تعمیر انسانیت میں صحافت کی خدمات

عارف عزیز (بھوپال)

تاریخ عالم میں بیسویں صدی کو جن غیرمعمولی اور اہم ترقیات کے لئے یاد کیاجاتا ہے ان میں صحافت سرفہرست ہے جس نے اس صدی کے دوران ایک زبردست طاقت اور ناقابل تسخیر مقام حاصل کیا ہے۔ دنیا میں صحافت کا باقاعدہ آغاز کوئی ڈھائی سو برس قبل ہوا ہے لیکن حقیقت میں اس کی ترقی اور پورے کرۂ ارض میں اس کا پھیلائو بیسویں صدی کی دین ہے اور آج ۲۱ویں صدی میں صحافت نے جو طاقت اور برتری حاصل کرلی ہے دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
صحافت کی اس تیز رفتار ترقی سے متاثر ہوکر اس کو حکمرانی کے چوتھے ستون کا درجہ دیاگیا ہے بالخصوص جمہوری نظام میں مقننہ یعنی قانون سازی، عدلیہ یعنی انصاف اور انتظامیہ یعنی نوکر شاہی کے بعد چوتھی طاقت کی حیثیت سے اگر کسی کو تسلیم کیاجاتا ہے تو وہ صحافت ہے اور اسی لئے ہر جمہوری نظام میں اخبارات کی اہمیت اور جمہوریت کی بقاء واستحکام میں اس کے رول کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
عا م طور پر صحافت کے چار مقاصد بیان کئے جاتے ہیں اول خبریں بہم پہونچانا دوم عوام کی سیاسی تربیت اور رہنمائی کرنا سوم قارئین کے ذوقِ سلیم اور اخلاق کو نکھارنا چہارم عام لوگوں کی تفریح طبع کے لئے مواد فراہم کرنا، لیکن یہ جملہ کام بیک وقت سرانجام پاتے ہیں انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا، خبریں بہم پہونچانا اخبارات کا اصل کام ہے جو اخبار زیادہ سے زیادہ خبریں اپنے قارئین تک پہونچاتا ہے وہ عوام میں زیادہ مقبول ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی خبریں سچی اور قابل اعتماد ہوں خبروں کی فراہمی کے اس عمل میں ہی عام لوگوں کی اچھی یا بری تربیت بھی کی جاسکتی ہے ان کا ذوق بلند یا پست کیاجاسکتا ہے۔ ان کا اخلاق سنوارا یا بگاڑاجاسکتا ہے اخبارات جس سیاست دان کا امیج چاہیں بناسکتے ہیں اور جس کا امیج چاہیں بگاڑسکتے ہیں۔ اخبارات کا بنیادی کام اپنے قارئین کو اطلاع بہم پہونچانا اور پوری دنیا کے احوال سے انہیں باخبر رکھنا ہے دنیاکے کون سے حصے میں کیا واقعات ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ کیا تبدیلیاں آرہی ہیں اور مختلف شعبوں میں کیا ترقیات ہورہی ہیں یہ معلومات بہتر طور پر اخبارات کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہونچتی ہیں۔
کسی رہنما کے بیانات اور اس کے بارے میں خبریں صفحہ اول یا صفحہ آخر یا کسی دوسرے صفحہ پر دینا اور ان پر بڑی یا چھوٹی سرخی لگانا اخبارات کی مرضی پر موقوف ہے۔ اسی طرح اخبارات جن کی شبیہ چاہیں بنا اور بگاڑ سکتے ہیں، کسی شخصیت کے بیانات اور اس کے بارے میں خبریں فراہم کرنے اور ان پر سرخی لگانے میں بھی صحافی اپنے ذہنی تحفظات سے کام لے سکتے ہیں، اپنے فرائض کی انجام دہی کے ایسے ہی اختیارات یا طور طریقوں سے صحافی عوام کا اخلاق اور سیاسی ذوق بناتے وبگاڑتے ہیں مثلاً کوئی اخبار حقائق وشواہد کے برخلاف خبریں شائع کرتا ہے یا ان پر غیر ذمہ داری سے سرخی لگاتا ہے، متانت کے بجائے سنسنی خیزی کو اپناتا ہے تو ایسا اخبار یقینا عوام کا ذوق بگاڑنے کا موجب بن جاتا ہے، اسی طرح کوئی اخبار نویس جرائم کی خبریں صفحہ اول پر تصاویر کے ساتھ یوں سجادیتا ہے کہ ظالم مظلوم اور چورڈاکو، ہیرونظر آنے لگیں یا جنس سے متعلق خبروں کو ایسے پیش کرتا ہے کہ لوگ اس سے لطف اندوز ہونے لگیں تو وہ اپنے قارئین کا مذاق بگاڑتا ہے اور معاشرہ میں جرائم کی ترویج واشاعت کا باعث بنتا ہے۔
