پہلی ہی فہرست میں بی جے پی کےپسینے چھوٹ گئے

 

ڈاکٹر سلیم خان

377؍ نشستوں کا خواب دیکھنے والی بی جے پی نے اپنے نصف سے زائد یعنی 195 ؍متوقع کامیاب ہونے والوں کے نام کا اعلان کردیا لیکن اس سےوہ توقع پوری نہیں ہوئی کہ وزیر اعظم اپنے سارےحریفوں کو ٹھکانے لگاکر اپنے بل بوتے پر انتخاب جیت لیں گے ۔ اس پہلی فہرست میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور نتن گڈکری  سمیت تیس وزراء کے نام شامل ہیں ۔ مودی اگر ان دو بڑےحریفوں   کو نہیں ہٹاسکے تو   کس کو ہٹائیں گے؟    جن سابق وزرائے اعلیٰ  سربانند سونوال ، بپلب کمار دیب اور شیواراج جن کو نااہل سمجھ کر ہٹا دیا گیا تھا اب پارلیمانی انتخاب میں قسمت آزمائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ان  لنگڑے گھوڑوں کی ضرورت کیوں  آن پڑی؟ 42؍ غیر اہم ارکان  کو ہٹانا تو یہی ثابت کرتا ہےکہ دس سال بعد بھی خود ساختہ  وشوگرو میں  اپنی ہی پارٹی کے کسی طاقتور رہنما کو ہٹانے کی سکت نہیں ہے۔ دہلی کے اندر مرکزی وزیر  میناکشی لیکھی کی جگہ سشما سوراج کی بیٹی  بانسری سوراج  سے بھی  نہ تو کمل کی بانسری  بجے گی اور نہ بھونپوں  بولے گاکیونکہ اس بار کانگریس کے ہاتھ میں  عآپ کا جھاڑو ہے   ۔ دارالخلافہ دہلی میں حزب اختلاف  کے اتحاد سے خوفزدہ بی جے پی نے سابق وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کو غیر معروف پروین کھنڈیلوال سے بدل دیا۔

 ایوان پارلیمان میں  دانش علی کو ’اگروادی‘ ’کٹوا‘،’آنتک وادی‘ اور’بھڑوا‘جیسے القاب سے نوازکر سنگھی تہذیب وتربیت سے روشناس کرنے  والے رمیش بھدوری کا ٹکٹ کٹ گیا ۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں رمیش بدھوری کو 687,014 ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے حریف اورعام آدمی پارٹی کے امیدوارراگھو چڈھا کو 3,19,971؍ اور کانگریس امیدواروجیندرسنگھ کو 1,64,613 ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اس طرح سے رمیش بدھوری کو 3,67,043 ووٹ کے فرق سے جیت ملی تھی اور انہیں کانگریس و عآپ کے اتحاد  سے کوئی خطرہ نہیں تھا پھربھی  ٹکٹ کا کٹنا   بدزبانی کی سزا ہے۔رمیش  بھدوری کے علاوہ دہلی    کے رکن پارلیمان اور مرکزی پرویش ورما کو  بھی کمل جیت جیسے کاونسلر سے بدل دیا گیا ۔یہ وہی صاحب سنگھ ورما کے فرزند ارجمند ہیں جنھوں  نے سی اے اے کے خلاف  شاہین باغ کے مظاہرین کے بارے میں کہا تھا : "یہ تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری بہن بیٹیوں کو ریپ اور قتل کریں گے”۔ بدنام زمانہ کپل شرما کی دال گلی ۔

انتخابی مہم کے دوران پھر سے اگر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ  دہلی  آئیں گے تویہ نہیں کہیں گے کہ : "یہ بولی کی بھاشا نہیں مانے گا تو گولی کی بھاشا سمجھے گا”کیونکہ پچھلے اسمبلی الیکشن  میں  امیت شاہ کی شاہین باغ کا  کرنٹ اتنی زور سے لگا تھا کہ وہ اب   بھی اس کے جھٹکے محسوس کررہے ہیں۔مغربی بنگال میں بنگلا دیشی ہندووں کی  خوشنودی  کے لیے بی جے پی نے سی اے اے کو نافذ کرنے کا فیصلہ کرکے آسامیوں کو ناراض کردیااور وزیر اعلیٰ  ہیمنت بسوا سرما کی نیند اڑا دی ۔  اس نقصان کی برپائی کے لیے پانچ سابق ارکان پارلیمان کی چھٹی کرنی پڑی۔ مدھیہ پردیش کے جملہ 28 میں سے 11 ارکان پارلیمان کے ٹکٹ کٹے۔ ان بے آبرو ہوکر نکلنے والوں میں سادھوی پرگیہ بھی شامل ہے۔ ان کی پیٹھ میں ایسے وقت چھرا گھونپاگیا جب مالیگاوں دھماکے کامعاملہ زیر سماعت ہے۔ گوڈسے کی مداح اور ہندو راشٹر کا حامی پرگیہ کی چھٹی  سےمسلم دشمنی اور رام بھگتی کو کامیابی کی گارنٹی سمجھنے والوں کی عقل ٹھکانے آگئی ۔ بی جے پی  سابق  کانگریسی جیوتردیتیہ سندھیا کا ٹکٹ کاٹنے کی ہمت نہیں کرسکی  جن سے مقامی سنگھی رہنما ناراض ہیں یا شیوراج سنگھ کونظر انداز کرنے کی   جرأت  بھی  نہیں کرسکی ۔ اس سے پتہ چلتا ہےاوپر سے شیر کی مانند دہاڑنے والے وزیر اعظم اندر ہی اندرکتنا ڈرتے ہیں؟

