امارت شرعیہ کے ارکان شوری سے پوچھتا ہے زندہ ضمیر والا انسان

ساجد حسن رحمانی
امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ اور جھاڑ کھنڈ کا تن تنہا ایسا ملی و مذہبی ادارہ ہے ، جو اپنے روشن و تابناک ماضی ، سنہری تاریخ اور عظیم کارناموں کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی اپنی ایک الگ شناخت اور منفرد پہچان رکھتی ہے اور جس پر ان تینوں ریاستوں کے عوام کو فخر اور ناز ہے ، ان ریاستوں کے لوگ امارت شرعیہ سے ایسی بے پناہ قلبی عقیدت ومحبت رکھتے ہیں جو ناقابل بیان ہے ، جس کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان تک کو قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، جہاں تک اس ادارہ کی امداد کی بات ہے تو میں نے امارت شرعیہ میں ایسے لوگوں کو چندہ دیتے ہوئے دیکھاہے جنہوں نے دن بھر دھوپ کی سخت تپش میں مزدوری کرنے کے بعد دو سو روپے کمایا اور سو روپے امارت شرعیہ کے محصل کی آمد پر ان کو دے دیا ، بلکہ ایسے لوگوں کو بھی دیکھاہے کہ جب ان کے دروازے پر امارت شرعیہ کا محصل پہنچ گیا تو پیسہ نہ رہنے کے باوجود قرض لے کر دینے کو اخلاقی وواجبی فریضہ سمجھا اور دیا بھی –
لیکن افسوس کے ساتھ نہ خواہی کے باوجود یہ لکھنا اور بولنا پڑ رہاہے کہ آج ملت کے اسی عظیم اور عیقدت کے مرکز ادارہ کو کچھ لوگ برباد کرنے اور نجی سرمایہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور برباد کرنے کا کھیل امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحب کی وفات کے بعد ان کے منتخب کردہ نائب جناب مولانا شمشاد رحمانی صاحب نے شروع کردیا ، جب مولانا کی وفات ہوئی تو لوگوں کو جہاں ایک طرف ان کی وفات کا شدید غم ہوا تو وہیں دوسری طرف ایک مخلص ، ایماندار، ہمدرد اور بہی خواہ پاسبان ومذہبی قائد کی تلاش کی فکر دامن گیر ہوئی –
بہار کی زرخیز زمین اپنی زرخیزی کی وجہ سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے، یہاں ایسے ایسے علم کے بحر ناپید کنار ، فقیہ ، سائنٹسٹ ، محدث ، مفسر ، منطقی ، قلمکار ، مصنف ، مدرس حکیم اور مذہبی و سیاسی قائد پیدا ہوئے ، جنہوں نے ملک کے ہر صوبہ کے ہر طرح کے عصری ودینی ادارہ کی ضرورت کو پوری کرکے خلا کو پر کیا اور آج بھی الحمدللہ کررہے ہیں –
اس لیے بہار و اڑیسہ اور جھاڑ کھنڈ کی عوام کو جس طرح کے امیر شریعت اور مذہبی قائد کی ضرورت تھی ، ان کی تعداد بہار میں دہائیوں میں نہیں بلکہ سینکڑوں میں تھی ، لیکن اس کے باوجود امیر شریعت کے انتخاب میں شمشاد بھائی کافی ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ، جس کی وجہ سے یہاں کی عوام کی بے چینی و اضطراب میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا ، کچھ سیدھے سادھے لوگوں کا یہ ماننا تھاکہ انتخاب امیر میں تاخیر کی وجہ ان سینکڑوں افراد میں سے کسی ایک اعلی وارفع ذات کے تعین میں کشمکش کی وجہ سے ہورہاہے ، لیکن زیادہ تر لوگ جو شمشاد رحمانی صاحب کی چاپلوسی وخصیہ برداری والی مزاج سے آشنا تھے ، انہیں یقین ہوگیا تھاکہ یہ کسی ایسے نااہل شخص کو امیر بناکر بہار کی عوام وخواص کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہ رہے ہیں جن کی یہ خصیہ برداری و چاپلوسی کے ذریعہ کچھ دنیوی مفاد سے لطف اندوز ہوجائیں اور امارت شرعیہ پر اس غیر اہل امیر کے ساتھ ساتھ ان کی بھی کسی درجہ میں حکمرانی قائم ہوجائے ، اس کے لیے انہوں نے حق کے حامی رکن شوری کی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے اور ایسے افراد کو رکن شوری منتخب کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو ان