صحافت کے دوپہلو اہم ہیں ایک خبروں کی اشاعت یا حقائق کو اپنے قارئین تک پہونچانا دوسرا اس پر رائے کا اظہار کرنا یعنی تبصرہ وتجزیہ کے ذریعہ مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرنا یا اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور ان میں اس بات کا لحاظ رکھنا کہ حقائق کو ہرگز توڑمروڑ کر پیش نہ کیاجائے۔
انگریزی محاورہ کے مطابق ’’زیادہ اہم خبروں کو زیادہ اہمیت اور کم اہم خبروں کو اس سے کم اہمیت‘‘ ملنی چاہئے جو اخبارات اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے ہیں تو ظاہر ہے وہ قارئین کا مزاج ہی نہیں بگاڑتے معاشرہ کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں اسی طرح جو اخبارات سنسنی خیزی، اشتعال انگیزی اور جانبداری کا ملمع چڑھاکر خبروں کو پیش کرتے ہیں وہ عوام کا ذوق بگاڑتے ہیں۔ انہیں قومی اتحاد ویکجہتی ، غریبوں کے دکھ درد اور انصاف ومساوات کے تحفظ کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی کہ اپنے اخبار کی روز افزوں اشاعت کی فکر ہوتی ہے ایسے اخبارات اور اس میں شائع ہونے والے مواد کو صحت مند صحافت کا نام نہیں دیاجاسکتا۔ کیونکہ صحت مندی سے تو سچائی کا تصور ابھرتا ہے اور سچائی خوش حال زندگی کی نقیب ہوتی ہے جس کو دروغ گوئی یا سماج میں سنسنی وکشیدگی پھیلاکر نہیں کیاجاسکتا۔ اس لئے جو صحافی مذکورہ حقیقت کو ذہن نشین کرلیتے ہیں وہ اپنے مواد اس کی ہیئت اور پیش کش سے کسی خاص فرقہ کی دل آزاری یا کسی کے تئیں جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ پورے معاشرہ کی فلاح وبہبود ان کے پیش نظر رہتی ہے۔ سیاست ہو یا اقتصادیات جرائم ہوں یا کھیل کود سماجی رسم ورواج ہوں یا مذہبیات ، سائنس اور ٹلناکوجی، ہر شعبہ میں ان کا ایک مثبت، تعمیری اور اصلاحی نقطہ نظر ہوتا ہے اور صحت مند معاشرہ کی تعمیر میں وہ ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اخبارمیں خبروں کے بعد اداریوں کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، ایڈیٹوریل کے ذریعہ ہی اخبار اپنے قارئین کی سیاسی تربیت کرتا اور ان کی رائے بناتا ہے۔ ایڈیٹوریل مختصر، برمحل اور واضح ہونا چاہئے۔ تاکہ پڑھنے والے کو اس سے نتیجہ اخذ کرنے میں دقت نہ ہو۔ اگر اداریہ کافی طویل اور مبہم ہوگا یا اس میں بات کو معروضی انداز میں پیش نہ کیاجائے گا اور موضوع کے ذریعہ دونوں پہلوپیش کرکے کوئی نتیجہ نہ نکالاجائے گا تو ایسی تحریریں نہ موثر ہونگی اور نہ فکر انگیز اداریہ نگار کے لئے غیرجانبداری کا مظاہرہ بھی اہم شرط ہے۔
ماضی کی صحافت کے مقابلہ میں آج کی صحافت نے صوری اور معنوی دونوں لحاظ سے کافی ترقی کی ہے، بروقت خبروں کی ترسیل اور اعلیٰ طباعت نے اخبارات کا معیار کافی بلند کردیا ہے لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ اخبارات کے صفحات سے سنجیدگی و متانت رخصت ہو رہی ہے اور صحافت کے میدان میں اخبارنویسوں کی ایسی فوج داخل ہوگئی جو اپنی معلومات کے جاوبیجا مظاہرے یاخود کو مقبول بنانے کی کوشش میں سنسنی خیزی ہی نہیں کردار کشی تک اتر آتے ہیں۔ و ہ قارئین کے سامنے سیاہ کو سفید اور سفید کوسیاہ بناکر پیش کرنے میں بھی یقین رکھتے ہیں اس سلسلہ کی سب سے تلخ مثال تحقیقاتی صحافت ہے جس کو اپناکر افراد کی نجی زندگی میں جھانکا جارہا ہے اور ان کے خانگی معاملات کو بڑھا چڑھاکر اخبارات کی زینت بنا یاجارہا ہے۔
