احمد خاں دریابادی( ٹرسٹی مدرسہ امدادیہ ممبئی)مولانا حافظ اقبال چونا والا (رکن مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند) حافظ عظیم الرحمان صدیقی (ناظم اعلیٰ دارالعلوم امدادیہ ممبئی)، نذر کاظمی (پرنسپل صفا ہائی اسکول) مفتی محمد احمد قاسمی (مدرسہ ریاض العلوم مسجد فرقانیہ گوونڈی) مولانا محمدراشد اسعد ندوی(امام وخطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری)، مفتی طہ بھوئیرا (قاضی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)،مفتی شرف الدین عظیم قاسمی (امام و خطیب مسجد انوار گوونڈی) مولانا خان افسر قاسمی، مولانا سعد قاسمی، مولانا ومفتی عبدالباسط قاسمی، مولانا سرور قاسمی وغیرہ موجود تھے موجود تھے۔
Comments are closed.