کے نااہل فرد کو امیر بنانے میں اپنی ساری توانائی صرف کرکے ان کی مکمل حمایت کرے نیز امارت کے جو کارکنان ان کی اس سازشی اور امارت کو برباد کرنے والی راہ بد میں رکاوٹ تھے، یا تو انہیں نکال دیاگیا یا انہیں اپنی حمایت کرنے پر مجبور کر نے کے لئے ان پر ریپ کی الزام تراشی کی گئی ، مثلا مفتی سہیل احمد قاسمی : صدر مفتی امارت شرعیہ اور امام الدین قاسمی کو پوری زندگی امارت کے لیے وقف کرنے باوجود امارت سے نکال باہر کیاگیا ، مولانا شبلی قا سمی پر فہد رحمانی نے پریس کانفرنس کرکے ریپ کا الزام لگایااور اس طرح بے شرمی کی ساری حدیں پار کردینے والا یہ کھیل کئی مہینوں تک کھیلا گیا جس کھیل کے سامنے سیاسی کھیل بھی آج شرمسار ہے اور بالآخر ایک طویل عرصہ تک بہار کے مسلمانوں کو مضطرب رکھ کر اس غیر اہل فرد کو امیر منتخب کرکے ان کے جذبات کو پارہ پارہ کردیاگیا اور اس طرح امارت شرعیہ جو اپنی سوسالہ سنہری اور شاندار تاریخ رکھنے والا بہار ، اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کے مسلمانوں کا واحد ادارہ اور دھڑکتا ہوا دل ❤️ تھا ، اسے رحمانی خاندان کی موروثی جائیداد اور شخصی ونجی ادارہ بنادیا گیا ، جس کے ڈکٹیٹر فی الوقت انجینئر فیصل رحمانی صاحب ہیں جو ملازمین میں سے جسے چاہتے ہیں نکال دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بحال کردیتے ہیں ، انہوں نے امارت شرعیہ میں تملق وچاپلوسی کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بھی بحال کیا ہے ، جنہوں نے اپنے سابق عہدہ پر رہتے ہوئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کا گھوٹالہ کیا ہے ، جسے بہار و اڑیسہ اور جھاڑ کھنڈ کی عوام خوب اچھی طرح جانتی ہے –
اسی طرح امارت کو برباد کرنے والے شمشاد رحمانی صاحب کے آفس کو امریکی انداز میں پانچ لاکھ روپے خرچ کرکے مزین و آراستہ کیا گیا اور اس طرح امارت شرعیہ سے بے حد عقیدت رکھنے والے بے چارے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے خون وپیسینہ کی کمائی سے امارت شرعیہ کو دیئے ہوئے پیسوں کو بے دریغ پانی میں بہا دیا گیا نیز تیس سال سے امارت میں خدمت کرنے والے لوگوں کی تنخواہ اب بھی صرف پندرہ / اٹھارہ ہزار ہے اور جناب شمشاد رحمانی صاحب دوسال قبل امارت میں آئے ہیں اور ان کی تنخواہ پینتالیس ہزار ہے، اور یہ پینتالیس ہزار بھی بذریعہ حیلہ ان کے لیے حلال کیاگیاہے ، کیوں کہ امارت شرعیہ کے اصولوں میں لکھا ہوا ہے کہ امیر شریعت اور نائب امیر شریعت کی کوئی تنخواہ نہیں ہو گی ، ان میں للہ فی اللہ خدمت دین کا جذبہ اور جگر ہونا چاہیے ؛ اس لیے موٹی رقم پر مشتمل ان کی تنخواہ کو حلال بنانے کے لئے یہ حیلہ اختیار کیاگیا ہے کہ امارت میں ایک عہدہ ” منصوبہ ساز” کا گڑھا گیا اور اس عہدہ پر شمشاد بھائی کو فائز کرکے اس تنخواہ کا حقدار انہیں بنا د یاگیا –
*امارت شرعیہ کے ارکان شوری سے عوام وخواص کے سوالات*
اب بہار کی عوام وخواص امارت شرعیہ کے ان ارکان شوری سے (جنہوں نے فیصل رحمانی صاحب کو ٹرسٹ کا امیر بناکر امارت شرعیہ کو چالیس پچاس سال کے لئے امیر شریعت سے خالی کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا ) پوچھتی ہے کہ فیصل رحمانی کو آپ نے کس بنیاد پر ووٹ دیا ؟ امارت شرعیہ کے تعلق سے فیصل رحمانی صاحب کی کیا خدمات ہیں ؟؟؟ کیا شریعت کا امیر کوئی انجینیئر بن سکتاہے ؟؟
کیا وہ شخص جو کل تک داڑھی نہیں رکھ رہاتھا اور اچانک امیر شریعت بننے کے لئے داڑھی رکھ لیا ، اس کو امیر بنانا امیر شریعت کے معزز عہدہ کا مذاق بنانا نہیں ہے ؟؟
کیا امارت شرعیہ شخصی ادارہ ہے یا ملی ؟؟
