Baseerat Online News Portal

کمیونل مسلمان

مدثراحمد
شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
لفظ فرقہ پرستی ہمارے درمیان ایک ایسا لفظ ہے جو ہرکوئی استعمال کررہاہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں فرقہ پرستی عروج پرہے،ہر طرف فرقہ پرستی کا قہر چھایاہواہے،فرقہ پرست لوگ مسلمانوں پر ظلم ڈھارہے ہیں۔فرقہ پرستی کی وجہ سے امن وامان ختم ہورہاہے۔یقیناً فرقہ پرستی ایک ایسی وباء ہے جس سے سماج ومعاشرے کاخاتمہ تیزی کےساتھ ہورہاہے اور اس وباء کی وجہ سے ترقی یافتہ سماج کی بنیاد رکھنا ناممکن ہورہاہے۔جب بھی فرقہ پرستی کی بات کی جاتی ہے تو مسلمانوں کے سامنے ہندوئوں کے وہ چہرے سامنے آتے ہیں جن کے ماتھوں پر تلک،ہاتھوں میں ہتھیار،بدن پرکیسری لباس اور زبان پر جئے شری رام کےنعرے رہتے ہیں۔لیکن مسلم معاشرے میںجو فرقہ پرستی ہے اُس کی نشاندہی خود مسلمان نہیں کرنا چاہ رہے ہیں،جس قدر فرقہ پرست لوگ ہندو معاشرے میں ہیں اُ س سے کہیں زیادہ فرقہ پرستی مسلمانوں میں پنپنے لگی ہے،یہ فرقہ پرستی باہمی عداوت،دوسروں سے زیادہ اپنے آپ کو ترجیح دینا،دوسروں کے خیالات کو کمتر اور اپنے خیالات کو بہتر ماننا،دوسروں کے طریقہ عمل کو ادنیٰ اور اپنے طریقہ عمل کو اعلیٰ سمجھنا،دوسروں کے عقائد کو کمتر اور اپنے عقائدکو بہتر ماننا آج عام بات ہوگئی ہے،یہی اصل میں فرقہ پرستی ہے۔بھارت میں گذشتہ دو دن میں ہونےوالے ایسے واقعات کا ہم ذکر کرینگے جس سے اہل علم طبقے میں کس قدر فرقہ پرستی ہے، اس کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ناسک میں ایک دیوبندی فکرکے نوجوان کو بریلوی طبقے کے کچھ لوگوں نے پیٹھ کر اُس سے زبردستی مسلک اعلیٰ حضرت زندہ باد کہلوانے لگے،زبردستی اُسے مزاروں اور خانقاہوں کی تعظیم کرنے کیلئے کہلوایاگیا،اُس کی داڑھی نوچی گئی اور پائجامہ کو زبردستی ٹخنوں سے نیچے اتروایاگیا۔اس سلسلے میں سوشیل میڈیامیں یہ بحث تھی کہ جس کسی نے بھی اس حرکت کو انجام دیاہےاُس نے بہت اچھاکام کیاہےبد عقیدہ لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا برتائو کرناچا ہیے۔دوسرا معاملہ اہلسنت والجماعت کے مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری کے تعلق سے ہے،مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری کے بعد اپنے آپ کو علمائے دیوبندکہنےوالے کچھ لوگوں نے اپنے تبصروں میں یہ کہاکہ یہ بدعتی ہے،اس کی گرفتاری درست ہے ،وہ دیوبندفکرکو غلط کہتاہے،اس لئے اس کے ساتھ جو ہوادرست ہے،اگر علمائے دیوبنداس کی تائیدکرتے بھی ہیں تو سب سے پہلے یہ شرط رکھنی ہے کہ رہائی کے بعد وہ دیوبندی افکارکے خلاف کچھ نہیں کہے گا۔ان دونوں معاملات میں کس طرح کی شدت پسندی ہے،عام لوگ خود اندازہ لگائیں۔مسلمان شائد حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺنے جو خطبہ دیاتھا وہ بھول گئے ہیں،جس میں اللہ کے رسولﷺنے کہاکہ
"ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔ (ربیعہ بن حارث آپ کا چچیرا بھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا)اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔لوگو! تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کیے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو”۔دراصل یہ اقتباس اللہ کے رسولﷺکے خطبے کاہے جو صرف اس مضمون کے لحاظ سے اخذ کیاگیاہے،جب اللہ کے رسولﷺنے اُمت مسلمہ کو عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کسی بھی طرح کی فضیلت نہ ہونے کی بات کہی گئی ہے تو یہاں پر کس طرح سے کلمہ گو مسلمان عقائد کی بنیادپر ایک دوسرے کا دشمن بناہواہے،یہ فرقہ پرستی کی بدترین مثال ہے۔آر ایس ایس والے کمیونل،بی جے پی والے کمیونل،ہندو کمیونل،یہودی کمیونل کہنےوالے مسلمان خودہی مسلمانوں کے معاملات کو لیکر کتنے کمیونل بنتے جارہے ہیں یہ افسوس کا مقام ہے۔جب اللہ کے رسول ﷺنے کہاکہ تم سب آدم کی اولادمیں سے ہواور آدمی مٹی سے بنے تھے۔اس تاریخی جملے کے باوجود آج مسلمان کس قدر کمیونل بنتے جارہے ہیں یہ سوچنے کا مقام ہے۔مسلمانوں کیلئے ملک کی سرزمین تنگ ہونے کی بات تو ہم کررہے ہیں،لیکن اس سے کہیں زیادہ فکر مسلمانوں کی سوچ میں تنگی آرہی ہے۔جب تک اس کمیونلزم کو چھوڑکر ایمان اور اس کی بنیادوں کے تحت سوچانہیں جاتا،اُس وقت تک ہر طرف سے تنگی ہی تنگی ہوگی۔جب ہم اس طرح کی باتیں کہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اہل علم طبقے کا سوال ہوتاہے کیا آپ مدرسے کے فارغ ہیں یاپھر کتنی نمازوں کے پابندہیں،آپ کس قدر قرآن کو گہرائی سے جانتے ہیں،جبکہ آپ نے مدرسہ پڑھاہی نہیں۔دراصل اسلام کو سمجھنے یا عمل کرنے کیلئے مدرسے کے فارغین میں سے ہونا ضروری نہیں ہے،بلکہ اسلام عمل ،عقل اورجاننے سے زندگی میں آتاہے،رہی بات نماز،ٹوپی،ڈاڑھی اور جبہ کی ،وہ تو اللہ اور بندے کے درمیان کے معاملات ہیں۔لیکن دنیامیں جب تک رہینگے اس کیلئےحقوق العباد پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے اور عجمی کو عربی پر یا عربی کو عجمی پر اہمیت وفوقیت دینے کی ضرورت نہیں ہےاوریہی وقت کا تقاضہ ہے۔

Comments are closed.