خانقاہیں :روحانیت کے مراکز

 

الطاف جمیل
شاہ سوپور کشمیر

مشورے کے عین مطابق ایک بار ہم اپنے چند انتہائی معزز اور عزیز دوستوں کی رفاقت میں وادی کے ایک معروف ضلع جو اپنی خوبصورتی اور پھل کی مختلف اقسام اور اعلی معیار کے سبب معروف ہے وادی کشمیر میں کی طرف روانہ ہوگئے جہاں جانا ہمارے دل کی اجڑی یادوں میں اک بہت بڑی تمنا تھی کہ اس شہر کو اپنی نگاہوں سے دیکھا جائے اور اس کی مختلف یادوں کو قلب کی وسعت میں یوں بسایا جائے کہ تسکین قلب کا باعث ہو اس لئے ایک بار طے ہوگیا کہ اس شہر کی اور جانا ہی جانا ہے سو صبح ہی صبح نکلے اور چل پڑے گاڑی اپنی برق رفتاری سے دوڑ لگائے ہوئے تھی اور ہم اپنی خوش گپیوں میں مصروف کہ اچانک سے راستے بلند ہونے شروع ہوئے اور بل کھاتی ہوئی سڑک جیسے سانپ کی آنت ہو سامنے منہ چڑائے جارہی تھی اب ۔۔
جوں ہی اس ضلع کی دہلیز پر قدم رکھا تو سامنے ہی ایک چھوٹی سی ندی جو سڑک کے کنارے کے بالکل بغل سے بہہ رہی تھی خوبصورت اور لذیذ پانی کے ساتھ خاموشی سے رواں دواں تھی دور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سفید چادر بچھائے برف اس علاقے کو اور بھی خوبصورت بنارہی تھی جیسے کہ یہ پہاڑ کہہ رہے ہوں کہ ہم ہی ہیں اس ضلع کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہم حد سے زیادہ مغموم ہیں کیوں کہ یہاں کی ہر آہ و فغاں کے ہم ہی امین ہیں اور ہر سسکتے ہوئے دل کی اجڑی ہوئے داستان کرب و اذیت کے بھی گواہ ہیں مجھ میں۔ ہزاروں راز دفن ہیں پر کیا کروں ٹوٹنے کے باوجود کھڑا ہوں کیوں کہ یہ بقاء کا اک باب ہے جسے میں فراموش نہیں کرسکتا ۔۔
آج اتوار ہے اور اسی کے ساتھ ہم ایک معروف۔ دانشگاہ کے سامنے کھڑے ہوئے جہاں طلبہ آس پاس ہی گھوم پھر رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ چھٹی کا دن ہے جب کہ اصل میں ایسا نہیں تھا بلکہ شاہد نماز کا وقت قریب ہونے کے سبب ایسا تھا کہ طلبہ باہر گھوم پھر رہے تھے صحن میں مگر حسرت کا ایک چھوٹا سا ہیولا دل سے بلند ہوا میں نے محسوس کیا کہ زندگی کی اصل یہاں تو ہے ہی نہیں نہ محبت نہ حکمت نہ جوش و جذبہ سے سے سرشار چہرے تو بے ساختہ زبان پر یہ شعر آگیا
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
ایک طالب علم سے پوچھا کہ بھائی مہتمم صاحب ہیں کیا حضرت مولانا کی سادگی کے بارے میں جو کچھ سنا تھا دیکھا تھا اک غائبانہ محبت سی ہوگئی تھی کہ مزاج خانقاہی کا یہ شیدائی اور صف اول کا طالب علم واقعی قابل رشک و قابل قدر ہوگا یہاں خانقاہ کی لذت آفرینی ہوگئی بلند نگاہی و فکر یزداں کا عروج ہوگا یہاں روحانیت طمانیت قلب کی بارش ہوگئی اسرار و رموز کے وہ دروس ہوں گئے کہ سیاہ قلوب بھی تھرا اٹھیں گیے مگر صورت حال کچھ یوں تھی کہ
