مہاراشٹر و بہار: الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں

ڈاکٹر سلیم خان
بھارتیہ جنتا پارٹی کے195؍ امیدواروں کی فہرست میں مہاراشٹر اور بہار کا ایک بھی نام نہیں ہے حالانکہ ان دونوں صوبوں میں ڈبل انجن سرکار ہے۔ مہاراشٹر کو سنگھ پریوار کا صدر دفتر کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس ملک میں بیشتر لوگ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ موجودہ سرکار دہلی کے بجائے ناگپور سے چلتی ہے۔ ایسے لوگوں کو بتانا چاہیے کہ آخر گجرات اور اترپردیش کی مانند مہاراشٹر کے نتن گڈکری سمیت کسی امیدوار کے نام کااعلان کیوں نہیں ہوا؟ وزیر داخلہ کو دہلی سے دوڑ کر مہاراشٹر کےاورنگ آباد کیوں آنا پڑا؟ اور بہار کے اورنگ آباد میں نتیش کمار کے ساتھ خطاب عام کرنے کے باوجود وزیر اعظم بے نیل و مرام کیوں لوٹے؟ اترپردیش کے بعد سب سے زیادہ نشستیں انہیں دو صوبوں سے آتی ہیں اور ان کے کل ارکان پارلیمان کی تعداد یوپی سے زیادہ ہے۔ ان ریاستوں کے اندر اگرکمل کیچڑ میں پھنس جائے تو400 نہیں بلکہ 272 کے لالے پڑ جائیں گے۔ اسی لیے وزیر اعظم اور ان کا بایاں ہاتھ پھڑ پھڑا رہے ہیں لیکن وہ جھٹپٹا ہٹ کسی کام نہیں آرہی ہے۔ان مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے ۔
مہاراشٹر کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی علی بابا کے چالیس چوروں والے غار میں پھنس کر’ کھل جا سم سم‘ کے بجائے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہی ہے اور دروازہ کھل کر نہیں دے رہا۔ الف لیلیٰ کی اس کہانی میں علی بابا کے علاوہ چالیس چوروں کاسردار اور قاسم و مرجینا کے کردار نیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان میں علی بابا ایک ایماندار لکڑ ہارا اور اس کا بھائی قاسم لالچی انسان ہے۔ ان کو ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے سمجھ لیا جائے تو صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک زمانے تک برادرانہ رشتہ تھا بلکہ شندے کو ادھو کا دست راست تھا۔ علی بابا اپنے گزر بسر کی خاطر محنت مزدوری کرتا تھا وہیں قاسم نےایک امیر زادی کے ساتھ شادی کرکے اپنی غربت سے چھٹکارہ پا چکا تھا۔ اس سے ان دونوں ذہنیت کے فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔ علی بابا اور چالیس چور کی کہانی جب ملک شام سے سرزمین ہند پر آئی تو اس کے اندر یہ تبدیلی واقع ہو گئی کہ یہاں ابتداء میں علی بابا اور چالیس چوروں کے سردار یعنی وزیر اعظم نریندر مودی کی دوستی ہوگئی۔ اس رفاقت کے سبب اور ان دونوں نے ایک ساتھ2014 کا پارلیمانی انتخاب لڑا نیز اس میں زبردست کامیابی درج کرائی ۔