اگر ملی ادارہ ہے تو باپ کے بعد بیٹا کو امیر بناکر موروثی جائیداد اور نجی سرمایہ بنانے کی کیوں کوشش کی گئی ؟؟
نائب امیر شریعت کے لیے امارت کے اصولوں کے مطابق تنخواہ نہیں ہے تو شمشاد رحمانی کی تنخواہ کیوں ہے ؟؟
جو لوگ تیس سال سے امارت شرعیہ میں ملازمت کررہے ہیں اور شمشاد رحمانی سے زیادہ قابل ہیں ، مثلا مفتی ثناء الہدی قاسمی وغیرہ ان کی تنخواہ اٹھارہ ہزار اور شمشاد رحمانی کو امارت میں گیے دوسال بھی نہیں ہوئے ، ان کی تنخواہ پینتالیس ہزار کیوں ہے ؟؟؟
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بہار کا مسلمان تعلیم میں دلت سے بھی پیچھے ہے ، ایسی صورتحال میں بہار کے غریب اور یتیم بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنا زیادہ ضروری تھا یا شمشاد رحمانی کے آفس کو امت مسلمہ کے خون و پسینہ کی کمائی سے امریکی انداز میں پانچ لاکھ صرفہ سے آراستہ و پیراستہ کرنا ؟؟؟
مولانا شبلی پر ریپ کا الزام صحیح تھا یا غلط ؟؟
اگر صحیح تھا تو پھر وہ امارت شرعیہ کے ذمہ دار تو کیا ایک ملازم کے بھی حق دار نہیں ہیں ، پھربھی انہیں ابھی تک کیوں اس عہدہ پر برقرار رکھا گیاہے ؟؟؟
اور اگر الزام غلط تھا تو فہد رحمانی نے جیسے پریس کانفرنس کرکے الزام لگایا ،ویسے ہی پریس کانفرنس کرکے ا اب تک معافی کیوں نہیں مانگی ؟؟
صحیح فتویٰ دینے کا کا جرم برطرف کرنا ہوتاہے ؟؟؟
اگر نہیں تو مفتی سہیل احمد قاسمی کو امارت شرعیہ کے اصولوں کی دھجیاں اڑا تے وقت صحیح اور تاریخ ساز فتویٰ دینے کی وجہ سے امارت سے کیوں نکالا گیا ؟؟
جب امارت کا اصول بن گیا ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں ملازمین کو ریٹائر کردیاجائے گا تو مولانا اعجاز سابق چیئرمین مدرسہ بورڈ کو ساٹھ سال کی عمر کے بعد کیوں بحال کیاگیا؟؟؟
اگر ارکان شوری سے اس وقت ووٹ دینے میں غلط فہمی ہوگئی تھی یا کسی کے دباؤ میں آکر ووٹ دے دیا تو کیا ابھی اپنی برأت کے اظہار کا وقت چلا گیا ہے ؟؟ نہیں، ہرگز نہیں ، ابھی بھی برأت کے اظہار کا اور حق کی حمایت کا وقت باقی ہے-
کیا اگر کسی عہدہ پر ایسا شخص فائز ہوجائے جو اس کا مکمل حقدار نہ ہو تو کیا اسے عہدہ سے معزول کرنا ممکن نہیں ہے؟؟
اگر ممکن نہیں ہوتا تو غلام محمد وستانوی صاحب کو اہتمام دارالعلوم دیوبند کے منصب سے مستعفی نہ ہونا پڑتا؟؟
اور اگر ممکن ہے تو ارکان شوری کیوں فیصل رحمانی صاحب کو امیر کے عہدہ سے معزول کرکے کسی حقیقی امیر شریعت سے امارت شرعیہ کو مزین نہیں کررہے ہیں ؟؟
یہ وہ اہم سوالات ہیں ، جسے آج بھی بہار، اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کی عوام امارت شرعیہ کے ان ارکان شوری سے پوچھ رہی ہے ، جنہوں نے فیصل رحمانی کو ٹرسٹ کا امیر بناکر امارت شرعیہ کو حقیقی امیر شریعت سے چالیس / پچاس سال تک کے لیے خالی کردیا اور تاقیامت پوچھتی رہے گی اور بروز حشر بھی بارگاہ رب العالمین میں بھی ان اکابرین امارت شرعیہ کے ساتھ مل کر پوچھے گی ، جنہوں نے امارت کو قائم کرنے اور پروان چڑھانے میں اپنا مال ودولت ، جائیداد اور آرام وراحت سب کچھ کو کو بے دریغ قربان کردیا تھا –
اب فیصل رحمانی صاحب کو ووٹ دینے والے ارکان شوری بتائیں ، اس وقت آپ کا کیا جواب ہوگا ؟؟؟؟
وہاں حیلہ اور بہانہ بھی کام نہ آئے گا ؛ کیوں کہ وہ رب العالمین دلوں کی باتوں کو بھی اچھی طرح جانتاہے اور معمولی مفاد ، جس کی خاطر آپ نے ووٹ دیا ہے ، اسے بھی وہ خوب اچھی جانتاہے –
پورے ہندوستان کے مسلمان صدقۂ جاریہ سمجھ کر اس تحریر کو خوب شیئر کریں ، تاکہ امارت شرعیہ موروثی جائیداد کی فہرست سے نکل کر پھر سے پوری ملت اسلامیہ کا ادارہ بن سکے.
Comments are closed.