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے
سامنے کئی لوگ تھے جو مہذب نہیں بلکہ غیر مہذب انداز میں ایستادہ تھے کچھ اس کمرے کی دیواروں سے ٹیک لگائے یاس و حسرت کے نمونے بنے ہوئے تھے اس بھیڑ کے درمیان ہماری امیدوں کا چراغ کچھ اس انداز سے مصروف تھا کہ دم پر دم لگائے جارہا تھا ایک کو دم کیا تو دوسرا پھر تیسرا کسی کے ہاتھ میں پانی کا بوتل تو کسی کے ہاتھ میں پورا ڈبہ ہے مجھے انتہائی قلبی اذیت محسوس ہوئی کہ یہ ہمارے حضرت کہاں جارہے ہیں اکابرین کے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا تھا کہ دن بھر صرف لوگوں پر دم کرتے رہیں اور لوگوں کو یہ احساس بھی نہ دلایا جائے کہ آپ نے اس قدر جم غفیر جو کیا ہے میرا دم گھٹ رہا ہے پھر گر علماء و مشائخ اس دم گھٹنے والی صورت کو برقرار رکھنے کے لئے دن بھی وقت بھی مقرر کریں تو اللہ ہی حافظ ہے پھر ہمارا مایوسی اور بے کسی کا بوجھ دل پر لئے میں نے بنا ملاقات کے ہی واپسی کا رخ کیا اور ہزار اداسیوں کے ساتھ آکر میں گاڑی میں واپس سوار ہوا ایک دوست نے پوچھا کیا ہوا کہ آپ ملے نہیں!
تو عرض کیا یہ وہ جگہ نہیں جہاں کا سنا تھا نمونہ ہیں اسلاف کے میں کیا کروں فاروقی خون رگوں میں کیا قلب میں بھی دستک دے بیٹھا کہ چل کہیں اور چل یہ محفل تمہاری نہیں ہے مجھے شیخ تھانوی رحمہ اللہ کی وہ شدت ہی اچھی لگئی جو وہ اس سلسلے میں کرتے تھے مجھے شاہ ابرارالحق رحمہ اللہ آج رہ رہ کر یاد آئے کہ ہائے میرے مرشد مجھے مفتی ارشد بجھیڑی کی سخت یاد آئی جن کے ہاں ایسا سوچنا بھی محال ہے خیر واپسی کا سفر شروع تو ہوا پر میں اپنے جذبات و احساسات کا بوجھ ہلکا نہ کرسکا سو دور دو نظر دوڑاتے ہوئے کب چھن سے نگاہ نم ناک ہوئی خبر ہی نہ ہوسکے ایک دوست نے کہا کھانا کھاتے ہیں پہلے ہاں کی اس لئے کہ اگر میں نا کہوں یہ بھی نہیں کھائیں گئے پھر کھانے کے عین وقت پر کہہ دیا بھائی آپ لوگ کھائیں مجھے معاف کریں میں کھانا نہیں کھاؤں گا کیوں کہ دل کہہ رہا تھا ان سے کہہ دوں کہ سنو ادھر امت کا مزاج اور بھروسہ مر رہا ہے اور یہاں آپ کو کھانا کھانے کی پریشانی ہے سو نہیں کہا کہ کہیں ان کے دل اب نہ ٹوٹ جائیں پر حق یہ کہ میں خوف ٹوٹ سا گیا ہوں ؎
جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدو
اقبال کا مرثیہ یہ تھا کہ عقل کی تو آبیاری ہورہی ہے پر روح تو پھر بھی بیکار ہی پڑی ہوئی ہیں جو شاید تشنہ بہت تشنہ ہی ہیں کاش یہاں ظاہری بیماری کے ساتھ ساتھ بروقت اس مضمحل روح کا بھی کچھ علاج ہوتا جو اندر ہی اندر سسک رہی ہے جس کا ہر حصہ بے قراری اور الجھنوں کی دبیز تہوں میں دم بخود ہورہا ہے پر شاید ایسی لذت افکار و معارف کے لئے ہمارے قلوب اور ہم مسافر ابھی لائق نہیں سو زندگی کا یہ معیار کب تک ہمارا بوجھ بلا وجہ اٹھائے ڈھوتا ہے یہ اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے پر جب دل اجڑ جائے تو کیا زندگی ہوتی ہے پھر ۔۔
مجھے نہیں خبر کب اور کیوں اور کیسے میں اس خانقاہی مزاج سے آشناء ہوتا گیا اور کب دل کو اس مزاج کی آگہی سے قرار آنے لگا شاید سعید نورسیؒ کو پڑھ کر یا شیخ حسن البناءؒ کی فکر کو پڑھتے ہوئے یا پھر اپنے بزرگوں جو وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں محو خواب ہیں ان کے کارہائے نمایاں کو جان کر یا پھر اپنے روحانی مرشد مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مزاج خانقاہی کو سن کر پڑھ کر یا جان کر میں سمجھتا ہوں خانقاہیں وہ تربیت کے روحانی مراکز ہیں جہاں بکھری روحوں کو طمانیت نصیب ہوتی ہے جہاں کی علمی اور فکری مجالس میں تسکین قلب کا وافر حصہ میسر ہوتا ہے جو انسان کی روح کو پاکیزگی اور اعلی معیاری فکر سے متعلق کر دیتا ہے سو یہ مزاج خانقاہی کی ہی ثمرات ہیں کہ اطراف و اکناف میں وادی میں صدائے لا الہ الا اللہ بلند ہورہی ہیں اور مسلسل بلند ہو بھی رہی ہے مگر اب ان خانقاہی افکار و معارف کی جیسے آج کل مٹی پلید کی جارہی ہے وہ ہمارے لئے سوہان روح سے بھی زیادہ اذیت ناک ہیں چھوٹے چھوٹے سے معصوم صورت لوگوں نے خود ہی خود کو خلعت خلافت سے سرفراز کیا ہوا ہے اور ایک عدد خانقاہ کی داغ بیل ڈالی کر عوام کو سیراب کرنے کے بجائے گرداب کی اور دھکیل کر اپنے جبہ کو مزید قیمتی اور اپنی جیب کی مزید وسعت کی جستجو کا جذبہ دل میں بسائے کسی اور ہی جہاں کی اور رواں دواں ہیں ہائے وہ مزاج خانقاہی جو ہمیں اپنے اسلاف سے ملا تھا اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے ۔
کیوں کہ نہ ہی کوئی سعید نورسی ؒ ہی میسر آرہا ہے اور نہ ہی کوئی مرجع علماء مولانا امداد اللہ مکی مہاجری جیسا مزاج کا صاحب دل اور نہ ہی وادی کشمیر کے غیور بیٹے اور فخر کشمیر شیخ نورالدین نورانی جیسا نبض شناس اور پاکیزہ افکار و معارف جیسا صاحب بصیرت اور نہ ہی شیخ حمزہ مخدوم رحمہ اللہ جیسا مجدد اور احیاء سنت کا پاسبان نہ ہی طلبہ کی قبیل سے بابا داؤود مشکاتی نہ ہی بابا داؤد خاکی جیسا مرد دانا شیخ یعقوب صرفی رحمہ اللہ جیسے لوگ تو اب ناپید ہی ہوتے جارہے ہیں ۔
سو المیہ ہی المیہ ہے کاش کوئی مرد دانا ایسا بھی ہو جو اس مزاج کی ایسی آبیاری کر جائے کہ اس کی فکری اور روحانی تربیت ہمارے لئے باعث افتخار ہوجائے
سلامت رکھے رب
فی امان اللہ

Comments are closed.