جس طرح آزادی واختیارات کے ساتھ فرض وذمہ داری بھی عائد ہوجاتی ہے، اسی طرح صحافت اور صحافی جب آزادی حاصل کرتے ہیں تو گویا بہت سی ذمہ داریاں بھی قبول کرلیتے ہیں ان میں سے پہلی ذمہ داری حق شناسی وحق گوئی کی ہے۔ حکمرانوں کے اہم فیصلوں کی صحیح معلومات حاصل کرکے انہیں بروقت عوام تک پہونچانا دوسری ذمہ داری ہے ، جو اخبارات سرکار اور ان کے ماتحت اداروں کی سرگرمیوں سے پردہ نہیں اٹھاسکتے، وہ اپنے وجود کو باوقار طریقہ سے زیادہ دن برقرار نہیں رکھ سکتے، پریس کا فرض ہے بولنا ، سیاست داں ایک مرتبہ خاموش ہوسکتا ہے لیکن پریس کی خاموشی اس کی موت کے مترادف ہے ، اسی طرح صحافی کا کردار مورخ کی طرح ہوتا ہے جو حقائق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور مستقبل کے لئے سچائی چھوڑ جاتا ہے، اسے کمزوروں، اقلیتوں اور ناداروں کے مسائل ومشکلات پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
دورِ حاضر میںبڑھتے جرائم، سماجی بے چینی اور سیاسی بدنظمی کا اگرجائزہ لیا جائے تو اس کی تہہ میں ان معلومات کا بڑا حصہ ملے گا، جو غیرذمہ دار صحافت کے وسیلہ سے عام انسانوں تک آج پہونچ رہی ہے اسی طرح اخبارات ورسائل کے صفحات پر جن نظریات وخیالات کی تبلیغ ہورہی ہے، جس تہذیب یا اس کے رسوم ورواج سے متعارف کرایاجارہا ہے اس کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ صحافت کے لئے کھلی فضا اور اخبارنویسوں کے لئے قلم چلانے کی آزادی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ کسی جاندار کے لئے ہوا اور پانی ہوتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر سلطانئی جمہور کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، جری اور بے باک صحافت اور نظامِ عدل ہی جمہوریت کی اصل طاقت ہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کی کمزوری سماج میں ایک خلاء پیدا کردیتی ہے لیکن اس آزادی کو کس کے لئے اور کس مقصد سے استعمال کیاجائے یہ پیش نظر رہنا چاہئے، ہرجمہوری نظام کے آئین میں سب ہی شہریوں کو تقریر وتحریر کی آزادی کا حق دیاجاتا ہے لیکن اس حق کو پھوٹ ڈالنے، نفرت پھیلانے، حقائق کو مسخ کرنے اور شہریوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
یہ صحیح ہے کہ ہمارا معاشرہ آج جن اعلیٰ اقدار پر ناز کرتا ہے ان میں سے بیشتر قدروں کے لئے صحافیوں نے ہی سب سے پہلے آواز اٹھائی اور ان کو سماج میں اعتبار سے ہم کنار کرنے کیلئے کافی قربانیاں دی ہیں ، لیکن آج صحافیوں میں ایسے عناصر کا غلبہ ہورہا ہے جو اپنے قلم کی طاقت ملک کی تعمیر اور قوم کے اخلاق کو سنوارنے کے بجائے انہیں نقصان پہونچانے میں صرف کررہے ہیں ، لہذا ضرورت ہے کہ آج کے صحافی کو یہ یاد دلایا جائے کہ وہ سماج کا سب سے ذمہ دار فرد ہے ، اس کا قلم بکائو نہیں آزاد ہونا چاہئے، اس کا کام پہاڑوں کے سینہ کو چیر کر نہریں نکالنا اور بادِ مخالف کا رخ پھیر دینا ہونا چاہئے اور ہر حال میں اسے اپنے قلم کے ہتھیار کا دیانت داری کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ اسی طرح وہ تعمیرانسانیت میں اپنی گوناگوں خدمات انجام دے سکتا ہے۔٭

Comments are closed.