Baseerat Online News Portal

قاری و مقری احمد اللہ صاحب : فن میں باکمال اور شخصیت میں دل آویز

 

ولادت:12 ربیع الآخر 1363 ہجری مطابق 5 اپریل 1944 عیسوی

وفات: 29 رجب المرجب 1445 هجری مطابق 10 فروری 2024

از قلم: راشد اسعد فاضل جامعہ ڈابھیل ثم ندوی

(امام وخطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی )

 

ستارےٹوٹتےرہتے ہیں روزوشب لیکن

غضب تویہ ہےکہ اب آفتاب ٹوٹا ہے

 

قرآن کریم محفوظ کلام الہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم تک من وعن قرنا بعد قرن سینوں اور سفینوں سے پہنچا ہے ; اپنے نزول کے زمانے سے آج تک بسند متصل تواتر وتسلسل کے ساتھ اس کی کتابت ،قراءت و سماعت اور تعلیم و تعلم جاری و ساری ہے، امت کے بے شمار خوش نصیبوں نے اپنی عمرہائے گراں مایہ قرآن کریم کے ساتھ والہانہ وابستگی بلکہ وارفتگی میں بسر کر کے بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و سلم سے خیارکم (امت کا سب سے بہترین طبقہ ) کا تمغہ و خطاب حاصل کیا ; تراجم وسیر کی کتب ان کے عظیم الشان مآثر اور حیرت انگیز کارناموں سے دولت بداماں ہے فجزاهم الله عنا وعن جميع المسلمين خير الجزاء

یہ راقم سطور اور مجھ جیسے ہزاروں تلامذہ کی سعادت مندی اور بخت کی بلندی کی بات ہے کہ ہمیں بڑے قاری صاحب کی شکل میں اسی ہر دم رواں دواں نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو قافلہ کا راہرو نہیں بلکہ قافلہ سالار میسر ہوا جو ایک طرف اپنے فن میں کمال رکھتا تھا تو دوسری طرف دل آویز شخصیت کا مالک تھا ۔

فن کے کمال کا اعتراف اساتذہ و تلامذہ سمیت امثال و اقران نے بھی کیا ہے چنانچہ قاری ابوالحسن اعظمی صاحب دامت برکاتہم ہمارے دادا استاذ شیخ القراء قاری محمد کامل صاحب نور الله مرقده کے تلامذہ کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں *”دور آخر کے تلامذہ میں قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری ہیں آپ نے استاد کا نام روشن کیا ہے اور گجرات کے مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل میں شعبہ تجوید و قرآءت کے صدر ہیں اور قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں”* ,(حسن المحاضرات في رجال القرآءت جلد 2 ص:305)

بڑے قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کا شمار ان دو بزرگوں میں ہے (دوسرے قاری انیس احمد فیض آبادی رحمة الله عليه) جنہوں نے خطہ گجرات میں ماحول کی ناسازگاری اور فن کی طرف سے بے اعتنائی کے باوجود انتھک جد و جہد اور شبانہ روز تگ و دو سے فن تجوید اور علم قرءآت کے حصول کی عمومی فضا بنانے کا قابل رشک کارنامہ انجام دیا ہے جس کے مثبت و دور رس اثرات گجرات سے نکل کر نہ صرف ملک کی دوسری ریاستوں تک پہونچے بلکہ دنیا کے دوسرے قابل ذکر ممالک تک بھی پہونچے

 

جہاں جہاں تمہیں نظر آئیں لہو کے چراغ

مسافران محبت ! ہمیں دعا دینا

 

(تفصیل کے ملاحظہ فرمائیں "تجوید و قرآءت کے اسباب زوال اور نشأة ثانية از قاری صدیق صاحب سانسرودی متعناالله الله بطول حياته مع الصحة والعافية)

 

بڑے قاری صاحب کی شخصیت کی دل آویزی کا حال *من رآه بديهة هابه ومن خالطه معرفة احبه* تھا کوئی اول وہلہ میں آپ کے سامنے آتا تو پیکر جمیل اور بارعب شکیل چہرے کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتا

 

تیرے رعب حسن سے چپ ہیں سب

میں بھی چپ رہوں تو مزہ ہے کیا

 

