ازدواجی مسائل کا سماجی صلح اور عورتوں کے ساتھ ناانصافی

 

ایڈووکیٹ یعقوب مرتضیٰ

 

ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ ایک مسلم خاتون، قانونی صلاح اور امداد کی خاطر اپنا معاملہ لے کر میرے پاس آئیں۔ ان کے خاوند نے انہیں حال ہی میں واٹس ایپ پر میسج کے ذریعے طلاق دے دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ دس سال قبل ان کی شادی ہوئی تھی اور ان کے پاس بچے بھی ہیں۔ وہ اپنی ازدواجی زندگی کا واقعہ سنانے لگی۔ وہ مجھے اپنے شوہر کے ظلم و ستم کے دردناک واقعات سنا رہی تھی اور میں سنجیدگی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل ان کے شوہر نے ایک سماجی بیٹھک بلا کر ازدواجی مسائل، سماج کے سامنے رکھا تھا جہاں اس بیٹھک میں شامل، سماجی شخصیات نے صرف خاوند کی بات سنیں اور عورت کو یہ کہ کر خاموش کرا دیا گیا کہ تم بولو گی تو معاملات اور خراب ہو جائیں گے اس لیے تمہیں جب بلایا جائے تو سماجی شخصیات کے سامنے چپ چاپ جاکر معافی مانگ لینا۔ یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا کہ آخر ہمارا سماج ایسا کیسے کر سکتا ہے؟

 

زوجین کے مابین ازدواجی مسائل میں سماجی طور پر صلح کرانا اچھا عمل ہے جس کی ستائش کی جانی چاہئے: لیکن ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے صلح کے نام پے عورتوں کی آواز کو دبا دینا اور انہیں اپنے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے واقعات سنانے کا موقع نہ دینا سراسر ظلم اور کھلی ناانصافی ہے۔ صرف خاوند کو بولنے اور اپنا پہلو رکھنے کا موقع دینا اور سننا، دینی اور سماجی برابری کے خلاف ہے جس کی اصلاح مسلم سماج کو کرنا چاہیے۔

 

میں یہ نہیں کہتا کہ ازدواجی زندگی میں عورتوں سے غلطی نہیں ہوتی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف عورت ہی غلطی کرتی ہے اور خاوند سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ غلطی چاہے عورت کی دس ہو اور مرد کی پانچ یا اس کے برعکس: لیکن غلطی غلطی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نمبر کے کم و بیش ہو جانے سے غلطی غلطی ہی نہیں رہتی۔ لیکن صلح کے نام پے، مسلم سماج، عورتوں کو اس بات کا موقع ہی نہیں دیتا کہ وہ سماج کے سامنے مظالم کی وہ دردناک کہانی سنا سکے جو ان کا شوہر ان کے ساتھ گھر کی چار دیواری کے اندر کرتا ہے۔ اگر ان مظلوم عرتوں کو بولنے کا موقع دے دیا جائے تو وہ درندگی، سفاکیت اور حیوانیت کی ایسی دردناک کہانی سنائیں گی جسے سن کر سماج کے ہوش اڑ جائیں گے۔ چنانچہ، عورتیں، اکثر و بیشتر گناہگار اور مجرم ثابت کردی جاتی ہیں اور ان سے ہی کہا جاتا ہے کہ وہ غلط ہیں، اس لیے وہ اپنے شوہر سے معافی مانگیں اور ان کو مجبوراً معافی مانگنا بھی پڑتا ہے۔ مگر دوسری طرف شوہر اپنے آپ کو ہر غلطی سے بری اور فرشتہ سمجھتا ہے۔ نیز یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پورا سماج اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسا اس لیے کہ سماج، عورت کو شوہر کا جرم ہی ثابت کرنے نہیں دیتی۔

 

سماج کے وہ افراد جو ازدواجی مسائل کا سماجی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں ازدواجی مسائل کے اسباب و محرکات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ کیا شوہر اپنی بیوی کے حقوق ادا کرتا ہے یا نہیں اس بات پے بھی توجہ دینا اہم ہے۔ لہذا اگر ازدواجی زندگی میں ہوئی غلطی کی وجہ سے عورت کو قصوروار ٹھہرا کر اسے معافی مانگنے کے لیے کہا جا سکتا ہے تو اسی ازدواجی غلطی کے لیے مرد کو قصوروار کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا اور اسے سماجی سزا کیوں نہیں دی جاتی؟

 

یہ وہ سماجی مسئلہ ہے جس کا حل خود مسلم سماج کو تلاش کرنا ہوگا۔ جب تک ہم سماجی طور پر ظلم و ناانصافی پے روک تھام نہیں لگائیں گے اور عورتوں کے ساتھ عدل و مساوات نہیں کریں گے، ہماری خواتین عدالت کا دروازا کھٹکھٹانے پر مجبور ہوں گی۔ اور تب ہم کہتے ہیں کہ سرکار اور عدالت ہمارے عائلی قوانین میں بےجا مداخلت کرتی ہیں۔ سرکار اور عدالت جہاں ہمارے عائلی قوانین میں مداخلت کرتی ہیں، وہیں وہ ہمیں ہماری سماجی برائیوں کا آئینہ بھی دکھاتی ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جب ہمارے سماج کا کوئی فرد اپنی بیوی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے تو ہم اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس کے غلط اقدام پے روک تھام لگائیں اور عورتوں کے ساتھ عدل و انصاف اور برابری کا وہ سلوک کر کے دکھائیں جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔

Comments are closed.