مدھیہ پردیش  میں سابق مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ  تومر کو وزارت اعلیٰ کا لالچ دے کر اسمبلی کا انتخاب لڑادیا گیا تھا  مگرکامیابی کے باوجود  معمولی وزیر بھی نہیں بنایا گیا اور وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔  الور کے رکن  پارلیمان مہنت بالک ناتھ کو اسمبلی الیکش لڑاکر یہ امکان پیدا کیا  گیا  کہ  اترپردیش کی مانندراجستھان میں  بھی ایک  سادھو کو وزیر اعلیٰ بناکریوپی کی طرح  ہندوتوا کی سیاست کھیلی جائے گی لیکن یوگی ادیتیہ ناتھ سے پریشان بی جے پی ہائی کمان نے یہ خطرہ مول نہیں لیا ۔ اس لیے     ب بالک ناتھ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ان کے حلقۂ انتخاب سے مرکزی وزیر بھوپندر یادو ٹکٹ کو دے کر بی جے پی نے بالک ناتھ کو اسمبلی میں بھیجنے کا  مقصد بتا دیا ۔راجستھان کی  زبردست کامیابی کے بعد بھی بی جے پی نے بانسواڑہ  اور ناگور سے مہندر جیت سنگھ مالویہ اور جیوتی مردھاکوٹکٹ دے کر بی جے پی ہائی کمان نے یہ ثابت کیا کہ اس کے نزدیک   کانگریسی غداروں کی اہمیت سنگھی وفاداروں  سے  زیادہ ہے۔ مغربی بنگال  میں علی پور دوار سے کامیاب ہونے والے جان بارلا کو اقلیتی وزیر مملکت   بنانے کے بعد کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا اس لیے متوقع ناکامی کے ڈر سے انہیں منوج ٹگاّ سے بدلنا پڑا۔

 ملک کا کسان فی الحال  مودی سرکار کے خلاف احتجاج کررہاہے  اس   کے باوجود کسانوں پر دن دہاڑے گاڑی چڑھانے والےآشیش مشرا کے باپ  وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا کو لکھیم پور کھیری سے ٹکٹ دینا ثابت کرتا ہے کہ اب بھی بی جے پی ہائی کمان  کا اس میں شامل غنڈوں اور  بدمعاشوں پر زور نہیں چل پاتا۔     غیر سماجی عناصر کے ساتھ  تعلقات کے لیے بدنام مہاراشٹر کے سابق کانگریسی رہنما جونپور سے ٹکٹ  حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ رام مندر  کے بعد بھی اگراترپردیش میں  بی جے پی کو انتخاب جیتنے کے لیے سابق کانگریسی کی ضرورت  بتاتی  ہے کہ ’جورام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے‘ کا نعرہ کارگرنہیں  ہے۔ تلنگانہ میں حکومت سازی کا خواب بیچنے والے امیت شاہ کو  بی آر ایس سے آنے والے تین اور ایک سابق کانگریسی وِشویشور ریڈی   کو بھی  ٹکٹ  دینا پڑا۔