علی بابا کو امید تھی کہ اس کے چند ماہ بعد ریاستی انتخابات میں سردار ان کے ساتھ بڑے بھائی جیسا سلوک کرے گا مگر وہ مغرورہوگیا اور اس کی نیت بدل گئی۔اس نے پھر سے علی بابا کو چھوٹا بھائی بنانے کی کوشش کی تو بات بگڑ گئی اور دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑااور کسی کو واضح کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے بعد سردار نے علی بابا کی جانب پھر سے دوستی کا ہاتھ بڑھاکر حکومت کا حصہ دار بنالیا۔اگلا یعنی 2019؍ پارلیمانی و ریاستی انتخاب دونوں نے مل کر لڑا اور زبردست کامیابی درج کرائی۔ اس بار ریاستی انتخاب میں کامیابی کے بعد علی بابا نے سردار کو اس کا وعدہ یاد دلاکر پچاس فیصد مدت کے لیے صوبائی سرداری کادعویٰ ٹھونک دیا۔ اس کو مطالبہ کو سن کر سردار آگ بگولا ہوگیا اور اس نے ایک نئے چور اجیت پوار کو ساتھ لے لوٹ مار کا کاروبار چلانے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی ۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر مرجینا یعنی شرد پوار نے کانگریس کو ساتھ لے کر غار کے دروازے پر کھل جا سم سم کی صدا لگائی ۔ دروازہ کھل گیا اور پھر اندر کے سارے مال و متاع کا مالک بناکر علی بابا کو سردار ی سونپ دی ۔
مرجینا کی اس چالاکی سے سردار آگ بگولا ہوگیا ۔ اس نے انتقام لینے کی غرض سے علی بابا کے بھائی قاسم کو اپنے گروہ میں شامل کرکے پھر سے غار کے خزانے پر قبضہ کرلیا ۔ قاسم نے سرداری پر اپنا دعویٰ کردیا اور سردار کو بحالتِ مجبوری اسے قبول کرنا پڑا۔ قاسم کی آڑ میں لوٹ مار کا کاروبار پھر سے زور و شور کے ساتھ چل پڑا تھا ۔ پولیس قاسم یا سردار کے بجائے علی بابا اور مرجینا کو پریشان کر رہی تھی ۔ اس دباو کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرجینا کا بھتیجا اجیت ٹوٹ کر قاسم اور چوروں کے گروہ میں شامل ہوگیا۔ علی بابا اور مرجینا اپنا مقدمہ لے کر عدالت میں پہنچے تو ایک طویل انتظار کے بوس چوروں کو ساہوکار قرار دینے کا راستہ کھول دیا گیا ۔ یہ لوٹ مار کا کاروبار زور و شور سے جاری تھا کے درمیان میں پھر سے قومی انتخابات سر پر آگئے ۔ اس طرح قاسم یعنی ایکناتھ شندے اور اجیت پوار نے اپنا حصہ طلب کیا تو انہیں اپنے پنجرے کے طوطے الیکشن کمیشن کے ذریعہ اصلی شیو سینا اور این سی پی قرار دینے والا سردار پھنس گیا اور نشستوں کابنٹوارا مشکل میں پھنس گیا۔
پچھلے قومی انتخاب میں شیوسینا اور این سی پی نے مہاراشٹر میں کلین سویپ کیا تھا جبکہ این سی پی کی تو بہت کم نشستیں ملی تھیں اس لیے ان کے ساتھ ریاستی الیکشن میں مسئلہ پیش آئے گا مگر شیوسینا اور بی جے پی نے یکساں تعداد میں نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اب ایکناتھ شندے اُن حلقوں پراپنار دعویٰ پیش کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ وہ انہیں جیت نہیں سکتے ۔ بی جے پی بھی یہ جانتی ہے اور خودان کو بھی اس کا علم ہے لیکن وہ سردار کی مجبوری کا پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ایکناتھ شندے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مطلب نکل جانے کے بعد بی جے پی ان کو ٹیشو پیپر کی مانند کوڑے دان میں پھینک دے گی بلکہ اپنی پارٹی سے غداری کے لیے جو رقم انہیں دی گئی ہے اس کے شواہد دکھا کر بلیک میل بھی کرے گی اس لیے وہ اپنی طاقت کو بڑھانے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے ۔ اس بار جیسا کہ توقع ہے بی جے پی ۲۷۲ نشست بھی نہیں جیت پائے گی اس لیے اگر نئی حکومت شیوسینا کی حمایت پر انحصار سے بنے تو ایکناتھ شندے اسے سرکار گرانے کی دھمکی دے کر ڈراتے رہیں گے۔