مگر جب کوئی شخص آپ کے قریب ہوجاتا اور اسے آپ سے گفتگو و مخالطت کا شرف حاصل ہوتا تو پھر دل گواہی دیتا کہ *کرشمہ دامن دل می کشد جا ایں جا است* پھر آپ کی فکر و آگہی اور علم و فن کے جواہر کھلتے نیز لطف و مزاح کی باتیں بھی ہوتیں اور حالات حاضرہ پر چشم کشا تبصرے نہیں بلکہ قرآنی رہنمائی ملتی تھی۔

جن خوش نصیبوں کو حضرت ممدوح سے شرف تلمذ حاصل ہے وہ تو شب و روز آپ کی شخصیت کی دل آویزی سے متمتع ہوتے اور آپ کے طرز تدریس، پند و نصیحت اور مخصوص لب و لہجے میں تنبیہ و سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ میں مہر مادری کی ٹھنڈک اور شفقت پدری کی گرمی محسوس کرتے;

یقین ہے کہ تلامذہ و شاگردان مذکورہ حقیقت کی تصدیق و تائید کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے

درصل حضرت قاری صاحب کی شخصیت قرآن کریم کے لیے وقف تھی اور آپ کی شبانہ روز جد و جہد اسی کے سایہ عاطفت میں ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ آپ کا تہجد میں قرآن کریم کی تلاوت کا مستقل معمول تھا ،اسی وقت طلبہ کا قرآن باجراء سبعہ بھی سنتے بلکہ ختم قرآن کی مجلس و دعاء بھی اسی وقت ہوتی چنانچہ راقم سطور کی جماعت کا ختم قرآن بھی اسی وقت ہوا تھا اور حضرت قاری صاحب کی سوز وگداز سے لبریز دعاؤں کی یادیں اب بھی دل و دماغ میں تازہ ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ انہیں دعاؤں کے صدقے طفیل میں ہم جی رہے ہیں ورنہ *ہم کیا ہیں ? جو ہم سے کچھ کام ہوگا* نیز جامعہ میں امامت کے دوران فجر کی نماز میں آپ نے مکمل قرآن کریم متعدد بار پڑھا ،آپ جب درس گاہ میں مشق کرا رہے ہوتے تو محسوس ہوتا کہ قرآن کریم کے معانی میں غوطہ زن ہیں اور تدبر و تفکر کے آثار چہرے بشرے سے ظاہر ہوتے ،اور جب طلبہ سے قرآن کریم سن رہے ہوتے تو *ترى اعينهم تفيض من الدمع* کا منظر سامنے ہوتا اور قرآت و سماعت کی مجلس روحانی و عرفانی مجلس میں تبدیل ہوجاتی قرآن کریم کی اسی اثر پذیری سے بہرہ ور ہونے کے پیش نظر حضرت قاری صاحب لہجہ کی سادگی کے ساتھ ادائیگی کی پختگی کو پسند فرماتے اور قراء کی نقل کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں فرماتے

موجودہ زمانہ میں عوام کا تو ذکر ہی کیا ہے خواص بھی بزرگوں کی کرامت تلاش کرتے ہیں اور ان سے کسی انہونی بات کے صدور کے خواہاں ہوتے ہیں حالانکہ یہ کوئی امر ضروری نہیں تاہم اس سلسلہ میں قابل ذکر اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم طلبہ میں مشہور تھا کہ جس طالب علم کو بڑے قاری صاحب کا گرم طمانچہ پڑ جاتا ہے وہ قاری ہوجاتا ہے

اسی سلسلہ میں ایک پتہ کی بات کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ "امام اعظم ابو حنیفہ رحمة الله علیہ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالٰی کے ولیوں کو کہاں تلاش کیا جائے تو فرمایا: قرآن پڑھنے والوں میں کہا گیا کہ ان میں تو کرامتیں نہیں دکھائی دیتیں تو فرمایا کہ کہ اگر ان کو خدا کا ولی نہ تسلیم کیا جائے تو روئے زمین پر خدا کا کوئی دوست نہیں ہو سکتا (تذکرہ قاریان ہند ج 1 ص 3)

Comments are closed.