Baseerat Online News Portal

پاکستان کی نئی حکومت تسلیم نہ کی جائے، امریکی کانگریس کے ۳۱؍اراکین کامطالبہ

بصیرت نیوزڈیسک
امریکی کانگریس کے اکتیس اراکین نے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے نام اس مکتوب پر دستخط کیے ہیں، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے، جب تک انتخابی دھاندلی اور اس میں مداخلت کی تحقیقات نہیں کر لی جاتی ہیں۔
جن قانون سازوں نے مشترکہ خط پر دستخط کیے ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ انہوں نے پاکستان کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پولنگ سے قبل اور ووٹنگ کے بعد ہونے والی مبینہ دھاندلی اور غیر شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان امریکی قانون سازوں نے انتخابات کے دن ہونے والی مبینہ خلاف ورزیوں اور رکاوٹوں کے شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے نئی پاکستانی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ خط بدھ کے روز تحریر کیا گیا تھا، جس میں صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے سے باز رہیں، جب تک کہ ”انتخابی مداخلت کی مکمل، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات” نہیں کر لی جاتیں۔
اس میں کہا گیا ہے، ”پاکستانی حکام پر زور دیا جائے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو رہا کریں، جو سیاسی بیان بازی یا سرگرمی میں ملوث ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہو۔ پاکستان میں محکمہ خارجہ کے اہلکاروں کو ایسے معاملات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کہا جائے اور ان سے ایسے افراد کی رہائی کی وکالت کی جائے۔”
اس خط میں بائیڈن اور بلنکن پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستانی حکام پر واضح کر دیں کہ اگر ان متعلقہ اقدامات پر عمل نہ کیا گیا، تو واشنگٹن پاکستان کے ساتھ عسکری اور دوسری طرح کے تعاون کو روک بھی سکتا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے 31 ڈیموکریٹک ارکان کے دستخط کردہ اس خط کی قیادت گریگ کیسر اور سوسن وائلڈ نے کی ہے۔ دستخط کرنے والے نمائندوں میں پرمیلا جے پال، راشدہ طلیب، رو کھنا، جیمی راسکن، الہان عمر، کوری بش اور باربرا لی جیسے اہم سیاستدان شامل ہیں۔
گریگ کیسر نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس خط کے متن کو شائع کیا اور کہا کہ پاکستان کے انتخابات کے نتائج عوام کی مرضی کے مطابق ہونے چاہئیں۔
انہوں نے لکھا، ”جمہوریت اور تمام پاکستانیوں کی خاطر، ہم بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس وقت تک نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے باز رہیں، جب تک کہ تحقیقات سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی۔”
خط پر دستخط کرنے والے ارکان ترقی پسند خیالات کے ہیں اور وہ اس ٹیم کا بھی حصہ ہیں جو صدر جو بائیڈن کے آئندہ انتخابات کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
قانون سازوں نے انتخابات کے بعد دھاندلی کے خدشات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نتائج کی میں تاخیر، بدسلوکی کے ویڈیوز اور ووٹوں کے ٹوٹل میں فرق کا حوالہ دیا ہے۔
قانون سازوں نے دلیل دی کہ پاکستان میں جمہوریت کا تحفظ اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ انتخابی نتائج حقیقی طور پر اشرافیہ اور فوج کے بجائے عوام کے مفادات کی عکاسی کرتے ہوں۔ اور ”یہی امریکی مفادات سے بھی ہم آہنگ ہے۔”
واضح رہے کہ پاکستان میں آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تھے اور اس دن موبائل و انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے عوام کا کافی نقصان ہوا تھا۔ انتخابات کے دوران بہت سی گرفتاریاں ہونے کے ساتھ ہی تشدد برپا ہوا اور نتائج میں غیرمعمولی تاخیر ہوئی، جس کے نتیجے میں یہ الزامات لگائے گئے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ان مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کے بارے میں تحقیقات پر زور دیا ہے۔

Comments are closed.