ہمارے قومی ضمیر کی بے حسی کا حال؟

عارف عزیز(بھوپال)
ہندوستان کے۱۴۲ کروڑ عوام کے مسائل بھی۱۴۲ کروڑ سے کم نہیں لیکن یہ ایک دلچسپ حساب ہے جبکہ سیاست میں سوال نجی مسائل کا نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے جو اجتماعی نوعیت کے ہوںخصوصاً انسانی زندگی پر ایسے اثرات مرتبت کریں جو تمام انفرادی مسائل کو پس پشت ڈال دیں اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آج کا سب سے سنگین مسئلہ ملک کے ’’قومی ضمیر کی بیداری‘‘ کا ہے جو عرصہ سے محوِ خواب ہے۔
ملک کی ریاست جموں وکشمیر کا چہرہ تشدد سے لہو لہان ہے مگر ہمارے سیاسی رہنمائوں کو اس کا مداوا کرنے سے زیادہ اس آگ میں اپنی روٹیاں سینکنے سے دلچسپی ہے یہی حال فرقہ وارانہ تصادم کا ہے جس کو سب برا کہتے ہیں مگر وقت آنے پر اس آگ میں اپنے ہاتھ سینکنے میں بھی مصروف ہوجاتے ہیں۔
اس طرح ہمارے ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ اپنے مفاد یا اپنی ضرورت کا سوال ہو تو کوئی چیز ناجائز اور غلط دکھائی نہیںدیتی، ہر طرح کی غفلت ہر طرح کا تجاوز بلکہ ہر طرح کی دھاندلی کے آگے یہاں کے عوام اپنی آنکھیں موند کر بیٹھ جاتے ہیں جیسے کہ غلطی کے بجائے یہ عین انصاف وقانون ہو، اگر مفاد یا ضرورت کا سوال نہ ہو تو ہر وہ چیز جو پہلے صحیح اور برحق سمجھی جاتی تھی غلط اور مضر نظر آنے لگتی ہے، اس کے خلاف اخلاق، دیانت قانون، اور جواز کے درجنوں سوال کھڑے کردیئے جاتے ہیں۔
ملک کے سیاست داں تقریر کرتے ہیں تو عوام کو ایثار اور حب الوطنی کا درس پڑھاتے ہیں اور ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھنا اور ایسے ہر کام سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے ملک کے اتحاد وسا لمیت اور عظمت کو نقصان پہونچے، لیکن عمل کا سوال آتا ہے تو ہر آدمی پہلے اپنی ذات ، پھر اپنے خاندان، پھر اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست کو سامنے رکھتا ہے اور یہ تک فراموش کردیتا ہے کہ ہندوستان نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اور وہ اس کا شہری ہے۔
اس بارے میں سیاسی رہنمائوں یا جماعتوں پر تنقید کرنے سے کام نہیں چل سکتا بلکہ خود عوام کے طرزِ عمل کو بھی اسی کسوٹی پر کسنا پڑے گا، کیا یہ وہی عوام نہیں ہیں جو کسی معمولی سے جھگڑے پر مشتعل ہوکر ہنگامہ آرائی پر اتر آتے ہیں ایک دوسرے سے نفرت وعداوت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ بے شمار فسادات کی تاریخ گواہ ہے کہ نہایت معمولی باتون کو بنیاد بناکر ضعیفوں، کمزوروں اور عورتوںکو تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور اس کے بعد ظالم ومظلوم کی نشاندہی یا سچائی وصداقت سے سروکار نہیں رہا بلکہ سیاسی دوکانون کی رونق بڑھانے پر زیادہ توجہ دی گئی۔
گجرات کے جس بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا بار بار حوالہ دیا جاتا رہا ہے ، اس کے بارے میں مرکزی وزیر داخلہ سے لیکر ریاستی وزیراعلیٰ تک نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ گودھرا سانحہ کا ردعمل ہے، جس کے ذمہ دار مسلمان تھے اور اس کے نتیجہ میں مہینوں ریاست گجرات کی مسلم اقلیت کو تباہ وبرباد کیا گیا لیکن بعد کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ گودھرا واقعہ بھی ایک سازش کا نتیجہ تھا، ریل کے ڈبوں میں آگ باہر سے نہیں اندر سے لگائی گئی اور اس میں مرنے والوں کی جو فہرست جاری کی گئی ان میںسوائے چند ایک کے باقی سب زندہ وسلامت رہے لیکن قومی میڈیا نے ان پہلوئوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں اور عوام نے تو انہیں قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا، اس سے بڑھ کر قومی ضمیر کی بے حسی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اسے جو بھی نام دیاجائے یہ کوئی اچانک حادثہ نہیں بلکہ ایک طویل عمل کا فطری نتیجہ ہے جس کی بنیاد خواہ آزادی سے پہلے ہماری عوامی زندگی نے ڈالی ہو تا ہم اس کا عروج آزادی کے بعد ہوا اور رفتہ رفتہ یہ ایک مستقل مرض کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
ملک کے اس عمومی مزاج کا اثر مسلمانوں نے بھی قبول کیا ہے اور اجتماعی مسائل کی طرح مسلمانوں کے ملی مسائل بھی اس کی نذر ہوگئے، مثلاً وقفیہ املاک کے بارے میں عام تاثر ہے کہ اگر ان پر فوری توجہ نہیں دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب شہری اوقاف کی بیشتر جائدادیں ناجائز قبضوں کا شکار ہوکر ختم ہوجائیں گی۔
مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اپنے ان اوقاف کی اس بربادی کو خاموشی سے دیکھ رہا ہے جن کی مالیت کا اندازہ ۲۰ سے ۲۵ ارب روپے لگایاجاتا ہے اگر مدھیہ پردیش کی طرح اس کی آمدنی سے رینٹ کنٹرول کی گرفت اٹھادی جائے تو اس سے سالانہ ۲۰ سے ۲۵ کروڑ روپے کی آمدنی ہوسکتی لیکن اجتماعی ضمیر کی موت کا نتیجہ ہے کہ عام مسلمان اس حقیقت سے واقف نہیں، نہ ان کو اس بارے میں کوئی فکر لاحق ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں اختلاف وانتشار، مسلکی جھگڑے، شیعہ وسنی تنازعے، کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں، اور ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں بالخصوص شمالی ہند کی مسلم اقلیت میں مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جارہی ہے جس کو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی بے حسی کے سوا اور کیا نام دیاجاسکتا ہے۔٭
Comments are closed.