پروفیسر ڈاکٹر سید فضل اللہ قادری:خاندانی احوال وطبی خدمات

محمد رضاء اللہ قاسمی
فاضل دارالعلوم دیوبند،موبائل نمبر:9471905151
طالب علمی کے زمانے سے نکل کر امارت شرعیہ میں ملازمت کے چند برسوں بعدایک روزمیری ملاقات امارت شرعیہ کے دفتر میںڈاکٹر سید فضل اللہ قادری امجھری سے ہوئی،دھیرے دھیرے شناسائی میں اضافہ ہوتا گیا ۔ڈاکٹر صاحب ہمدر د انسان ہیں،میری گھریلو ضروریات میںپیش پیش رہتے ہیں اورہر ممکن تعاون بھی کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹرسید فضل اللہ قادری امجھری کی پیدائش 17دسمبر1948ء کو ایک معروف عالم دین اورتحریک اسلامی کے رہنماحضرت مولاناسیداحمدعروج قادری امجھری علیہ الرحمہ کے گھرواقع خانقاہ مجیبیہ محلہ پھلواری شریف میں ہوئی۔ڈاکٹر صاحب کے آباء واجداد کاوطن اوّل امجھر شریف،(اورنگ آباد، بہار)ہے،دادامحترم کے پھلواری شریف منتقل ہوجانے کی وجہ اب ڈاکٹر صاحب کے خاندان کا وطن پھلواری شریف ہے اوروطن ثانی شہر رامپور(اترپردیش)بھی کہاجاسکتا ہے؛کیوں کہ والدین کا قیام بھی تقریباً36سالوں تک اسی شہر میں رہا اورجسد مبارک بھی اسی سرزمین میں مدفون ہوا۔
خاندانی حسب ونسب:
بہار کی پہلی قادری خانقاہ امجھر شریف میں واقع ہے۔امجھر شریف شمالی ہند کی ایک قدیم بستی ہے،اس بستی کا محل وقوع نہایت دل کش اور خوبصورت ہے،بستی کے دونوں بازؤوں پرشمال وجنوب میںپانی کے بڑے ذخیرے ہیں،جن کو وہاں کی مقامی زبان میں بہہ کہا جاتا ہے۔ امجھر شریف پیرطریقت سید محمد ن القادری الحسنی والحسینی کے خاندان کی وجہ سے صدیوں سے علمی، مذہبی اورتصوف وسلوک کا مرکز رہاہے۔ان کا خانوادہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، ایک شاہ خاندان کہلانے لگے اوردوسرے کی نسبت قاضی خاندان سے دی گئی ہے۔تغلقیہ دور حکومت سے لے کر انگریزوں کے دور تک عدالتوں میں اسلامی شریعت لا بینچ قائم رہی،اس دوران قاضی خاندان کے بزرگ حکومتوں کے جانب سے صوبہ بہار وبنگال میں قاضی کے عہدے پرفائز ہوتے رہے۔حضرت مولاناقاضی تبارک حسین قادری کے مورث اعلیٰ حضرت سید سلیمان پاک قدس سرہ بہ عہد جلال الدین محمد اکبرباد شاہ عہدۂ قضاپر پرگنات انجھاد منورہ میں مامور ہوئے،آپ کی رحلت کے بعد آپ کے اکلوتے صاحبزادے حضرت سید مسعود محض 1026ھ میں پرگنات مذکورین پر قاضی بنائے گئے،1075ھ میں آپ کاوصال ہوا تو انہیں پرگنات پر آپ کے بڑے صاحبزادے سید عنایت اللہ قاضی بنائے گئے،19 محرم الحرام1100ھ میںآپ انتقال کرگئے توآپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید امان اللہ قادری اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ غازی کے زمانہ شاہی میںان ہر دوپرگنات انچھاد منورہ کے لیے قاضی مقرر ہوئے،جب آپ نے 1122ھ میں وفات پائی توسید محمد وارث بن حضرت سید شاہ امان اللہ قدس سرہ کو نائب قاضی مقرر فرمایاگیا،سید محمد وارث کے انتقال کے بعد حضرت تاج الدین بن حضرت سید عنایت اللہ ابن حضرت سید شاہ مسعود محض قدس سرہ قاضی بنے،آپ کا قیام اکثرپٹنہ محلہ محمد پور میں رہا،وہیںآپ نے بتاریخ 24رجب 1148ھ میں انتقال فرمایا، بعدہ حضرت احمد نظیر بادشاہ نے دارالسلطنت شاہ جہاں سے حکم نامہ حاصل کرکے قاضی سید پیر عالم بن قاضی سید محمد وارث بن حضرت سیدشاہ امان اللہ کو پرگنات انجھا ومنورہ کا قاضی مقرر فرمایا،جس کو بہت مدت تک خوش اسلوبی سے انجام دیا،بہ سبب کبر سنی وضعیف العمری عہدۂ قضا سے سبکدوش ہوگئے، ان کے بعد قاضی سید ذوالفقار علی بن سید شاہ روح اللہ بن سید شاہ امان اللہ قدس سرہ قضا پر متمکن ہوئے، 1185ھ میں آپ وفات پائے تو آپ کے صاحبزادے قاضی سید لطف علی ہردوپرگنہ کے قاضی مقرر ہوئے،1192 ھ میں قاضی سید لطف علی کے رحلت کرجانے کے بعد1192ھ میں آپ کے بڑے صاحبزادے قاضی سید قمر علی ہردوپرگنہ کے قاضی مقرر ہوئے،1224ھ کے آخر میں آپ نے رحلت فرمائی،آپ کے بعد آپ کے حقیقی چھوٹے بھائی قاضی سید شاہ مظہر علی نے عہدۂ قضا کو سنبھالا،پھر قاضی سید کرامت علی رحمۃاللہ علیہ اپنے چچا کے انتقال کے بعد عہدۂ قضا پر مامور ہوئے۔