بی جے پی کی ان 195 سیٹوں  میں سے 150پراس نے کامیابی درج کرائی تھی ان میں  80 لوگوں کے ٹکٹ کا کٹنا ان کی نااہلی کااعتراف ہے۔ اس  فہرست میں پندرہ  فیصد یعنی صرف 28 خواتین امیدوارہیں ۔ اس سے ایوان پارلیمان میں خواتین ریزرویشن  بل کے  جھانسے کا پول کھل گیا کیونکہ اگر ٹکٹ ہی نہیں دیا جائےگا تو ان کی نمائندگی کیسےہو گی؟  بی جے پی کی لغت کےنوجوان 47  یعنی پچاس فیصد سے کم  ہیں لیکن سنگھ پریوار میں چونکہ دودھ کے دانت  دیر تک رہتے ہیں اس لیے ان کی عمر 50 سال تک ہے۔ بی جے پی نے 27 ایس سی ،18 ایس ٹی اور 56؍پسماندہ سماج کے امیدواروں کو   ٹکٹ دے کر راجہ ہریش چندر کی قبر پر لات مارنے کی کوشش کی مگر معاشرے کے پندرہ فیصد نام نہاد اونچی ذاتوں کوپہلی ہی فہرست میں 48فیصد نمائندگی دے کر واضح کردیا کہ سماجی انصاف سے متعلق اس کی کتھنی اور کرنی میں کتنا بڑا فرق ہے۔

مسلمانوں سے خداواسطے کا بیر رکھنے والی بی جے پی نے نہ جانے کیا سوچ کر  کیرلا کے ملّا پورم سے کالی کٹ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر  ڈاکٹرعبدالسلام کو امیدوار بنادیا حالانکہ ان کی ضمانت کا ضبط ہونا لازمی ہے۔اسی طرح حیدرآباد سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کے خلاف ڈاکٹرمادھوی لتا کوٹکٹ دے کر قربانی کی بکری بنایا گیا ۔ان کی ضمانت بھی خطرے میں ہے۔ اترپردیش کے اندر رام لہر کے باوجود  چار فلمی اداکاروں کا سہارا لینا بتاتا ہے کہ  بی جے پی کو ہنوز سنگھ پرخاطر خواہ  بھروسا نہیں کرپارہی ہے۔ یہ سارے نہایت فحش بھوجپوری نغموں کے لیے بدنام ہیں اس سے  برہماچاریہ(مجرد) کا پالن کرنے والے سنگھی سنسکار کا بھی پول کھل گیا۔    یوگی ادیتیہ ناتھ کے شہر گورکھپور سے روی کشن کا انتخاب وزیر اعلیٰ کی کمزوری کا اظہار ہے۔  دہلی میں جس واحد امیدوار کا ٹکٹ بی جے پی نہیں کاٹ سکی وہ سابق سماجوادی  منوج تیواری  نامی   فلمی اداکار ہے ۔ دنیش لال یادو نرہوا کو پچھلی بار اعظم گڑھ میں اکھلیش یادو نے ہرا دیا تھا مگر بعد میں ضمنی انتخاب کے اندر وہ دھرمیندر یادو کو ہرا کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ ان کو پھر سے ٹکٹ تو دیا گیا ہے لیکن اگر پھر سے اکھلیش میدان میں آجائیں تو نرہوا کو سائیکل سے کچل دیں گے۔

 پون سنگھ نامی اداکار کو بی جے پی نے مغربی بنگال کے آسنسول سے الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں سے پچھلی مرتبہ  بھی بی جے پی نے بابو سپریو نامی گلوکار کو کامیاب کیا تھا مگر وہ ٹی ایم سی میں چلے گئے ۔ وہاں پر ضمنی انتخاب میں ممتا بنرجی نےبی جے پی کے سابق عکن پارلیمان شتروگھن سنہا کو کامیاب کرکے بی جے پی کے زخموں پر نمک پاشی کی ۔ شتروگھن کو  سبق سکھانے کے لیے بی جے پی نے بدنام زمانہ پون سنگھ کو ٹکٹ دیا جن کا اپنی بیوی سے طلاق کا معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ پون سنگھ نے ٹکٹ ملنے کے بعد اسے لوٹا کر  بی جے پی کی ایسی بے عزتی کی ہے کہ وہ اسے جلد بھول نہیں سکے گی ۔ بعید نہیں کہ اس کا انتقام لینے کے لیے ان پر ای ڈی کا چھاپہ پڑ جائے ۔    مغربی بنگال کے ہوگلی سے لاکٹ چودھری   اور کیرالا میں تھریسور سے سریش گوپی نامی اداکار کو میدان میں اتارا گیا۔ ہیمامالنی کافی عمر دراز ہوچکی ہیں مگر انہیں بھی بدلنے کا خطرہ  بی جے پی نہیں لے سکی ۔  اس کا مطلب یہی ہے  کہ نظریہ و تنظیم کا بلند بانگ  دعویٰ اور مودی کی مقبولیت و رام لہر کی ڈینگ پوری طرح  کھوکھلی ہے۔

 

Comments are closed.