شاہ کا کھیل ، جھارکھنڈ میں فیل

ڈاکٹر سلیم خان
بہار کے اندر28؍جنوری 2024 کو دوپہر گیارہ بجے نتیش کمار نے استعفیٰ دیا ۔دس منٹ بعد وزیر اعظم نے ان کو مبارکباد دے دی۔ وزیر اعظم کا عہدہ محض بی جے پی یا این ڈی اے تک محدود نہیں ہے۔ 31؍جنوری کورات آٹھ بجے ہیمنت سورین نے استعفیٰ دے کر وزیر اعلیٰ کے عہدے کی خاطرچمپئی سورین کا نام پیش کردیا۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ان کو بھی وزیر اعظم مبارکباد دیتے لیکن مودی جی بھول گئے کہ وہ پورے ملک وزیر اعظم ہیں اس لیے انہوں نے پانچ دن بعد بھی مبارکباد نہیں دی جبکہ وہ فلور ٹسٹ میں بھی کامیاب ہوگئے۔ مودی کی تنگ دلی نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔ پٹنہ میں ۶ گھنٹے کے اندر حلف برداری ہوگئی جبکہ پڑوس کی ریاست جھارکھنڈ میں گورنر نے دعوتنامہ بھیجنے میں ہی چوبیس گھنٹے کا وقت لگا دیا ۔ اس کے سبب پورے چالیس گھنٹے بعد حلف بردادری ہوسکی ۔اس طرح بی جے پی کے’ سب کے ساتھ انصاف اور کسی کا خوشامد نہیں ‘والے نعرے کی قلعی کھل گئی۔ اب ان دونوں حکومتوں کو اعتماد کی اگنی پریکشا سے گزرنے کا مرحلہ تھا اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے وزیر اعظم بننے خواب دیکھنے والے نتیش بابو اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
اس معاملے میں کل کے چمپئی سورین برسوں کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے بتا دیا کہ ’ٹائیگر زندہ ‘ ہے اور لومڑی زندہ دکھائی تو دیتی ہے مگر وہ مر چکی ہے۔ چمپئی سورین نے جھارکھنڈ نے نہ صرف کل یگ کے چانکیہ کو چاروں خانے چت کردیا بلکہ مودی کا سحر بھی توڑ دیا ۔ انہوں نےثابت کردیا کہ بھیا مودی ہے تب بھی بہت کچھ ممکن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ہیمنت سورین معاملے میں بھی وہی کیا جو گیانواپی کے ساتھ ہوا۔ اس نے ہیمنت سورین کی عرضی پر یہ کہہ کر سماعت سے انکار کر دیا کہ پہلے ہائیکورٹ جائیں ۔وہاں پہنچنے کے بعد عدالت عظمیٰ نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس طرح یہ پنگ پانگ کا کھیل چلتا رہا۔ اس دوران بی جے پی والے طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور حزب اختلاف کے رہنماوں نے بھی خوب خراج عقیدت پیش کیا۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا کے بیٹے جینت سنہا کا شمار بی جے پی کے تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے ارکان پارلیمان میں ہوتا اسی لیے انہیں پارٹی نے حاشیے پر لگا دیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سنہا نے بھی ہیمنت سورین کی گرفتاری کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں پر بدعنوانی کی تفتیش ہی نہیں ہوتی اس لیے ای ڈی کے چھاپے درست ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جہاں بی جے پی کی سرکار موجود ہے وہاں بدعنوانی کڑی تفتیش ہوتی ہے اس لیے ای ڈی کو زحمت نہیں کرنی پڑتی ۔ یہ بات اگر درست ہے تو پچھلے دنوں سابق مرکزی وزیر نریندر تومر کے بیٹے کی دو ویڈیو کال ذرائع ابلاغ میں آئی تھیں ۔ اس نے اپنے گھر میں بیٹھ کر رشوت پر تفصیل سے گفتگو کرکے اسے پہنچانے کی خاطراپنا پتہ بتایا تھا۔ اس کے باوجود دہلی پولیس یا مدھیہ پردیش کی سرکار نے کیا کیا؟ سرکار تو دور عوام نے بھی اس بدعنوانی کو کوئی اہمیت نہیں دی اور بڑے زور و شور سے انہیں کامیاب کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے بدعنوانی ہندوستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہوگئی ہے اور ان کو اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن ہیمنت سورین کی گرفتاری اخبارات کی زینت بنی اسی دن مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کو اکانامک آفنس سیل (معاشی جرائم کا شعبہ) نے کلین چٹ دے دی۔ اس نے کہا کہ کئی ماہ کی تفتیش کے بعد بھی اسے اجیت پوار کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ۔ اس رپورٹ کے بعد اب ای ڈی بھی کچھ نہیں کرسکتا اور ویسے بھی وہ کیا کرتا؟ سوال یہ ہے کہ اگر وہ این سی پی سے بغاوت کرکے بی جے پی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا اس صورت میں بھی ان کے خلاف سارے شواہد نظر انداز کردئیے جاتے؟ اس سے پہلے بھی جب وہ بہترّ گھنٹوں کےلیے بی جے پی کے ساتھ آئے تھے تو ان کے خلاف ا ٓبپاشی بدعنوانی کے سارے الزامات ختم کردئیے گئے تھے۔ یہی معاملہ چھگن بھجبل کے ساتھ بھی ہوا ۔ وہ بھی بی جے پی کی واشنگ مشین میں نہا کر پوتر(پاک صاف ) ہوگئے۔ این سی پی پر خود وزیر اعظم نے سات سو کروڈ روپئے کی بدعنوانی کا الزام لگایا تھا جبکہ شیبو سورین کے خلاف جملہ8.46؍ ایکڑ زمین کا الزام ہے جو این سی پی کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس لیے جینت سنہا کی بات اس معنیٰ میں درست ہےکہ جن ریاستوں میں بی جے پی سرکار ہے وہاں بدعنوانی کو گنگا نہلایا جاتا ہے اور جہاں اس کی حکومت نہیں ہوتی وہاں کیچڑ اچھا لا جاتاہے۔
مودی سرکار کی بابت یہ بات عرصۂ دراز سے کہی جاتی ہے کہ اس نے بلااعلان ایمرجنسی لگا رکھی ہے لیکن چندی گڑھ ،بہار اور جھارکھنڈ میں تین دن کے اندر زبردست دھاندلی کرکے اس نے خود اپنے خلاف شواہد پیش کردئیے ۔ جھارکھنڈ پر تبصرہ کرنے والے سارے رہنماوں نے بین السطور یہی بات کہی ہے۔ سب سے پہلے بی جے پی کے رکن پارلیمان ہرناتھ سنگھ یادوکا بیان دیکھیں ۔ انہوں نے کہاہیمنت سورین کے خلاف ای ڈی کی کارروائی بالکل درست ہے لیکن اس کے بعد والا جملہ اور بھی خطرناک ہے ۔ وہ بولے اگلا نمبر اروند کیجریوال کا ہے۔ ویسے حال میں انڈین ایکسپریس نے ای ڈی کے نشانے پر موجود سیاسی رہنماوں کی فہرست شائع کی تو اس میں کوئی بھی حزب اختلاف وزیر اعلیٰ بلکہ سابق وزیر اعلیٰ نہیں بچا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ای ڈی کی مدد سے اپوزیشن مکت بھارت بناکر بی جے پی انتخاب لڑنا چاہتی ہے۔