انگریزوں نے جب اسلامی شریعت بینچ کو ختم کردیاتو پھر اس خاندان کا کوئی بھی فرداس عہدے پر فائز نہیں ہوئے۔ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ اس خاندان نے انگریزوں کے ظلم وجور،ملک پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف احتجاجاً عہدۂ قضا سے دست بردار ہوگئے۔
نوی صدی ہجری میں لودیوں کے ذریعہ دہلی کی سلطنت پر قابض ہونے کے ساتھ ہی ہندوستانی نظام حکومت طوائف الملوکی سے دوچار ہوگئی، معمولی سے معمولی زمیندار بھی اپنے آپ کوعلاقہ کا خود مختار حاکم تصور کرتا تھا،اسی زمانہ میں جیون کولہ موضع نرھنا پرگنہ آنچھا صوبہ کے علاقہ بہار میں رہا کرتا تھا،اس کے ظلم وتشدد سے فرزندان اسلام عاجز آچکے تھے،چناںچہ شیخ علی ہندی جو حسن پورہ کے رہنے والے تھے،مدینہ منورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے اوردعا کی،چناںچہ آپ کو خواب میں بشارت دی گئی کہ بغداد شریف سید محمددرویش قادریؒ کی خدمت میں جائیں،آپ کی پریشانیوں کاحل ہوجائے گا، چناںچہ شیخ ہندی وہاں سے بغداد شریف کے لیے روانہ ہوگئے اوروہاں پہونچ کر تمام حالات وپریشانیوں کا تذکرہ سید محمد درویش قادریؒ سے کیا، آپ نے فرمایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے،کام ہوجائے گا۔دوسرے روز انہوں نے اپنے صاحبزادہ محمدقادری سے فرمایاکہ تم ہندوستان جاؤ اورتبلیغ اسلام کرو؛تاکہ مظلوم کی حمایت اورظالم کی سرکشی کا خاتمہ ہوسکے،چناںچہ آپ چالیس خلفا کے ساتھ ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے، راستہ کی صعوبتوں کا نہایت عزم وحوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے سُرہُرپور تشریف لائے اوریہاں سید حسن کی بہن سے اپنے والد کے حکم کے مطابق شادی کی،اس منزل پر پڑاؤ کے بعد نرہنا پہنچے اورپھر وہاں سے ’’امجا‘‘(یہ امجد ہوا،امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ امجھر میں تبدیل ہوگیا)تشریف لے آئے، اپنا عصا مختلف مقامات پر نصب کیا؛ لیکن کہیں بھی ہرا بھرا نہ ہوسکا،پیشین گوئی کے مطابق وہ عصا (اجناس کا شجر)امجھر شریف کے اس علاقہ میں سرسبزوشاداب ہوگیا،جو کہ آج قبرستان ہے اورقیام کی نشانی بھی یہی بتائی گئی تھی،چناںچہ آپ نے وہاں ہمیشہ کے لیے قیام فرمالیا اورپھر تبلیغ ورشدوہدایت کا دور شروع ہوا،اولین مقصد علاقہ کے ظالم حکمران کو اسلام کی دعوت ،صلح وامن وامان کا پیغام دیا،اسلام کی حقانیت واضح فرمائی؛لیکن جیون و کرمون نامی حکمران جوکہ اپنی طاقت کے نشہ میں چور تھے،ایک نہ مانی اورجنگ کا اعلان کردیا،چناںچہ باقاعدہ جنگ ہوئی،جیون اورکرمون دونوں برباد ہوگئے اور فرزندان اسلام اب اعلانیہ صوم وصلوٰۃ کی پابندی کرنے لگے۔حضرت سیدناقدس سرہ کے ہمراہ آنے والے اشخاص محترم نے آپ کے حکم سے اشاعت اسلام کے فریضہ کو نہایت بحسن وخوبی سے انجام دیتے رہے،نتیجتاً علاقہ کا علاقہ آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوا۔
