ہمیں اپنی پسماندگی کے حقیقی اسباب سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے

علاج تبھی ممکن ہے جب مرض کی صحیح طور پر تشخیص ہوجائے
عبدالغفارصدیقی
9897565066
کہتے ہیں کہ آدھی بیماری مرض کی درست تشخیص سے دورہوجاتی ہے ۔اسی لیے ماہر ڈاکٹر اور حکماء مرض کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔فی زمانہ تشخیص امراض کے لیے باقاعدہ لیب اور جانچ مراکز قائم ہیں ۔مریض کے ہزاروں روپے ٹیسٹ اور جانچ میں خرچ ہوجاتے ہیں ۔جسمانی امراض کی طرح فرد کو اپنی روحانی بیماریوں کی وجوہات کا بھی پتا لگانا چاہئے ۔آپ کا دل اگر نیک کے کاموں کی طرف راغب نہیں ہورہا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی ۔بغیر وجہ جانے علاج کرانے سے مرض دور ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں ۔اسی طرح قوموں کی اجتماعی بیماریوں کی بات ہے ۔قوموں کی بڑی بیماری ان کی پسماندگی ہے ۔خاص طور پر ایک ایسی قوم جس کے غلبہ کی بشارتیں اس کی آسمانی کتاب میں درج ہوں اور وہ وعدہ الٰہی کے مطابق ایک عرصہ دراز تک دنیا میں عروج کا مزہ چکھ چکی ہو اس کے بعد اس کو زوال اور پسماندگی کا مرض لاحق ہوا ہو تو اسے اپنے مرض کے حقیقی اسباب کا پتا ضرور لگانا چاہئے ۔
مرض کی تشخیص سے قبل یہ عرض کردوں کہ امت مسلمہ دیگر اقوام کی طرح کوئی قوم نہیں ہے ۔بلکہ امت مسلمہ کی حیثیت روئے زمین پر اللہ کے داعی کی ہے۔نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں ۔ان پرایمان لانے والے ان کے پیروکار ان کے امتی ہیں ،اس امت کا مقصد وجود معروف کا غلبہ و اظہار اور منکرات کا ازالہ کرناہے ۔اس کے پاس خدا کی آخری امانت ہے ۔اس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ ہر بندہ خدا تک اللہ کا پیغام پہنچائے ۔محمد ؐ پر ایمان لانے والے دراصل اللہ کے وہ منتخب انسان ہیں جنھوں نے کلمہ شہادت کا اقرار کرکے اللہ سے اپنی جان و مال کا سودا جنت کے عوض کرلیاہے۔اس بیع کے ایگریمنٹ میں یہ شرط درج ہے کہ ’’ مومنین اپنی جان اور مال کا تصرف الٰہی احکامات و منشاء کے مطابق کریں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے دنیا میں انھیں غلبہ اور آخرت میں جنت عطا فرمائے گا ۔‘‘ ایمان اور عمل صالح کے جواب میں’’ استخلاف فی الارض ‘‘ اور ’’حیات طیبہ ‘‘ کی گارنٹی دی گئی ہے ۔اس معاہدے پر ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ہر شخص اپنے حاصل شدہ اختیارات کے بارے میں جواب دہ ہے ۔ایک مزدور کو اپنی مزدوری کا جواب دینا ہے تو ایک سرمایہ دار کو اپنے مال کا ،ایک عالم کو اپنے علم کے مطابق خود عمل کرنے کا بھی اور دوسروں کو بتانے کا بھی جواب دینا ہے ۔رہنمایان قوم اور امرائے جماعت و سلطنت کا دائرہ احتساب ان کو حاصل اسباب و اختیارات کے مطابق ہوگا ۔ہمیں اپنی پسماندگی کے اسباب کا جائزہ اس معاہدۂ بیع کی روشنی میں لینا ہے ۔
اب ذرا خودپر اور اپنے آس پاس نظر ڈالیے ۔مجھے لگتا ہے کہ پوری دنیا میں پانچ فیصد مدعئی ایمان بھی اس بیع کی شرائط پر عمل نہیں کررہے ہیں ۔یہ پانچ فیصد بھی ہوسکتا ہے میں نے زیادہ کہہ دیا ہو۔بھارت و پاکستان میں یہ شرح منفی اعشایہ کی حد تک گری ہوئی ہے ۔کیا چھوٹا کیا بڑا ،کیا عالم کیا جاہل جسے دیکھیے اس ایگریمنٹ کی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔
یہ بھی یاد رکھئے کہ کوئی بھی گندگی نیچے سے اوپر کی طرف نہیں بہتی بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتی ہے ۔دنیا بھر کے ندی نالوں اور دریائوں کو دیکھ لیجیے وہ سب اوپر سے نیچے کی طرف بہتے ہیں ۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ اوپر کچھ کم گندگی شامل ہو اور آتے آتے درمیان سے مزید نجاستیں شامل ہوجائیں ۔اس کلیہ کی روشنی میںہمیں اپنے رہنمائوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اس معاھدہ کی پابندی کررہے ہیں ؟اللہ نے ان کو جس بلند مقام پر بیٹھایا ہے کیا وہ اس کا پاس ولحاظ کررہے ہیں ؟کیا وہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ اسی چراغ کی روشنی میں انجام دے رہے ہیں جو انھیں محمد عربی نے دیا تھا یاانھوں نے اس چراغ کو گل کرکے اپنی خواہشات کے چراغ جلالیے ہیں ؟فی زمانہ ان کو زمین کے اقتدار اور عوام پر حکمرانی کے جو مواقع حاصل ہیں کیاوہ ان کا حق ادا کررہے ہیں ؟ہمارے رہبران اور علمائے کرام جس چیز کا مطالبہ اپنے متبعین و ممبران سے کررہے ہیں وہ خود ا س پر کتنا عمل کررہے ہیں ؟وغیرہ یہ وہ سوال ہیں جن کے جوابات کی روشنی میں کسی حد تک ہم اپنی پسماندگی کے اسباب کا تعین کرسکتے ہیں۔
بارگاہ رب میں ہر روز لاکھوں ہاتھ حصول مدد کے لیے دراز ہوتے ہیں ،ہر جمعہ میںاسلام کو غالب کرنے اور کفر و باطل کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں کی جاری ہیں ،اس کے باوجودکفر ہے کہ مزید پھل پھول رہا ہے ۔ اللہ ہماری دعائیں کیوں نہیں سن رہا ہے ؟ہماری مسجد گرائی گئی ،مگراس نے ابابیلوں کا لشکر نہیں بھیجا ؟نہ صرف بھارت میں بلکہ دبئی تک میںعظیم الشان بت خانہ تیار ہوگیا اور اس کی پیشانی پر بل تک نہیں آیا ؟آئے دن اس کے دین میں دخل اندازی کی جارہی ہے ،اس کا نام لینے والوں کو مٹانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اس کی طرف سے کوئی ہل چل نہیں ہورہی ہے ؟اس کے دشمن پھل پھول رہے ہیں اور برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ دراصل ہم اس معاہدے کے خلاف عمل کررہے ہیں ،جو ہم نے جان اور مال کے بارے میں اللہ سے کیا تھا ۔اس کی مدد تو اس بات سے مشروط ہے کہ ہم اس کی مدد کریں گے تو وہ ہماری مدد کرے گا ۔(ان تنصروااللہ ینصرکم)ہم جب بدر و احد سجائیں گے تو ہماری مدد کی جائے گی اور ہماری دعائیں قبول کی جائیں گی ۔مگر یہاں تو بدرو احد سجانے کی تمنا اور خواہش بھی نہیں ہے ۔
ہم جتنا جائزہ لیتے جائیں گے مایوسی ہی ہمارے ہاتھ لگے گی اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا ۔ذرا سوچئے !قرآن ہمیں کس لیے دیا گیا تھا؟اور ہم اس کا استعمال کس طرح کررہے ہیں؟ملا تھا عمل کرنے کے لیے، مگر اسے ہم نے جن ،بھوت بھگانے اور مردوں کو بخشوانے کے لیے رکھ چھوڑا ہے ۔اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی بات علماء تک نہیں کرتے۔اس کی جگہ قصے کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہیں ۔حضرت محمد ﷺ کو اسوہ بنا کر مبعوث کیا گیا تھا ،وہ ہمارے لیے نمونہ تھے ،صرف ظاہر میںہی نہیں بلکہ ہماری پوری زندگی میں ،ہمیں اپنی معیشت وتجارت،اپنے تعلقات و معاملات،اپنی سیاست و قیادت کو ان کی سنت اور ان کی ہدایات کے مطابق ڈھالناتھا لیکن ہم نے کچھ ظاہری آداب کو سنت سمجھ کر اکتفا کرلیا ہے ۔نگوٹھا چومنے اور میلاد کو ہی حق رسول سمجھ لیا ہے ۔ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی رسول ؐ کے بشر ہونے ،غیب جاننے اور وسیلہ بنانے جیسے امور پر بحث ہورہی ہے ۔تجارت میں سود خوری اور بے ایمانی ،عائلی امور میں برادری اور قبیلہ کے بنائے ہوئے اصولوں کی پاسداری اورسیاست میں باطل کی علم برادری کی جارہی ہے ،پھربھی اپنی پسماندگی کا سبب پوچھتے پھرتے ہیں۔
