پٹنہ ریلی : شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

 

ڈاکٹر سلیم خان

وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں ایک حیرت انگیز خبریہ آئی کے انہوں نے اپنے وزراء کے ساتھ بیٹھ کر ان کے کاموں کا جائزہ لیا ۔ کسی وزیراعظم کا ایسا کرنا معمولی بات ہے لیکن مودی جی سے منسوب یہی خبر حیرت ناک ہے کیونکہ  دس سال حکومت کرنے کے بعد بھی انہیں یہ ادراک نہیں ہوا کہ وہ  بی جے پی کے پرچار منتری نہیں بلکہ ملک کے پردھان منتری ہیں۔  مودی جی اگر یہ انتخاب ہار گئے تو ان کے بارے میں مورخ لکھے کا وہ  سنگھ کا پرچارک دس سالوں تک پروپگنڈا منسٹر بنا رہا یعنی دن رات اپنی پارٹی کا پرچار کرتے ہوئے  جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔     وزیر اعظم فی الحال سرکاری خرچ پر دس دنوں کے اندر بارہ صوبوں میں جاکر بھاشن بازی کررہےہیں ۔ ان خبروں پر کسی کو کوئی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہی سب کرتے ہیں  لیکن درمیان میں وزراء کے جائزے کی خبر نے عوام کو چونکا دیا ۔ سوال یہ ہےکہ جس شخص نے اپنے فرض منصبی کو پوری طرح فراموش کردیا ہو وہ بھلا دوسروں کی کارکردگی کا جائزہ کس منہ سے لے گا لیکن  مودی ہے تو ممکن ہے  وہ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔

وزیر اعظم کی اس حرکت پر عوام اسی طرح کھلکھلا کر ہنس پڑے جس طرح  پچھلے دنوں بہار کے اورنگ آباد میں خود مودی جی نے نتیش کمار کی تقریر میں ایک جملے پر خوب دل کھول کر قہقہہ لگایا تھا۔  وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں جب  کہا کہ    وزیر اعظم نریندر مودی تقریبا ڈیڑھ سال بعد ایک بار پھر بہار کے دورے پر ہیں۔ یعنی جیسے ہی اقتدار گیا مودی جی بھی گئے۔ انہوں نے بہار کی جانب پھٹکنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ جہاں کوئی سیاسی فائدہ نہ ہو وزیر اعظم نہیں جاتے اور نہ اس صوبے کے لیے کوئی مرکزی پروجکٹ شروع کیا جاتا ہے، الٹا ان صوبوں کا بقایہ جات اور جی ایس ٹی تک نہیں دیا جاتا لیکن اب  اپنی پارٹی کی ریاستی سرکار کو مضبوط کرنے کے لیے  تقریباً 21.5 ہزار کروڑ روپے کا تحفہ لے کر پہنچ گئے۔ اورنگ آباد کےخطاب  میں  بہار کے سی ایم نتیش کمار نے اسٹیج سے وزیر اعظم مودی کو مخاطب کرکے  کہا کہ جب آپ پہلی بار بہار آئے تھے توہم  آپ  کے ساتھ تھے۔ کچھ دنوں کے لیے  میں وہاں گیا تھا۔اب  آپ کے ساتھ دوبارہ آگیا ہوں اور  اب آپ کے ساتھ  ہی رہوں گا۔ اب ادھر ادھر نہیں جاوں گا۔  میں یقین دلاتا ہوں کہ میں اب کہیں نہیں جاؤں گا۔رنگے ہاتھ پکڑے جانے والی  بدکردار بیوی کی مانند جب نتیش کمار  مستقبل میں وفاشعاری کا یقین دلا رہے تھے  تو  وزیر اعظم  مودی اور بہار کے گورنر راجندر وشواناتھ آرلیکر اپنی ہنسی نہیں روک سکے اور ان کا ویڈیو جنگل میں آگ کی مانند وائرل ہوگیا کیونکہ ’وہ تو ہونا ہی تھا‘۔