اسی خانوادے سے حضرت مولانا قاضی تبارک حسین قادریؒ،حضرت مولانا قاضی عبیداللہ قادری اورمولانا سید احمد عروج قادریؒ کابھی تعلق ہے،ان تینوں شخصیات کا آپسی تعلق کچھ اس طرح ہے:مولانا سید احمدعروج قادری بن حضرت مولانا قاضی عبیداللہ قادری بن قاضی تبارک حسین قادری۔حضرت مولاناقاضی تبارک حسین قادری امجھری کا نسب ۲۳ ؍واسطوں سے شیخ عبدالقادری جیلانی علیہ الرحمہ سے جاملتا ہے۔شجرۂ نسب کچھ یوں ہے:مولانا تبارک حسین بن قاضی سید کرامت علی بن قاضی سید قمر علی بن قاضی سید لطف علی بن قاضی سید ذوالفقار علی بن قاضی سید روح اللہ بن قاضی سید امان اللہ بن قاضی سید عنایت اللہ بن قاضی سید مسعود محض شیر یزدان بن قاضی سید سلیمان پاک بن حضرت سید جلال الدین ابدال قادری(فرزند اوسط حضرت سید السادات قطب الاقطاب سید محمد القادری الجیلانی ثم امجھری جو 847ھ میں آستانہ عالیہ قادریہ محمدیہ امجھر شریف میں قیام پذیر ہوئے)بن امیر سید شمس الدین ابو محمد درویش قادری بن سید ابوالخیر قطب الدین کلاں عالم بن امیر سید عبدالرحیم بن امیر سید عبدالفتاح بن امیر سید عبدالوہاب بن امیر سید عبدالرحمن بن امیر سید عبداللطیف بن امیر سید عبدالحئی بن امیر سید عبدالجلیل بن امیر سید عبدالرحیم ابوالقاسم کرم اللہ قادری بن حضرت امیر سید تاج الدین عبدالرزاق پاک بن سید السادات غوث الاعظم قطب ربانی محبوب سبحانی سیدمحی الدین ابو محمد شیخ عبدالقادر جیلانی حسنی الحسینی رحمہ اللہ۔شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی ہیں۔ صاحب ِ’بہجۃ الاسراراور مولانا جامیؒ نے ’نفحات الانس‘ میں آپ کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے: عبدالقادر بن ابی صالح جنکی بن موسیٰ بن عبداللہ بن یحییٰ زاہد بن محمد بن داؤد بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنی بن سیدنا حضرت حسینؓ بن علیؓ اسد اللہ الغالب۔(فیوض یزدانی)دوسرے حضرات نے اس طرح بیان کیا ہے: سید ابو صالح موسی جنگی دوست بن عبد اللہ الجیلی بن سید یحییٰ زاہدبن سید محمد مورث بن سید داؤد بن سید موسی ثانی بن سید موسی الجون بن سید عبد اللہ ثانی بن سیدعبداللہ المحض بن سید حسن المثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علی کرم اللہ وجہ۔(جلاء الخاطر،از سید شیخ عبدالکریم الکسنزان)
قاضی صاحبؒ جب نو دس برس کے ہوئے،والد ماجدحضرت قاضی سید کرامت علی کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا،والدہ محترمہ نے اپنی نگرانی میں تعلیم دلانی شروع کی،ابتدائی تعلیم مولانا سخاوت حسین صاحب جونپوری سے ومتفرق استادوں سے ہوتی رہی،جس سے آپ کا ذوق علمی غیرمطمئن رہا،اس بناپر آپ نے اپنے دل میں وطن مالوف سے باہر جانے کی ٹھان لی اوربلا اطلاع گھروالوں کے آپ پہلے شہر آرہ تشریف لے گئے،جہاں اس وقت کے ایک مشہور عالم مولانا محمد اسماعیل صاحب رونق افروز تھے،جو اپنے شاگردوں کو بہت پیار ومحبت وشفقت سے تعلیم دیتے، مولانا نے بھی وہاں پہونچ کر زانوئے ادب تہہ کیا اورتعلیم شروع ہوئی،اس دوران امجھر شریف میں مولانا کی مفقود الخبری زبان زد عوام وخواص ہوگئی،کچھ دنوں بعدجب لوگوں کویہ خبر ملی کہ مولانا آرہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں،لوگوں نے وہاں پہونچنا شروع کیا اورحضرت مولانا سے ان کی والدہ ماجدہ کی طرف سے منت وسماجت کرکے گھرواپس لے آئے۔ہفتہ عشرہ کے قیام کے بعدمولانا نے واپسی کا ارادہ کیا،اس وقت راستہ پُر امن نہ تھا؛اس لیے اکثر لوگ سفر دوردراز سے منع کررہے تھے؛مگر مولانا نے ایک بھی بات نہ سنی اورلکھنؤحضرت مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محل کی خدمت میں حاضر ہوئے اوردرس میں شریک ہوگئے،وہاں مولانا شاہ سلیمان قادری چشتی پھلواروی اورمولانا عبدالحلیم شرر آپ کے ہم سبق تھے،پھر حضرت مولانا نے دیوبند جاکرعلم کی تکمیل کی اورحدیثیں حضرت مولاناسید نذیر حسین صاحب دہلوی کو سنائیں اورمتون کی اجازت حاصل کی،اس کے بعد آپ اپنے وطن آستانہ عالیہ امجھر شریف واپس تشریف لے آئے۔ فراغت کے بعد حفظِ قرآن کا شوق پیداہوا، مولانابہت ذہین تھے،دس ماہ کی مختصر مدت میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ تراویح میں ہر سال پابندی سے قرآن سناتے۔حضرت مولاناسید نذیر حسین دہلوی سے کسبِ علم کے بعد ان کا رحجان مسلکِ اہلِ حدیث کی طرف ہو گیا تھا؛ لیکن بعد ازاں مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی سے استفادے کے لیے حلقۂ تصوف میں جاکر شامل ہوگئے اور وفات تک ان پر یہی رنگ غالب رہا۔حضرت مولاناقاضی تبارک حسین صاحبؒ کی شادی سید شاہ امداد حسین بن قاضی سیدشاہ پیغمبر بخش بن قاضی سید شاہ قدرت اللہ بن قاضی سید شاہ رہبر عالم بن قاضی سید شاہ محمد وارث بن قاضی سید شاہ امان اللہ قدس اسرارہ کی چھوٹی صاحبزادی سے ہوئی،ان کے بطن سے پانچ لڑکیاں اورتین لڑکے پیدا ہوئے۔چوتھی لڑکی کی شادی حضرت مولاناسیدشاہ محمد محی الدین صاحب بن بدرالکاملین حضرت مولانا سید شاہ محمدبدرالدین قادری سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ وامیر شریعت اوّل بہار سے انجام پائی۔خانقاہ مجیبیہ سے آپ کا گہراتعلق تھا۔اس تعلق کی بناپر پھلواری شریف میں بھی آپ کا قیام رہتا تھا اورپھلواری شریف میں ہی 19جمادی الثانی بوقت آخری شب 1337ھ کووفات پائی۔
مولانا سید قاضی عبیداللہ قادری امجھری حضرت مولاناقاضی تبارک حسین قادری امجھری کے بڑے صاحبزادے تھے،انہوںنے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد اوردوسرے مقامی اساتذہ سے حاصل کی،پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ٹونک چلے گئے،وہاں وقت کے مشہور عالم دین حضرت مولانا برکات احمد بہاری ثم ٹونکی کے سلسلہ درس میں شامل ہوگئے۔آپ کے ہم درس لوگوں میںمولانا مقبول احمد خاں دربھنگہ(سابق ناظم مدرسہ حمیدیہ)، مولانا الیاس دربھنگوی(سابق مدرس مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ) اورمولانا عبدالسبحان بہاری(سابق مدرس مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ)ہیں۔تمام علوم وفنون نقلیہ وعقلیہ سے فراغت کے بعد پوری زندگی دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں گزاری۔
حضرت مولانا سیداحمد عروج قادری حضرت مولانا سید قاضی عبیداللہ قادری امجھری کے منجھلے صاحبزادے ہیں۔ 15ربیع الاول 1331ھ مطابق24مارچ1913ء کو امجھرشریف ضلع اورنگ آباد (بہار)میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم امجھر شریف میں ہوئی،اس کے بعد مدرسہ محمدیہ پٹنہ اورشمس الہدیٰ پٹنہ میں کسب فیض کیا۔مؤخر الذکر مدرسے سے فاضل کی سند حاصل کی،تعلیم کے تمام مراحل والد کی نگرانی میں انجام پائے۔فراغت کے بعد مدرسہ خانقاہ سہسرام سے تدریس کاآغاز ہوا،کچھ عرصہ(1945) مدرسہ عزیزیہ بہار شریف میں گزاری،پھر مدرسہ شمس الہدیٰ میں درس وتدریس سے منسلک ہوگئے۔ جماعت اسلامی سے وابستگی کی وجہ سے وہاں سے علاحدگی اختیار کرنی پڑی،اس کے فوراً بعد 1956میں رام پور تشریف لے آئے،جماعت اسلامی کی ثانوی درسگاہ رامپور میں درس وتدریس کا کام شروع کیا،چند ہی سال بعد ذمہ داران جماعت نے ماہنامہ زندگی کی ادارت آپ کے سپرد کردی،یہیں سے آپ کی صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔حضرت مولانا قاضی سید عبیداللہ قادری شیخ التفسیر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ سے قبل محمد جان کی مسجد میں تدریس،درس قرآن دیا کرتے تھے اورسیداحمد عروج قادری صاحب بھی درس قرآن میں برابر شریک رہتے۔الحمد للہ آپ کا ذہن اور آپ کی فکر تقلید محض کی عادی نہ تھی،طلب حق اورجستجوئے حق میں آپ مخلص تھے؛اس لیے خدا نے فکر مستقیم،قول مستقیم،عمل مستقیم اورتفقہ فی الدین کے گراں قدر جوہر سے نوازا تھا۔