Baseerat Online News Portal

برکینا فاسو : مسجد کے اندر فائرنگ ، درجنوں نمازی ہلاک

بصیرت نیوزڈیسک
افریقی ملک برکینا فاسو میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک مسجد میں فجر کی نماز کے وقت درجنوں افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جس دن مسجد پر یہ حملہ ہوا، اسی روز ایک چرچ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
مسجد کے اندر فائرنگ کا واقعہ فجر کی نماز کے دوران ہوا، جہاں بندوق برداروں نے نتیابوانی قصبے میں مسجد کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ حملہ اتوار کی صبح ہوا۔
مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق موٹر سائیکلوں پر سوار مشین گنوں سے لیس سینکڑوں عسکریت پسندوں نے اس حملے کو انجام دیا۔
سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسجد پر حملے میں مرنے والوں کی تعداد حکام کی طرف سے دی گئی گنتی سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
نتیابوانی، جہاں پر یہ حملے ہوئے، برکینا فاسو کا شورش زدہ مشرقی علاقہ ہے، جہاں متعدد مسلح گروپ سرگرم ہیں۔
قصبے کے ایک مقامی باشندے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ”متاثرین میں سبھی مسلمان تھے، جو مسجد میں نماز ادا کرنے پہنچے تھے اور ہلاک ہونے والے بیشتر مرد ہیں۔”
سکیورٹی سے وابستہ ایک دیگر شخص نے ایف پی کو بتایا کہ ”مسلح افراد نے صبح کے تقریباً پانچ بجے نتیابوانی میں ایک مسجد پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کئی درجن افراد ہلاک ہو گئے۔”
ایک اور مقامی ذرائع نے بتایا، ”دہشت گرد صبح سویرے قصبے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مسجد کا محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں پر گولیاں چلائیں، جو وہاں فجر کی نماز کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جن میں ایک اہم مذہبی رہنما بھی شامل ہیں۔”
جس روز مسجد پر حملے میں درجنوں افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا اسی دن ملک کے شمال مشرق میں ایساکانے میں ایک کیتھولک چرچ پر بھی حملہ کیا گیا جس میں، کم از کم 15 افراد ہلاک ہوگئے۔
جب حملہ ہوا تو چرچ کے اندر اجتماع منعقد کیا جا رہا تھا۔ چرچ کے ایک اہلکار نے کہا کہ اس کے ذمہ دار مشتبہ اسلام پسند عسکریت پسند ہیں۔
حکام نے دونوں حملوں کے درمیان باضابطہ طور پر کسی تعلق کی کوئی بات نہیں کی ہے۔ تاہم مقامی میڈیا نے اس حوالے سے سوال ضرور اٹھائے ہیں کہ یہ کہیں کسی ایک مربوط سازش کا حصہ تو نہیں ہے۔
برکینا فاسو میں مذہبی مقامات اور شخصیات پر حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسے حملے کئی بار ہو چکے ہیں۔
پانچ برس قبل ایک پادری کو شمالی قصبے جیبو سے اغوا کیا گیا تھا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ سن 2021 میں اسی قصبے جیبو کی ایک مرکزی مسجد کے امام کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا اور کچھ دن بعد وہ مردہ پائے گئے تھے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ برکینا فاسو کا بحران دنیا کے سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے بحرانوں میں سے ایک ہے۔
کئی برسوں سے جاری تشدد کے سبب بڑھتے ہوئے عدم تحفظ نے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے ایک چوتھائی کی کم غذائیت کے سبب نشوونما رک گئی ہے۔
دو برس قبل فوج نے باغیوں کے خلاف جنگ جیتنے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، لیکن تشدد بدستور جاری ہے۔

 

Comments are closed.