مہاراشٹر میں امیدوار کا اعلان میں تاخیر کی وجہ یہی رسہ کشی ہے اور بیچارے نتن گڈکری کی جان اٹکی ہوئی ہے۔ مودی جی نے اگر گڈکری کا کانٹا نکال دیا تو سنگھ کیا کرے گا یہ دیکھنے کی بات ہوگئی۔ آر ایس ایس نے اگر مودی کی اس دھاندلی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا تو اسے بھی ساورکر کی مانند غیر مشروط وفاداری کا خط لکھنے کے لیے مجبور کردیا جائے گا۔بہار کی کہانی مختلف اور پیچیدہ ہے وہاں بی جے پی کے بھان متی کا کنبہ پر ’ایک انار اور سو بیمار‘ کی کہاوت صادق آتی ہے۔ اس لمبے چوڑے مشترکہ خاندان میں نتیش کمار کے علاوہ لوک جن شکتی پارٹی کی دو شاخیں ہیں۔ ان میں سے ایک کے رہنما چراغ پاسوان اور دوسرے کی سربراہی ان کے چچا پشوپتی سنگھ پاسوان کرتے ہیں ۔ ان تینوں کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ نتن رام مانجھی کی ہندوستان عام مورچہ اس میں شامل ہے۔ اوپندر کشواہا کی راشٹریہ لوک جنتا دل اور وکاس شیل انسان پارٹی کے مکیش ساہنی بھی اس وفاق کا حصہ ہیں ۔ بہار کا مسئلہ یہ ہے کہ پچھلی بار جنتا دل (یو ) اور بی جے پی دونوں میں سے ہر ایک نے 17 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا اور انہیں جملہ ۳۳ نشستوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ 6 نشستیں متحدہ ایل جے پی نے جیت لی تھیں ۔ اس طرح 39 نشستیں این ڈی اے کی جھولی میں آگئی تھیں اور ایک پر کانگریس کامیاب رہی تھی۔
اس بار جنتا دل (یو) اس میں سےایک بھی سیٹ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں ایل جے پی کو ۶؍ سے کم پر راضی کرنا ناممکن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ باقی تین حامیوں کو کیا روتا بسورتا چھوڑ دیا جائے گا؟ اور ایسا ہوا تو کیا وہ مخالفت نہیں کریں گے؟ بلکہ بعید نہیں کہ ریاستی سرکار گرادیں ۔ ویسے بھی صوبائی اسمبلی کے اندردونوں محاذوں کی تعداد میں بہت کم فرق ہے۔بہار کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ بیاہ رچانے سے قبل دو شرائط رکھی تھیں پہلی تو یہ کہ قومی انتخاب کے ساتھ ریاستی الیکشن کرائے جائیں۔ اس میں بی جے پی کو کوئی خاص دقت نہیں ہے مگر دوسری شرط یہ تھی کہ چراغ پاسوان کو دور رکھا جائےکیونکہ انہیں کی مخالفت نے نتیش کمار کو تیسرے نمبر پر پہنچا دیا تھا۔ بی جے پی کے لیے اب یہ دھرم سنکٹ ہے کہ اگروہ چراغ پاسوان نامی ہنومان کو ساتھ رکھے تو نتیش نامی لکشمن بھاگ جاتا ہے اور اسے دور کرنے کی صورت میں پاسوان اپنی وانر (بندر )سینا کو لے کر تیجسوی کے خیمے میں جا سکتا ہے ایسے میں بیچارے چانکیہ کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ اپنے حصے میں کیا رکھے اور کشواہا، سینی ، مانجھی دو عدد پاسوان کو کیا دے ۔ بی جے پی کی اس حالتِ زار پر مومن خاں مومن کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
Comments are closed.