رامپور کے محلہ گھر سیف الدین خاں میں آپ کاقیام تھا،جہاں کی مسجد میں آپ ہفتہ واردرس قرآن دیا کرتے تھے۔ قیام رامپور کے دوران درس قرآن کی مدت تقریباً چالیس سال تک رہی ہے، اتنی طویل مدت تک درس قرآن دینے والے شخص کی فہم قرآنی کی گیرائی اورگہرائی وتدبر قرآن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،مسلسل درس قرآن میں آپ کئی کئی بار مکمل قرآن ختم کرچکے تھے۔آپ نے جس طرح نثر کے ذریعے دین کی نشرواشاعت کی فرائض انجام دیئے، اسی طرح شعر وشاعری کو بھی دین کے فروغ کا ذریعہ بنایا،یہ صحیح ہے کہ ادب اسلامی کے حلقے میں احمد عروج قادریؒ ایک خوش فکر شاعر کی حیثیت سے ہی جانے جاتے تھے،آپ اپنی علمی وتصنیفی مصروفیتوںاورتحریکی مشغولیتوں کے باوجود وقتاً فوقتاً اپنی شعری تخلیقات سے بھی شعروادب کے طالب علموں کو مستفیض فرمایا کرتے تھے،یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ شاعری کو آپ نے زندگی کا شعار نہیں بنایا؛بلکہ یہ بھی ان کے لیے مقصد کی خدمت کا ایک ذریعہ اوروسیلہ بنی رہی،یہی سبب ہے کہ آپ کی ادبی وشعری تحریروں میں اعلائے کلمۃ اللہ کی تڑپ اوراحیائے دین کے جذبے کی حرارت پائی جاتی ہے،دراصل آپ ایک ایسا ذہنی وفطری انقلاب دیکھنا چاہتے تھے،جہاں بدامنی اوربے چینی،بد اخلاقی وبدکرداری کے بجائے عالی ظرفی وشان بندگی اورخدا پرستی وامن وسلامتی کی بہشت سامانیہ ہوں،یہی احساس آپ کے دل کی دھڑکن بن کر اشعار کے قالب میں ڈھلتا چلا گیا۔10مئی1986ء کو بقول ڈاکٹر صاحب مولانا دعوت ٹرسٹ کی میٹنگ سے شرکت کے بعد دہلی سے رام پور واپس تشریف لائے،11مئی کو رمضان المبارک کا استقبال کیا اورروزہ رکھا،صبح نماز فجر کے بعد حسب معمول درس حدیث دیا اورفرمایا:میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں کل روزہ رکھوں گا،نماز پڑھوں گا اوردرس دے سکوں گا اوریہ بھی نہیں کہہ سکتاکہ اگلا روزہ بھی مل سکے گا؛ اس لیے میں خدائے تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ کو امسال بھی رمضان کا روزہ رکھنے کی توفیق دی،ہم کو اپنی زندگی سے’کل‘‘کا لفظ نکال دینا چاہیے اورجو بھی اللہ کے احکامات اورعبادات ہم پر فرض ہیں،ان کی تکمیل اس طرح کرنی چاہیے،گویا یہ آخری عبادت ہے۔13مئی1986ء کی شب میں پیٹ میں شدید درد ہوا،شب میں ہی معالج بلائے گئے اوریہ سلسلہ14مئی تک چلتا رہا،معالج آتے رہے،جاتے رہے،تبدیل کئے جاتے رہے؛لیکن مرض کی صحیح تشخیص اس وقت ہوسکی،جب مرض اپنی انتہا کو پہنچ چکاتھا،16مئی کو شب میں ڈاکٹر صاحب پٹنہ سے رامپورپہونچے، والد محترم صدر اسپتال رامپور میں ایڈمٹ ہیں،یہ خبر سنتے سنتے ہی فوراً اسپتال پہونچے،علیک سلیک کے بعد ڈاکٹر صاحب کے تاخیر سے آنے کی وجہ دریافت کی،اسی درمیان باتوں کا سلسلہ چلتا رہا،اسی شب 12بجے وہ بریلی مشن اسپتال لے جائے گئے،وہاں بہت سےTestاورجانچ کے بعدمرضIntestinal Obstructionتجویز کیا گیا،جس کاآپریشن صبح ہونا طے پایا؛کیوں کہ ابھی خون کا نظم کرنا باقی تھا؛لیکن مالک حقیقی اپنے بندے کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔صبح کا نور جب پھیل رہا تھا،ایک نورانی چہرہ اپنے مالک حقیقی سے ملاقات کی خاطر رخت سفر باندھ کر اس کی دہلیز پر پہونچ گیا اورچند ہی لمحوں میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی،تدفین بھی رامپور میں ہی ہوئی۔(ماخوذ ازتذکرہ اولاد وخلفاء:حضرت سیدنا امیر سید محمد قادری امجھری قدس اللہ سرہ العزیز،مرتبہ پروفیسرڈاکٹر سیدفضل اللہ قادری)
تعلیم وتعلم:
پروفیسرڈاکٹر سید فضل اللہ قادری طال اللہ عمرہ کی ابتدائی تعلیم اپنے نانا سید محب اللہ قادری سے حاصل ہوئی،اس کے بعد ہندوستان کی مشہور علمی درس گاہ اسلامی رامپور میں داخل کرائے گئے۔ثانوی اوراعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے،وہاں سے فراغت کے بعد 1972میں گورنمنٹ طبی کالج میں داخلہ لیا،شروع شروع میں ڈاکٹر صاحب کے والد ماجد حضرت مولانا سید احمد عروج قادری علیہ الرحمہ نے اس شعبہ میں داخلہ پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی،بعدکو سب کچھ درست ہوگیا۔1977میں طب یونانی سے فراغت کے بعد1978ء میں یونانی میڈیکل ٓافیسر کی حیثیت سے پہلی پوسٹنگ غوثیہ کلاں ضلع رہتاس میں ہوئی،پھر کچھ عرصہ اورنگ آباد صدر اسپتال میں میڈیکل آفیسررہے،1983ء میں گورنمنٹ طبی کالج میں تقرر ہوا اور یہاں سے درس وتدریس کا سفر شروع ہوا اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوتے ریڈر، پروفیسر او رصدرر شعبہ مقررہوئے اور دسمبر 2010 میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
صحافتی سرگرمیاں:
گورنمنٹ یونانی طبی کالج پٹنہ سے سبکدوشی کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب نے طبی مشغولیت کو برقراررکھا اورپھلواری شریف صدر بازار سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر خانقاہ مجیبیہ کے قدیم راستے میں’’ابن سینا یونانی کلینک‘‘ کے نام ادارہ قائم کیا،یہاں سے ڈاکٹر صاحب نے طبی خدمات کے علاوہ طب یونانی سے متعلق مضامین ومقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ڈاکٹر صاحب دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے طالب علمی کے زمانے سے ہی دینی اورتاریخی مضامین لکھنا شروع کردیاتھا؛البتہ طب کی تعلیم کے بعدتحریر کا رخ بدل گیااورڈاکٹر صاحب نے طبی مضامین لکھناشروع کردیا۔ڈاکٹر کے مضامین ومقالات ملک وبیرون ملک کے رسائل ومجلات میں ترجیحی بنیاد شائع ہوتے ہیں۔آپ نے 1992میں گورنمنٹ طبی کالج کے شعبہ’’انجمن خدام طب‘‘کے مجلہ’’طبیب‘‘کی ادارت سنبھالی،اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کاملک کے طبی سیمیناروں میں شرکت کا موقع ملنا شروع ہوگیا۔
انجمن خدّامِ الطب کے صدر کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کالج کے طلبہ و طالبات کو طبی مضامین لکھنے پر اُبھارتے اوراسے ملک سے شائع اخباروں ورسائل میں شائع کرانے کے لیے کوشاں رہتے،اسی ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے کئی اخبارات کے مالکان کوخصوصی صفحہ شائع کرنے پرراضی کرلیا ،اس کے بعد اردواخبارات نے بھی طبی صفحات کا اضافہ کیا اورڈاکٹر کی کوششوں کوسراہا۔
ڈاکٹر صاحب نے ا نجمن خدام الطب کے ذریعہ ماقبل نکلنے والے مجلہ طبیب کی اشاعت جدید کے لیے بھی کوشاں رہے،جو 1932ء سے بند تھا،1992ء میں اس میںکامیابی مل گئی، اس طرح 92 سے 2005ء تک تین شمارے اپنی ادارت میںنکالے اورطبی صحافت کو خاص طور پر بہار میں زندہ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی،اسی دورانیے میں ڈاکٹر صاحب نے ہند و پاک کے کئی مؤثر ومعروف طبی رسائل و اخبارات کے لیے بھی مضامین لکھے؛مثلاًفکر صحت(رامپور)،نوائے طب و صحت (الہٰ باد)،قومی تنظیم (پٹنہ)،فاروقی تنظیم(پٹنہ)،پندار (پٹنہ)،دعوت(دہلی)،نئی دنیا(دہلی)، برکات طب(پاکستان)وغیرہ۔مجلہ طبیب کی ادارت قبول کرنے کا ڈاکٹر صاحب کا اصل مقصد طبی صحافت کے توسط سے طب یونانی کی ترویج و اشاعت کے ساتھ فن کی گرتی مقبولیت کو عروج عطاکیااور ڈاکٹر صاحب یہ کوشش اب آل انڈیا یونانی طبی کانگریس(AIUTC) نئی دہلی کے پلیٹ فارم ہورہی ہے۔ مجلہ طبیب کے ذریعہ طبی صحافت کو خوبصورتی اور ذمہ داریوں کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش میںمجلہ طبیب کے شمارہ(2005) میں’’طبی صحافت قدم بہ قدم‘‘ کے عنوان سے جو مضمون ڈاکٹر صاحب نے قلم بند فرمایا،وہ بہت ہی معلوماتی اور تحقیقی تھا۔اپنی اسی طبی صحافت کے وسیلے سے دنیائے طب یونانی سے نکلنے والے رسائل سے متعارف ہوئے اورکئی رسالوں جیسے نوائے طب و صحت اورفکر صحت نے صلاح کار مجلس ادارت میں آپ کوشامل کیا۔مجلہ ضیاء وجیہ (رامپور) میں حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہُ سے متعلق ایک عربی مضمون کا اردو ترجمہ شائع ہوا۔ طب مشرق (دہلی) کے سرطان نمبر میں’سرطانِ رحم‘،سہ ماہی ’جہانِ طب‘(دہلی) میں ایک تحقیقی مضمون’زکریا رازی بحیثیت دواساز‘شائع ہوا۔روزنامہ قومی تنظیم(پٹنہ) میں طب نبوی کے عنوان سے طویل 18 قسطین شائع ہوئیں۔آپ کی دونوں کتابیں (1)’’اصطلاحات کلیات ادویہ و صیدلہ،(اشاعت اردو اکادمی بہار کے مالی تعاون)(2)اورکتاب المفردات(اشاعت اردو ڈائیرکٹوریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون) روزنامہ قومی تنظیم کے صفحات کو زینت بخشنے کے بعد ہی کتابی شکل میںشائع ہوئے۔آپ نے CCRUMکے شیخ بو علی سینا سیمینار میں ایک شاندار مقالہ’ القانون فی الطب،طبی بائبل‘کے تعارف میں پیش کیا۔علاوہ ازین وقتاََ فوقتاََمختلف رسائل واخبارات میں مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
ستمبر2018میں بہاراردواکادمی میںیک روزہ طبی سیمینارڈاکٹر صاحب کی صدارت میں منعقدہوئی،جس میں تنظیم کے جنرل سکریٹری جناب ڈاکٹر سید احمد خان، ڈائرکٹر راج بھاشا جناب امتیاز احمد کریمی وحکیم اجمل،عمران قنوجی،صلاح الدین عمران اور دیگر دانشوران بہار و یوپی شامل ہوئے،اس موقع سے ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ طب کی ترقی و فروغ کے لیے تنظیم جو خدمت انجام دے رہی ہے،وہ قابل قدر ہے،انہوں نے مزید کہاکہ سرزمین عظیم آبادطب یونانی کی تصنیفی،تدریسی اور معالجاتی خدمات کے معاملے میں پورے ملک کا چوتھا مرکز ہے۔
22مئی2023ء کو آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کی قومی جنرل باڈی کی اہم نشست جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی میں پروفیسرڈاکٹر فضل اللہ قادری کی صدارت میں منعقد ہوئی،جس میں انہوں نے مرکزی حکومت کی وزارت آیوش کے تحت قائم نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن (این سی آئی ایس ایم) میں طب یونانی کی نمائندگی کو صفر کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بہتر پوزیشن میں ہم سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن (سی سی آئی ایم) میں تھے۔ امید تھی کہ سی سی آئی ایم کی جگہ این سی آئی ایس ایم میں بھی طب یونانی کو مناسب مقام ملے گا؛ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے سابقہ مطالبہ پر قائم ہیں اور ہمیں این سی آئی ایس ایم میں یا تو مناسب نمائندگی دی جائے، یا پھر ہومیوپیتھی کی طرز پر علاحدہ نیشنل کمیشن فار یونانی میڈیسن (این سی آئی ایس ایم) کا قیام عمل میں لایا جائے۔انہوں نے اس موقع سے یہ بھی کہا کہ ممتاز مجاہد آزادی مسیح الملک حکیم اجمل خاں کی تحریک ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، ہم ان کے وارث ہیں اور ان کی میراث کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
