کرنے کے کام: جامعہ عبداللہ ابن ام مکتوم

 

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

زندگی کے اس دوڑ میں ہرانسان اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ مگر وہ شخص جو اپنی زندگی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی سنوارنے اور خاص طور پر اندھوں بہروں اور اپاہچ بچوں کی زندگی میں روشنی لانے کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے، نہ صرف یہ کہ ایک نابینا بچہ یا بچی، ایک معذور بچہ یا بچی کی صحیح پرورش وپرداخت بلکہ اس کوایسی تعلیم دینے کی فکر کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے، نہیں نہیں بلکہ ا سکی دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی سنور جائے تو ایسے شخص کوملک وملت کا ایک بہادر سپاہی نہ کہیے تو اور کیا کہیے۔

جی ہاں، ہم نے دیوبند اور ندوہ کا نام سنا ہے، علی گڑھ اور جامعہ کی کہانیاں سنی ہیں، مگر یہ سبھی ادارے تندرست اور صحت مند بچوں کی تعلیم وتربیت کی دانش گا ہ ہیں۔ مگر کسی ایسے ادارہ کا نام نہیں سنا جہاں نابینا اور معذور بچوں کو نہ صرف یہ کہ عالم، حافظ بنایا جاتا ہے، بلکہ انھیں عصری تعلیم دے کر اس لائق بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی خدمت کے لائق بن سکے۔

ایک ایسا ہی ادارہ مفتی رئیس صاحب نے پونے میں کھول رکھا ہے، جامعہ عبداللہ ابن ام مکتوم ویزن اسکول! ہم بیشتر حالات کا رونا رونے کے عادی بن چکے ہیں،زمینی سطح پر کرنے کے اتنے مواقع موجود ہیں کہ اگر کوئی کام کرنا چاہے تو وہ وقت اور حالات کا رونا رونے کے بجائے وقت اور حالات کے رخ کو پھیر سکتا ہے اور یہی کام جامعہ کے بانی مفتی رئیس صاحب نے کیا ہے۔

پونہ شہر میں صرف دو نابینا طلباء کے ساتھ مفتی رئیس احمد نے معذور طلباء کا اسکول کھولا، صرف دس سالوں میں اس اسکول کو اپنی محنت اور مشقت سے اس قدر سنوارا کہ آج اس میں سترہ صوبوں کے دو سو سے زائد معذور بچے اور بچیاں بہترین تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ انھیں دسویں اور بارہویں کا امتحان بھی دلوایا جاتا ہے تاکہ وہ اس لائق بن سکیں کہ گورمنٹ کے کالجز اور یونیورسٹیز میں جاکر اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اور یہ سب مفت اور بغیر کسی فیس کے ہوتا ہے۔

صلاحیت وقابلیت کا تعلق جسم کی خوبصورتی اور صحت سے نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں معذورں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دئے ہیں جسے سن کر ایک انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ انھیں تعلیم کے وہ مواقع فراہم کیئے جائیں جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں۔

اسٹیفن ہاکنگ جو ابھی حال میں ایک خلائی سائنسداں گزرا ہے جسکی مشہور کتاب دی بریف ہسٹی آف ٹائم نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا، اگر اسکو تعلیم کے وہ مواقع فراہم نہ ہوتے تو کیا اس کی صلاحیت وقابلیت نوع انسانی کو کام آتی، اندھی بہری اور گونگی ہلن کیلر جس نے امریکہ میں نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ وہ بہری گونگی اور اندھی ہونے کے باوجود ایک بہترین مولف اور ایک کالج کی پروفیسر بن کر دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی، اسے اگر تعلیم کے وہ مواقع فراہم نہ کئے جاتے تو کیا آج کوئی ہلن کیلرکو جانتا۔ شیخ ابن باز، سعودی عرب کے مفتی عام، جن کے فتوے آج بھی دینی حلقوں میں حوالہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جو مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر بنے، اگر ان کو تعلیم کی سہولیات میسر نہ ہوتیں تو کیا وہ کارنامے انجام دے پاتے جن کی وجہ سے دنیا انھیں جانتی ہے۔

اور یہی کام جامعہ عبداللہ ابن ام مکتوم ویزن اسکول کررہا ہے، وہ سماج کے معذور طبقہ میں وہ ہیرے جواہرات تلاش کررہا ہے جن کو وہ تراش کر سماج کے اونچے سے اونچے مقام تک پہونچاسکے۔

یہ ایک ایسا خوش آئیند قدم ہے جسے ہر صوبہ میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے مخلص نوجوان اس سمت میں قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے سماج کے اس طبقہ کو مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کریں گے جس سے نہ صرف یہ کہ ہماری کمیونٹی کا بلکہ ملک کا فائدہ ہوگا۔

مفتی صاحب ایک انتہائی دردمند، فعال اور جامعہ اکل کنوں کے فارغ التحصیل نوجوان عالم دین ہیں۔ مفتی رئیس صاحب سے ایک پروگرام میں میری ملاقات نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں یہ چند سطریں لکھے بغیر نہ رہ سکا۔ ہمیں بغیر کسی مذہب نسل اور مسلک کی تفریق کئے ہندوستان کے ہر صوبہ میں سماج کے معذور طبقہ کے لئے اس طرز کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں کسی طرح کی رہنمائی کے لئے مفتی صاحب سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے اور وہ دامے درمے قدمے سخنے اس مشن میں مدد کے لئے تیار ہیں۔

آپ کا سماجی، دینی اور انسانی فریضہ ہے کہ آپ اپنے سماج میں ایسے بچے اور بچیوں کو ڈھونڈیں، انھیں تلاش کریں اور ان کو مفتی صاحب کے ادارہ میں بھیجیں تاکہ ان کی تعلیم وتربیت کا اتنظام ہوسکے۔ اور وہ بھی بلاکسی فیس کے بالکل مفت۔ مفتی رئیس صاحب کا نمبر شئیر کررہا ہوں، آپ ایسے بچوں کو تلاش کرکے ان سے رابطہ ضرور کریں۔ مفتی رئیس صاحب موبائیل واتسپ نمبر: 8149267567

Comments are closed.