قدیم اور جدیدایمرجنسی میں یہ فرق ہے کہ اندرا گاندھی نے ایک ساتھ سارے مخالفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا تھا اور کسی کو ساتھ لانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ مودی سرکار کا معاملہ مختلف ہے وہ اپنے مخالف کے سامنے دو متبادل رکھتی ہے۔ پہلی تو یہ کہ وہ اپنی وفاداری بدل کر بی جے پی کے این ڈی اے میں شامل ہوجائے ایسا کرنے والے کے نہ صرف سارے قصور معاف کردئیے جاتے ہیں بلکہ آگے بھی پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جاتاہے مگر جو اس پر راضی نہیں ہوتا اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے یا اعلان جنگ کرکے اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ہیمنت سورین کے ساتھ دوسرا معاملہ ہوا۔ انہوں نے چونکہ نتیش کمار کی بزدلی کے بجائےلالو پر شاد یادو کے دلیرانہ راستے کو اختیار کیا اس لیے سورین کی گرفتاری لالو یادو کا تبصرہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ لالو پرشاد یادو نے کہا :’’جھارکھنڈ کی مقبولِ عام حکومت اور عوام کے چہیتے قبائلی وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو مرکز کی آمریت پسند سرکار معتوب کررہی ہے‘‘۔ لالو پرشاد یادو چونکہ خود بھی اس عتاب کا شکار ہوچکے ہیں اور ہنوز یو رہے ہیں اس لیے ان کا در د محسوس کرسکتے ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے یہ گھناونے ہتھکنڈے کچھ وقت کے لیے پریشان تو کرسکتے ہیں پر پسماندہ ، دلت ، قبائلی ، اقلیتاور حاشیوں پر رہنے والے طبقات کے عزم و حوصلہ کو شکست نہیں دے سکتے۔ لالو پرشادیادو نے اس مسئلہ کی وجہ یہ بتائی کہ:’بی جے پی کا ڈر جگ ظاہر ہے اور عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ’ہم مضبوطی سے ہیمنت کے ساتھ ہیں‘۔
عنقریب اپنی نیائے یاترا( کاروانِ انصاف ) کے ساتھ جھارکھنڈ پہنچنے والے راہل گاندھی نے کہا:’ای ڈی ، سی بی آئی، آئی ٹی وغیرہ اب سرکاری ایجنسی نہیں رہیں۔ اب یہ بی جے پی کا’ حزب اختلاف مٹاو سیل ‘ بن چکی ہیں۔ بدعنوانی میں ڈوبی بی جے پی اقتدار کے نشے میں جمہوریت کو تباہ کرنے کی مہم چلا رہی ہے‘۔یہ بات درست ہے مگر اس میں راہل کا فائدہ ہے کیونکہ اگر بی جے پی ایسی مضحکہ خیز حرکت نہ کرتی تو جھارکھنڈ میں ان کے کارواں کو عوام کی وہ زبردست حمایت نہیں ملتی جو اب ملے گی ۔ اس لیےکہنا پڑے گا کہ شاہ جی نے اپنے حریف کا بھلا کردیا ہے۔ نتیش کمار کی قلابازی کے بعد بہار کے بلند قامت رہنما تیجسوی یادو نے ایکس پر لکھا کہ :’بہار، چندی گڑھ اور اب جھارکھنڈ ! بی جے پی نے ایک ہی ہفتے میں جموریت اور وفاقیت کو تار تار کردیا۔ انہوں نے اپنے والد کی تائید میں کہا کہ :’انتخاب میں ہار کے خوف سے تفتیشی اداروں کی غیر جانبداری ختم کرکے ان ایجنسیوں کی مدد سے مرکزی حکومت جو کچھ کررہی ہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ غرور سے چور بی جے پی کی ہیکڑی اب عوام توڑیں گے۔ تیجسوی کی بات درست ہے لیکن ملک کے لوگ ان توقعات پر پورے اتریں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ہیمنت سورین نے چمپئی سورین کے ساتھ مل کر مودی اور شاہ کو29کے مقابلے 47 سے جو پٹخنی دی ہے اسے وہ جلد بھلا نہیں سکیں گے۔
Comments are closed.