ہماری پسماندگی کا سبب یہ ہے کہ ہمارے قائدین نے اپنی مفوضہ ذمہ داریاں ادا نہیں کیں ،بلکہ اپنے اسلاف کی داستانیں دہراتے رہے ۔ہمارے جذبات سے کھیلتے رہے ۔ایک شخص چار مرتبہ ایم ایل اے اور پانچ بار ایم پی رہتا ہے ۔اس کی اولاد کو بھی ایم ایل اے کی کرسی ملتی ہے اس کے باوجود جب اس کے حلقہ میں معلوم کیاجاتا ہے کہ کیا نیتا جی نے کوئی اسکول اور اسپتال قائم کیا ہے ؟کیا کوئی فلاحی ادارہ بنایا ہے؟ تو جواب نفی میں ملتا ہے ۔یعنی عمر عزیز کے پینتالیس سال وہ شخص قیادت کے منصب پر فائز رہا ۔اللہ نے اس کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں جہالت ،غربت اور بیماری کے خلاف مہم چلائے اور ان بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے ۔لیکن اس نے بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کیا ۔بظاہر وہ بہت دیندار انسان تھا ۔چہرے پر داڑھی کا نور تھا۔کرتا پائجامہ اور شیروانی زیب تن کرتا تھا ،اولیاء اللہ سے محبت کرتا تھا ،نماز روزے کا پابند تھا ۔اس کے جنازے میں ایک ہجوم تھا۔یہی حال ہے ہمارے پچانوے فیصد نیتائوں کا ۔ملک میں بلامبالغہ ہزاروں گرام پنچایتیں ایسی ہیں جہاں صرف مسلمان ہی پردھان بنتا ہے ،اسمبلیوں میں سینکڑوں ایم ایل اے ہیں اور کم سے کم دو درجن ایم پی بھی ہر پارلیمنٹ میں رہے ہیں ،لیکن سب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں ،ان کے لیے کام کوئی نہیں کرتا ۔ان کی پسماندگی پر مخالف سرکاروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ،خود عملی اقدامات نہیں کرتے ۔بدایوں ضلع میں ایک گائوں کا نام مصطفیٰ آباد ہے ،وہاں آزادی سے کر اب تک ایک ہی خاندان کے ہاتھ میں پردھانی ہے ،ایک بار ایس سی ایس ٹی کے لیے وہ سیٹ رزرو ہوگئی تھی تو اس خاندان نے اپنے نوکر کو پردھان بنادیا تھا ،اس گائوں میں اسکول اور اسپتال تو دور کی بات ہے سڑکیں اور پانی کی نکاسی تک کا انتظام بھی ٹھیک سے نہیں تھا ۔
ہماری پسماندگی کا سبب یہ ہے کہ ہم نے شورائیت اور صلاحیت کے بجائے موروثیت کو اپنے لیے پسند کیا ہے ۔وہ برائی جس کے لیے امام حسین ؓ نے کربلا کو لالہ زار کردیا تھا ،جس کی وجہ سے صرف یزید ہی نہیں صحابی رسول حضرت امیر معاویہ ؐ تک پر سوالیہ نشان لگاہوا ہے اسی طرز کو ہم باعث افتخار سمجھتے ہیں ،گزشتہ دنوں جامع مسجد دہلی میں امام صاحب نے اپنے جانشین اور پھر اس کے نائب(جو نابالغ ہے ) کی دستاربندی فرمائی ہے ۔یہ عمل شاہ جہاں کے دور سے ان کے حکم پر انجام دیا جارہا ہے ۔شاہ جہاں دفن ہوگئے ،ان کے قلعہ پر ترنگا لہرارہا ہے ،ان کے سارے حکمنامے کالعدم قرار دے دئے گئے مگر جامع مسجد کی امامت ان کے حکم پر جاری ہے ۔کیا یہ مفادات کا کھیل نہیں ہے ۔کیا یہی اسوہ رسول ؐ ہے ،کیا یہی اسلام کی تعلیم ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تقریب ناسعید میں بڑے بڑے جید علماء ،جن کے تقویٰ کی داستانیں عوام کو سنائی جاتی ہیں بڑے اہتمام سے جلوہ افروز ہیں ،اور وہ کیوں نہ ہوں ،انھوں نے بھی اپنے اپنے اداروں میں موروثی بادشاہت کو قائم کیا ہوا ہے ؟
ہماری پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر علماء کتمان حق(سچائی کو چھپانا) کے مجرم ہیں ،وہ اللہ کی کتاب کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرارہے ہیں ،وہ حضرت محمد ؐ کو رسول ضرور کہتے ہیں لیکن ’’رسول جو تمہیں دے وہ لے لو اور جس بات سے روکے رک جائو‘‘پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں ،ہماری مذہبی قیادت نے تقویٰ کے دام فریب میں عوام کو گرفتار کررکھا ہے ،ہماری سیاسی قیادت آتش فشانی ،شعلہ بیانی اور نعرہ تکبیر تک محدود ہوگئی ہے ،ان کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ کام پر کوئی ووٹ نہیں دیتا ۔اسی لیے ہم پسماندگی کے غار کی جانب رواں دواں ہیں ۔جب تک ہم اپنی مذہبی اور سیاسی قیادت سے سوال نہیں کریں گے ،جب تک ان سے حساب نہیں مانگیں گے اور جب تک ان کی ذہنی غلامی کا طوق اپنی گردنوں سے نہیں اتار پھیکیں گے،ان کے تقدس کے جال کو نہیں کاٹیں گے پسماندگی کی طرف ہمارا سفر جاری رہے گا ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی مدد ہمیں حاصل ہو اور ہماری دعائیں سنی جائیں تو ہمیں رہبری کے لباس میں ملبوس لات و منات کو پاش پاش کرنا ہوگااورموروثیت کے خلاف جنگ چھیڑنا ہوگی ۔

 

Comments are closed.