بہار  کے شہر اورنگ آباد میں سمراٹ  مودی اور ان کے بہاری چانکیہ کی ریلی  میں میڈیا کا کیمرہ اسٹیج پر مرکوز تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ  تھی کہ جہاں وزیراعظم موجود ہوں گودی میڈیا کے کیمرے فیویکول لگا کر ان سے چپک جاتے ہیں ۔ نمک حلالی کایہی تقاضہ ہے کہ ان کو دکھایا جائے اور انہیں کو دکھایا  جائے تاکہ میڈیا ہاوس پر اشتہارات کی بارش ہوتی  رہے اور نامہ نگار کو بھی انعام و اکرام  ملتا  رہے۔  اس کی دوسری وجہ  خالی میدان کو چھپانا ہوتا ہے۔ آج کل وزیر اعظم کے جلسوں میں لوگوں کو دیہاڑی دے کر لانا پڑتا ہے۔ ایسے میں عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر تو نظر آنے سے رہا ۔ کرائے کے ٹٹو نعرے تک نہیں لگاتے اور جب انہیں مجبور کیا جاتا ہے تو نعرے بازی میں کوئی جوش و خروش نہیں ہوتا ۔ اس لیے میڈیا اور بی جے پی کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسٹیج کے اوپر کیمرہ لگا کرتلخ حقائق سے آنکھیں موندلی  جائیں اور عوام میں یہ بھرم قائم رہے کہ خطاب عام بہت ہی کامیاب رہا ۔ اسی جھانسے کے سہارے بی جے پی اگلا انتخاب جیتنا چاہتی ہے لیکن یہ بھرم مٹنے لگا ہے اور آزاد سوشیل میڈیا پر حقائق آکر تیزی سے پھیل جاتے ہیں ۔

 مودی اور نتیش کی  ریلی کے اگلے ہی دن بہار کی راجدھانی پٹنہ میں  واقع گاندھی میدان میں  مہاگٹھ بندھن کی ’جَن وشواس ریلی‘ نے دنیا کو دِ کھا دیا کہ جلسۂ  عام کیسا ہوتا ہے؟ اس ریلی میں کیمرہ بار بار عوام کی جانب مڑ جاتا اور ان کے عزم و حوصلے سے  ناظرین کو واقف کراتا تھا۔  پٹنہ کی جن وشواس(عوامی اعتماد) ریلی میں حزب اختلاف نے اپنے زبردست اتحاد ثبوت دیا۔  وہا ں پر لاکھوں کی بھیڑ کے سامنے آر جے ڈی سربراہ  لالو پرساد یادو، کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی، سی پی آئی چیف ڈی راجہ، سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری، سیتارام یچوری اور سماجوادی پارٹی سپریمو اکھلیش یادو جیسی ہستیاں موجودتھیں۔ جے ڈی یو  کاانتخابی نشان تیر ہے مگر  اس  خطاب عام میں بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر زوردار انداز میں طنز کرکے گویا  اپنے سابق حلیف پر تیروں کی بارش کردی ۔

تیجسوی یادو  نے جم غفیر  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک گانا سنے ہیں آپ لوگ۔ رتک روشن کی فلم کا گانا ہے۔ اِدھر چلا میں اُدھر چلا، جانے کہاں میں کدھر چلا، ارے پھسل گیا…۔‘‘ یہ گانا گنگنانے کے بعد تیجسوی نے کہا ’’ارے چاچا جی، آپ بزرگ ہیں آپ کو یہیں سے ہاتھ جوڑ کر پرنام۔ لیکن ایک بات طے ہے۔ جنتا دل یو 2024 میں ختم ہو جائے گی۔ آپ اِدھر چلیے، اُدھر چلیے، آپ کا کچھ بچے گا ہی نہیں تو آپ پھسل جاؤ گے، کہیں کے نہیں رہو گے۔‘‘وزیر اعظم نریندر مودی ہر بار اپنی ٹوپی سے نیا کبوتر نکالتے ہیں کیونکہ پرانا والا تو لہولہان ہوکر سسک رہا ہوتا ہے مثلاً ایک زمانے میں اچھے دن آنے والے تھے اب خود مودی جی نے انہیں بھلا دیا ہے کیونکہ اڈانی اور امبانی کے سوا کسی اچھے دن آئے ہی نہیں۔ آج کل   نیا ڈائیلاگ ہے ’مودی کی گارنٹی‘ ۔ اس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بہار کے سابق نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت   وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بھی رگڑ دیا۔ تیجسوی یادو نے پی ایم مودی کو چیلنج کیا کہ آپ مودی کی گارنٹی کی بات کرتے رہتے ہیں، لیکن کیا آپ اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ نتیش کمار آپ کو دوبارہ نہیں چھوڑیں گے۔