طب یونانی کی ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اردو زبان وادب کی خدمت کو اپنی ترجیحات میں شامل کئے ہوئے۔لاک ڈاؤن کے بعد جب حالات معمول پر آگئے تو ڈاکٹر نے اپنے دولت خانہ 301؍حسن پلازہ ،خلیل پورروڈ،پھلواری شریف پٹنہ میں صوبہ بھر کے دانشوران اوراردو دوست احباب کی ایک نشست علامہ اقبال کی یوم پیدائش کے موقع سے کیا اوراس نشست کے سارے اخراجات کو ڈاکٹر صاحب نے خود ہی برداشت ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو زیادہ سے زیادہ طبی اورادبی خدمات کی توفیق عطاکرے اورصحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔(آمین)
ایوارڈ:
ڈاکٹر صاحب کی طبی صحافت وخدمات کے اعتراف میں بھارتیہ سنسد،سمستی پور(بہار)نے مسیح الملک حکیم اجمل خاں ایوارڈ سے نوازا۔ 2018میں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کی طرف سے مغربی بنگال کے ایک انٹرنیشنل سیمینار میں گورنر مغربی بنگال کے بدست طبی خدمات اوردرس وتدریس وتعلیمی خدمات کے حوالے سے حکیم کبیر الدین ایوارڈ سے سرفراز ہوئے۔9نومبر2019ء کوعالمی یوم اردو کے موقع سے’’جدید ہندوستان میں اردو کی حقیقی ترقی:کیوں اورکیسے؟‘‘ عنوان سے غالب اکیڈمی نئی دہلی میں منعقدپروگرام میں’’قاضی عدیل عباسی ایوارڈ برائے علمی وطبی خدمات‘‘ سے نوازے گئے،نیز توصیفی سند اورشال کے ذریعہ عزت افزائی کی گئی۔اس کے علاوہ مختلف سیمیناروں اورپروگراموں میں ڈاکٹر صاحب کی عزت افزائی کی گئی۔
تصنیف وتالیف:
(۱) امام احمد ابن حنبل اورمسئلۂ خلق قرآن(اشاعت ہفتہ وار مدینہ[بجنور] 1972ء)یہ ڈاکٹر سید فضل اللہ قادری کی اوّلین تخلیق ہے،جو انہوں نے طالب علمی کے زمانہ میں قلم بند کیا تھا،اس کتاب میں قرآن کریم کے مخلوق اورغیرمخلوق ہونے اوراس سلسلہ میں امام احمد بن حنبل کے نظریہ کو بیان کیا گیا ہے۔
(۲) اصطلاحات کلیات ادویہ و صیدلہ،(اشاعت:اردو اکادمی بہار کے مالی تعاون سے)کلیات ادویہ کا مطلب ہوتا ہے:دوائیوں کی عمومی معلومات،جب کہ صیدلہ کا مطلب ہوتا ہے‘‘دوائیوں ودواسازی کا علم،اس کتاب ’’المفردات‘‘میںطب یونانی سے متعلق ادویات کے نام، شکل، رنگ، خوراک، استعمال، اثرات، احتیاط، نقصان، مخالفت، مضرومصلح وغیرہ معلومات واصلاحات کوبیان کیا گیا ہے۔
(۳) کتاب المفردات(اشاعت:اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے)اس کتاب میں طب یونانی کے مفرد ادویہ اوراس کے افعال کو بیان کیا گیا ہے۔
(۴) تذکرہ اولاد وخلفاء:حضرت سیدنا امیر سید محمد قادری امجھری قدس اللہ سرہ العزیز(اشاعت:سید شاہ جمال الدین عابد قادری امجھری،ناظم خانقاہ عالیہ قادریہ محمدیہ وناظم مدرسہ امیر محمدیہ،امجھر شریف،اورنگ آباد(بہار) کے مالی تعاون سے)اس کتاب میں سیدمحمد قادری امجھری کی اولاد وخلفاء کا تذکرہ ہے،جناب حکیم شعیب رضوی کی تصنیف ہے،ڈاکٹر سید فضل اللہ قادری اسے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔
(۵) امراض جلد[ماخوذ ومنتخب از:مجلہ’’الحکیم‘‘لاہور،مطبوعہ ماہ نومبر۱۹۳۲ء،مطابق ماہ رجب۱۳۵۱ھ، ودسمبر۱۹۳۲ مطابق ماہ شعبان۱۳۵۱ھ، حصہ اول ودوم](زیرترتیب)اس کتاب جلدی امراض سے متعلق معلومات کا ذخیرہ ہے،مجلہ’’ الحکیم‘‘لاہورکے ذریعہ دوشمارے شائع ہوئے،جس میں جلد سے متعلق مختلف امراض کا تذکرہ ہے اورجس میںمختلف حکیموں ،ویدوں اورڈاکٹروںکے ذریعہ یونانی،آیورویڈک،ہومیوپیتھی اورایلوپیتھی طریقۂ علاج سے دواؤں کی تشخیص کی گئی ہے۔
(۶)امراض جگر وطحال(زیرترتیب)
خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر فضل اللہ قادری جہاں طرف طب یونانی کی خدمت میں سرگرم کردار ادا کررہے ہیں،وہیں ڈاکٹر صاحب نے اردو زبان وادب کی خدمت کواپنی دلچسپیوں کا موضوع بنا رکھا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صحت وعافیت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے اورزیادہ سے زیادہ طبی وادبی خدمات کا موقع مرحمت فرمائے۔آمین
Comments are closed.