  نتیش کمار جیسے مہا پلٹو رام کی یقین دہانی پر  مودی  سمیت اسٹیج پر موجود سارے لوگوں کا قہقہہ گواہی دیتا ہے کہ اس بات  کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا  ، خود نتیش کمار بھی نہیں کیونکہ اقتدار پر فائز رہنے کے لیے یا خود  کو  جیل جانے سے بچانے کی خاطر وہ کب کہاں  نکل جائیں گے خود انہیں بھی نہیں معلوم  ۔ اس کے برعکس شیر کی مانند چنگھاڑ کر تیجسوی نے کہا کہ ہم نہ ڈریں گے اور نہ جھکیں گے بلکہ ہم جیتیں گے ۔     بی جے پی شکست فاش سے دوچار کرنے کی خاطر اسی طرح کا عزم و حوصلہ درکار ہے۔ پٹنہ کی اس مہا ریلی کے چار   اہم  سیاسی پیغامات ہیں۔پہلا تو یہ ہے کہ اگر مہاریلی نتیش کمار کی موجودگی میں ہوئی ہوتی  تو اس کا سارا کریڈٹ وزیر اعلیٰ کی جھولی میں چلا جاتا اور وزارت  اعظمیٰ کے دعویدار بن کر ابھرتے مگر  ان کی تقدیر خراب ہے جو یہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ بات انڈیا وفاق کے لیے بہت مبارک ہے کیونکہ انتخاب کے بعد  اگران کا سب سے بڑا رہنما پھسل جاتا تو بڑی ہزیمت ہوتی ۔ اس لیے ممتا بنرجی کا ردعمل درست معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر جانے سےنتیش  کا پہلے ہی نکل جانا بہتر ہے۔

دوسرا پیغام یہ ہے کہ اگر بہار میں انڈیا وفاق کی حکومت  ہوتی تو یہ الزام لگتا کہ انتظامیہ کی مدد سے بھیڑ جٹائی گئی ہے لیکن یہاں تو ڈبل انجن سرکار رکاوٹیں کھڑی کررہی تھی اس کے باوجود یہ حالت تھی کہ   جتنے لوگ گاندھی  میدان کے اندر تھے اس سے  بڑا مجمع باہر تھا ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ تیجسوی یادو سے بہار کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو کیسی توقعات وابستہ  ہیں ۔  سچ تو یہ ہے کہ نتیش کمار تو ان کے سامنے بونے ہیں اور ان  کی تقریر کا جوش و خروش  دیکھ کرایسا تھا کہ اب  لالو پرشاد یادو بھی  تیجسوی کے آگے پھیکے پڑ گئے  ہیں ۔ پٹنہ کی جن سمپرک (عوامی رابطہ ) ریلی  کا سب سے اہم پیغام یہ تھا کہ   اس میں  تیجسوی یادو جیسے جواں سال  رہنما  کے علاوہ راہل گاندھی ، کنہیا کمار، عمران پرتاپ گڑھی  اور اکھلیش یادو  کی مانند نئی نسل کے رہنماوں کی پوری ٹیم تھی۔ اس کے مقابلے بی جے پی کو دیکھیں تو اس  کی کہانی مودی سے شروع ہوکر مودی پر ختم ہوجاتی ہے اور ان کی عمر 74؍  سال ہے۔ مودی نہ صرف نوجوان قیادت کو ابھرنے نہیں دیا بلکہ اپنے  ہمعصر شیوراج چوہان ، وسندھرا راجے سندھیا،نتن گڈکری اور راجناتھ  کو بھی ٹھکانے لگادیا۔ مودی راج میں صرف امیت شاہ اور یوگی ادیتیہ ناتھ  آگے آئے مگر وہ دونوں بھی جانشینی کے لیے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں ۔  بی جے پی کا انتشار اور حزب اختلاف کا اتحاد کیا گل کھلائےگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

 

 

Comments are closed.